اِک جاں پروری اور ’ڈئیوس، علی اور دیا‘


علاقے کے تمام پٹرول پمپس کے ٹائیلٹس کی صفائی چیک کرنے کے لیے ایک بڑے ادارے کے ریٹائرڈلوگوں کو اس شرط پر بھرتی کیا جا رہا ہے کہ اُن کے پاس اپنا سمارٹ فون ہو تاکہ گندگی کی تصاویر نئے چئیر مین میونسپل کمیٹی کو واٹس ایپ کرسکیں۔ شیخ سعدی، مرزا غالب، عبدالستار ایدھی اور سٹیفن ہاکنگ نے مل کر عالم ِ ارواح سے ایک سہ ماہی ’انسان‘ جاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس کے پہلے شمارے کے سرورق کے لیے لکھنؤ سے محوِ رقص امراؤ جان ادا کی ایک تصویر منگوائی گئی ہے اوراس خدمت کے لیے الیاس کبیر ملتان والے مضطرب ہیں۔

اٹلی کے ایک نوجوان گلیلیو نے جب یونان کے بوڑھے ارسطو کی اس بات کو کہ دس پونڈ کا وزن ایک پونڈ کی بہ نسبت زمین پر دس گنا تیزی کے ساتھ گرے گا غلط ثابت کیا توبابے رحمتے نے ازخود نوٹس لے لیا اور توہینِ ارسطو پر گلیلیو کی دوربین ضبط کرتے ہوئے بینائی سے محرومی کی بددعا سنادی ہے۔ اُردو حروفِ تہجی کے دو نوں ”کافوں“ نے ایک دوسرے کی منفرد پہچان کو بہ ظاہر قبول کر لیا ہے لیکن سفائرکے دو دو پیگ لگانے کے بعداس قبولیت کا ”حقیقی اظہار“ مقامی زبان سرائیکی میں کرتے ہیں۔

ڈی جی نیب کی معافی کے بعد بیشتر بیوروکریٹس اپنے دفاتر کے باہر آویزاں تختیوں پر ”سابق پروفیسر، ادارہ ا۔ ب۔ ج“ لکھوا رہے ہیں۔ ایک حاملہ دکھائی دینے والی بکری نے موجودہ سرکار سے مقامی سطح پر منعقدہ میراتھن میں بھاگنے کا معاوضہ صرف پینتالیس ٹکے فی ششماہی مانگا ہے۔ اور سب سے اہم اور آخری بات یہ کہ موسمیاتی تبدیلی آتے ہی پگھلنے کے ڈر سے ہمالہ نے جماعتِ اسلامی جوائن کر لی ہے۔ یہ سب ہم نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کمزور دل پہ سہا اور پھرآسمانی دیوتا ڈئیوس اور دیوی دِیا کے بیچ دیوار بننے کے لیے تیارکھڑے ایک ایسے پاکستانی نوجوان علی کمال ہمدانی کی کہانی کی طرف متوجہ ہوئے جو نوجوانی میں ہر خوبرو لڑکی کے ہونٹوں تک پہنچتے ہی گھر بیٹھی مجبو ر ماں، سفید پوش باپ اور غیر شادی شدہ بہن کا سوچنے لگتا ہے۔ اسی سوچ میں جب نوجوانی اور جوانی دونوں بیت جاتی ہیں تو بیوروکریٹ بن کر وہ بالآخر شیزوفرینیاکے انجام کوپہنچتا ہے۔

’ڈئیوس، علی اور دیا‘ لاہور میں مقیم جناب نعیم بیگ کا تازہ ناول ہے جو کچھ عرصہ پہلے عکس پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوا۔ اس سے پہلے نعیم بیگ دو انگریزی ناولوں ’ٹرپنگ سول‘ اور ’کوگن پلان‘ اور دو افسانوی مجموعوں ’یو ڈیم سالا‘ اور ’پیچھا کرتی آوازیں‘ سے ادبی حلقوں میں متعارف ہو چکے تھے۔ پیشہ وارانہ زندگی میں وہ بینکاری اور انجینئرنگ منیجمنٹ سے متعلق رہے ہیں۔ اب ریٹائرڈ لائف کا زیادہ وقت ادبی محافل میں شریک ہو کر، لائبریریوں میں، کہانیاں اور کالم لکھ کر، اپنے سمارٹ فون کونرانگشت سے چھیڑتے ہوئے یا اپنی کتب کے اُن پبلشرز کو کوستے ہوئے گزارتے ہیں جنھیں رتی برابر احساس نہیں ہوتا کہ تخلیق کار کس اذیت سے گزر کر لکھتا ہے اور وہ کمپوزنگ اور چھپائی کے مراحل میں اُس تخلیق کابیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔

نعیم بیگ 1951 ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور بچپن سے جوانی تک کا عرصہ مختلف شہروں میں گزارا۔ اُن کے والد جو الیکٹرک ٹرانسمیشن کمپنی میں ملازم تھے مختلف شہروں میں ٹرانسفر ہوتے رہے۔ نعیم بیگ گوجرانوالہ اور لاہور سے بھی زیادہ کوئٹہ شہر کے ساتھ جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں کہ وہاں بہت سی یادیں بسی ہیں۔ روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر بھی لگ بھگ تین برس گزارچکے ہیں۔ ’ڈئیوس، علی اور دیا‘ کے مرکزی کردار علی کمال کے بہت سے معاملات میں خود نعیم بیگ کے سوانحی حالات کی جھلک موجود ہے بالخصوص بچپن کے واقعات اور ملک سے باہر گزرے وقت کے مشاہدات اور تجربات میں نعیم بیگ اور علی کمال میں کافی مماثلت ہے۔

