اِک جاں پروری اور ’ڈئیوس، علی اور دیا‘


ڈئیوس غیر مرئی طور پر اس سیچویشن میں نمودار ہوا اور ایجنسیوں نے علی کمال کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا۔ یہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا اور علی کوجو بیورکریسی سے استعفیٰ دے چکا تھا، اُس کے پرانے ’محکمہ جاتی شریکوں‘ نے اپنے کرتوت چھپانے کے لیے ایک میگا کرپشن اسکینڈل میں پھنسا دیا تھا۔ گوکہ علی کے مالی اثاثے اُس الزام سے مطابقت نہ رکھتے تھے لیکن دِیا اور اُس کے غیر ملکی دوستوں سے علی کی ملاقاتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایجنسیوں کو یہ الزام لگانے میں آسانی ہوئی کہ علی کمال اس کرپشن سے اکٹھی کی گئی تمام کمائی ملک سے باہر منتقل کر چکا ہے۔

ناول کے اس حصے میں نعیم بیگ نے پاکستانی اشرافیہ کی بے پناہ طاقت اور بالخصوص دورِ آمریت میں مارشل لاء کی اس نظام کو بھرپور سپورٹ کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ علی اپنے سابقہ محکمے کی سازش کا شکار ہوتا ہے، جیل میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنتا ہے، عدل و انصاف کے لیے تڑپتا ہے، دِیا کو ہمیشہ کے لیے کھو دیتا ہے، امبر بھی اُس سے خلع لے چکی ہے اورخاندان کا آخری ساتھ جو بہن کی صورت میں باقی تھا اُس کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔

اُس کی زندگی میں اب مکمل اندھیراہے۔ اُس نے حتی الامکان کوشش کی کہ اپنی ڈار سے نہ بچھڑے لیکن ڈار کی ڈار اُسے اکیلا چھوڑ گئی۔ ان حالات میں علی کمال کا کالج کا دوست اور سی ایس ایس بیج میٹ حمزہ درانی جو اب وفاقی ہوم سیکرٹری بن چکا تھا اُس کی رہائی اور حالات کو واپس معمول پر لانے کی کوشش کرتا ہے لیکن تنہائی، منتشر خیالات، دوست کے سامنے شرمندگی، معاشرے میں خجالت، جسمانی تشدد، غصہ، سماج سے نفرت اور بے بسی کا احساس مل کر اُس علی کو شیزوفرینیا کا مریض بنا دیتے ہیں۔

بروقت علاج ملنے سے اُس کی حالت سنبھلنے لگتی ہے۔ لیکن اشرافیہ کو ڈر ہے کہ اگرعلی سنبھل گیا تو وہ اس نظام کے خلاف کھڑا ہوسکتا ہے، سچ لوگوں کے سامنے آ سکتا ہے اور بابوؤں کی دنیا کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔ سو محکمۂ داخلہ والے اُسے دوبارہ اٹھا کر جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ ڈئیوس دیوتا کی طاقت کے سامنے ہر کوئی بے بس ہے۔ اس کے نمودار ہونے سے اس ناول کے پلاٹ کو ایسا ٹوسٹ ملتا ہے کہ علی کی زندگی میں یکسر تاریکی چھا جاتی ہے۔ یہ ڈئیوس ہماری اشرافیہ اور کولونیل دور میں بچھایا گیا اس کا وہ مضبوط نظام ہے جواُن کے مفادات کا محافظ ہے۔ اس کی منہ زوری کے سامنے اس دھرتی کا ہر عام باشندہ بے بس ہے۔

نعیم بیگ نے یہ ناول اپنی آنکھوں میں آزادی کا خواب سجائے ان کروڑوں پاکستانیوں کے نام کیا ہے جنھیں نئے ملک میں نئی زنجیریں ملیں۔ یہاں سوچنے والے دماغوں کو ہمیشہ پابندیوں کا سامنا رہا۔ آج بھی اظہارِ رائے کی حقیقی آزادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ روزبروزصورتِ حال مزید گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ سوچتا ہوں کہ لیپ ٹاپ پر اگر ’بیک سپیس‘ کا بٹن نہ ہوتا تو مجھ ایسوں کو اُن بلیک سپیسز سے کون بچاتا جہاں زمیں زادوں کو ایک روزن بھی ’شاہِ شرق‘ لگتا ہے۔

’ڈئیوس، علی اور دیا‘ ایک انسان ہی نہیں بلکہ ہمارے پورے سماج کے وجودی کرب کا دستاویزی اظہار ہے۔ فنی اعتبار سے اس میں کئی کمزوریوں کی نشاندہی ممکن ہے لیکن فکری اعتبار سے یہ پاکستان کے اُن بیس برسوں ( 1970 ء تا 1990 ء)کو موضوع بناکر ایک شاندار ناول بن جاتا ہے جو تقسیم سے دس برس پہلے یا دس برس بعد پیدا ہونے والی نسل کی زندگی کا اہم ترین دور ہے۔ یہ دورہمارے بڑوں کے لیے آزادی کے خواب کی تعبیر ملنے کی اُمید بننے اور بہت جلد ٹوٹنے کا دور ہے۔

ہماری نسل کی تو خیر بات ہی الگ ہے۔ اِدھر ہم تولدپذیرہو رہے تھے تو اُدھر جیمز کیمرون کی مقبول ترین فلم ’ایلینز‘ (Aliens)ریلیز ہو رہی تھی۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم سچ مچ کے ایلین ہی ہیں۔ عجیب ہونکوں کی طرح کھڑے ہیں، پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو اپنی تہذیب، روایات، خاندانی نظام، معاشرتی ڈھانچہ اوربابے موتیاں والے کا دربار نظرا ٓتا ہے، آج کو دیکھیں تو مصنوعی ذہانت کی بے پناہ ترقی میں اپنا وجود خطرے میں نظرا ٓتا ہے اور مستقبل کو دیکھنے کی کوشش کریں تو بلیک ہول نظرا ٓتا ہے۔ جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو سامنے خبر چل رہی ہے کہ یو۔ پی کا تاریخی شہر الٰہ آباد آج کے بعد پریا گ راج ہوگاکہ یہی اس کا اصل نام تھا جسے مغل بادشاہ اکبر نے 1583 ء میں تبدیل کرکے الٰہ آباد رکھا تھا۔

بلیک ہول کا سائز بڑھ رہا ہے۔ آوازیں آرہی ہیں۔ خوش خوش رہا کرو۔ خوش خوش رہا کرو۔ میں نے اپنا قلم یہیں روک دیا ہے۔ محشر ؔبدایونی یاد آگئے

کرے دریا نہ پل مسمار میرے

ابھی کچھ لوگ ہیں اُس پار میرے

خاور نوازش

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

خاور نوازش

ڈاکٹر خاور نوازش بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اُردو اور ہندی تنازع کی سیاسی، سماجی اور لسانی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اُن کے پہلی کتاب‘ مشاہیرِ ادب: خارزارِ سیاست میں’ 2012ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ ‘ادب زندگی اور سیاست: نظری مباحث’ کے عنوان سے اُن کی دوسری کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نےشائع کی۔ اُردو کی ادبی تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ عصری سیاست اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔ اُن سے اس میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔[khawarnawazish@bzu.edu.pk]

khawar-nawazish has 5 posts and counting.See all posts by khawar-nawazish