’ڈئیوس، علی اور دیا‘ کسی بھی قسم کے مشکل بیانیے، تکنیک اور علامتوں سے پاک ایک سپاٹ کہانی ہے جو ایک مرکزی کردار علی کمال کے بچپن سے شروع ہو تی ہے اورہمارے مجموعی نظام کے جبر سے شیزو فرینیا کے نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہونے اور اُس سے باہر نکلنے کی طرف پیش رفت کے دوران دوبارہ اُسی حالت میں دھکیلے جانے پر ختم ہوتی ہے۔ ناول کے ضمنی کرداروں میں ویکلی ’روشن آسمان‘ کے فیچر سیکشن کی انتہائی لبرل انچارج سارہ قزلباش اور اُس کا اسسٹنٹ نعمان احمد سب سے اہم ہیں۔

ناول ان دونوں کے مکالموں سے شروع ہوتا ہے اور ان دونوں کے مکالموں پر ہی ختم ہوتا ہے۔ یہ مکالمے ناول کی کہانی سے براہِ راست متعلق نہیں ہیں اوران کی صحت بھی قدرے خراب ہے۔ نعمان اپنی باس سارہ میں بہت زیادہ انوالو ہے لیکن ناول نگار نے اس بیچارے کے ساتھ بھی مرکزی کردار علی کمال جیسا سلوک برتتے ہوئے بھیگتی رات کے ٹرانس میں بادبانی کشتی پر سوار سارہ کے بہت قریب لا کر صرف اس لیے پیچھے ہٹا دیا ہے کہ باس ناراض ہو گئی تو کیرئیر بھی ہاتھ سے جائے گا۔

”کیرئیر“ وہ نفسیاتی خوف ہے جو پورے ناول میں فطری انسانی جذبات کو قابو میں رکھنے یا بیشتر جگہوں پر دبانے کا آلہ بنا ہے۔ اس ناول میں سارہ کا کردار ایسی جرنلسٹ کا ہے جو کم از کم ہمارے موجودہ صحافتی نظام میں تو بالکل نہیں چل سکتا یعنی وہ میگزین کی پالیسی سے زیادہ سماجی روایات کے عالمی تناظر میں ذہنی ترقی کو وسعت دینا اہم سمجھتی ہے اور کہتی ہے کہ قاری تو مصالحہ دار فیچر پسند کرتا ہے لیکن مجھے قاری کو دیکھ کر فیچر نہیں دینا بلکہ ثقافتی رویوں کے تنزل کو سنبھالنے والا کچھ لکھنا ہے (ص 10 )، وہ ایسی جرنلسٹ ہے جو حقیقت میں یہ سوچتی ہے کہ ہماری سوسائٹی سے عدل و انصاف عنقا ہوتا جا رہا ہے اور میڈیا کے معاشی مفادات اور ذاتی عناد حقیقی قومی مفاد اور انفرادی اخلاص و سچائی پر حاوی ہو رہے ہیں (ص 236 )، وہ ایسی جرنلسٹ ہے جس کے خیال میں ہمارے پورے نظام کو ناکام کرنے والی نسل عالم ِ نزع میں ہے اوروقت کی ڈوریں نئی نسل کے ہاتھ میں ہے سو وہ خود کو ریاست قرار دیتے ہوئے پورے نظام سے بھڑ جانے اور مرجانے کے لیے تیار ہے اور کہتی ہے کہ میں بے انصافی نہیں ہونے دوں گی(ص 239 )، آج کے سیٹھ کے میڈیا میں ایسے جرنلسٹ بھلا کہاں ملتے ہی، اگرکچھ سارہ جیسے جذباتی یا سرپھرے اس فیلڈ میں آبھی جائیں تو یہاں ٹھہر نہیں پاتے یا پھر بہت جلداِس بلیک میلر اور بکاؤ نظام کا کل پرزہ بن جاتے ہیں۔

ہمیں تو یہ کردار اور اس سے جڑے تمام واقعات اور مکالمے بہت مصنوعی سے لگے جو ’ڈئیوس، علی اور دیا‘ کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے سہارے کے طور پر گھڑے گئے ہیں۔ خاص طور پر آخری باب جو تقریباً پورے کا پورا سارہ اور نعمان کے درمیان گفتگو پر مبنی ہے ناول کو فنی اعتبار سے کمزور کر دیتا ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ دو سو صفحات پر ایک کہانی بیان کرنے کے بعداُس کہانی پر تبصرہ کرنے اورقارئین کواُس کا موضوع سمجھانے کی ضرورت ناول نگار کو کیوں پیش آئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

خاور نوازش

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

خاور نوازش

ڈاکٹر خاور نوازش بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اُردو اور ہندی تنازع کی سیاسی، سماجی اور لسانی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اُن کے پہلی کتاب‘ مشاہیرِ ادب: خارزارِ سیاست میں’ 2012ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ ‘ادب زندگی اور سیاست: نظری مباحث’ کے عنوان سے اُن کی دوسری کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نےشائع کی۔ اُردو کی ادبی تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ عصری سیاست اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔ اُن سے اس میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔[khawarnawazish@bzu.edu.pk]

khawar-nawazish has 5 posts and counting.See all posts by khawar-nawazish