ناطق نامہ، فقیر کی بستی اور خوابوں کا نگر


ناطق کی کتاب ”فقیر بستی میں تھا“ مولوی محمد حسین آزاد کا ایسا مرقع ہے جو فصیلِ شہر کے ساتھ ساتھ چلنے والوں کے لیے نہیں بلکہ شہر کے اندر اترنے، گھومنے اور زندگی کرنے والوں کے لیے ہے۔ میں نے ناطق نے پوچھا کہ تمہیں اس تحقیقی مقالے پر کس نے ایم فل کی سند دے دی۔ ہمارے یہاں تو تحقیقی مقالوں کی زبان ایسی ہوتی ہے نہ ہی اُن میں بے تکے حوالوں کی کمی کا یہ عالم ہوتا ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ تحقیق کچھ بھی نہیں جب تک کہ اُس میں تمام واقعات کی تواریخ نہ سجی ہوں۔

تنقید کچھ بھی نہیں جب تک کہ کہیں لفظ ”مابعد“ استعمال نہ ہو۔ ہم تو مقالات مواد اکٹھا کرنے یا کروانے کے لیے لکھواتے ہیں۔ اور پھر یہاں تو آزاد ایسے ڈیڑھ دو سو سال پیچھے کے بندے کا نام لینے سے پیشتر ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ بھئی اس میں سے مزید کیا برآمد کرنا چاہتے ہو! بیسیوں مقالے تو اس پر لکھے جا چکے تم کیا نیا کرو گے۔ سو بھائی میاں تمہیں کس نے اس موضوع پر کام کرنے دیا؟ پھر اپنی مرضی سے کرنے دیا، اور تو اور ڈگری بھی دے دی؟

بولا، مجھے یقین ہے کہ میرے اس تھیسس کو دیکھنے اور پرکھنے والوں میں سے کسی کا حوصلہ ہی نہیں پڑاہوگاکچھ کہنے کا۔ یہ تو خیر ناطقیت میں گندھا ہوا جواب تھا لیکن ہم جانتے ہیں کہ اُس نے جس قدر ڈوب کر اپنے موضوع پر کام کیا ہے اس سے کسی کو مفر نہیں ہوگا۔ اُس نے یہ مرقع کوئی سند پانے کے لیے لکھا ہی نہیں۔ اُس نے تو اپنے اور اپنے قارئین کے لیے لکھا ہے۔ بالکل اُسی طرح جیسے وہ فکشن لکھتا ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ آپ سے اپنے آپ کو ناول کی طرح پڑھوائے گا اور جب آپ پڑھ چکیں گے تو ممکن ہے ہماری طرح آپ کو بھی شعور کی رَو میں بہاتا چلا جائے۔

”فقیر بستی میں تھا“ رواں سال کتابی صورت میں عکس پبلی کیشنز لاہور سے چھپی۔ عکس والے بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ بہت اہم کتابیں تلاش کر کرکے چھاپ رہے ہیں۔ سرحد پار کے لیکھکوں کوبھی شائع کر رہے ہیں۔ پرانے لٹریچر کے ساتھ ساتھ نئے تنقیدی رجحانات پر اُنھوں نے بہت اہم کتابیں چھاپی ہیں۔ بہت سی کتب کے اُردو تراجم شائع کر رہے ہیں اور کچھ نئے تراجم چھاپنے کے لیے کروا بھی رہے ہیں۔ یہ سب بہت اچھا ہے لیکن ساری اچھائی پر پانی پھیرنے والی ایک چیز پروف ریڈنگ کی بے شمار اغلاط ہے۔ اس سے پہلے میں نے عکس پبلی کیشنز سے ہی چھپے ہوئے صفدر زیدی کے ناول بھاگ بھری پر تبصرہ کرتے ہوئے بھی یہ اُجلت اساس قباحت اُچھالی تھی لیکن میاں فہد بوچ نہ سکے۔ خیر آئندہ کے ساتھ بہتری کی امید ہمیشہ بندھی ہوئی ہے۔

آغا سلمان باقر خانوادہ آزاد کے وہ چشم و چراغ ہیں جولاہور میں مقیم ہیں اور علی اکبر ناطق ایسے پیاسوں کے لیے سبیل لگاتے رہتے ہیں۔ وہ محمد حسین آزاد پر مزید کام کو اپنے بزرگوں کے مقام و مرتبے میں کمی و زیادتی پر محمول نہیں کرتے۔ وہ مواد کی دستیابی اور جہاں ممکن ہو اپنی راہنمائی بھی مہیا کرتے ہیں۔ ناطق نے یہ کتاب آغاسلمان باقر کے نام ہی معنون کی ہے۔

”فقیر بستی میں تھا“ دہلی آباد ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کتاب کو ناطق نے پینتالیس ضمنی عنوانات کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ہر عنوان کے تحت مولوی محمد حسین آزاد کی زندگی کے کسی ایک خاص پہلو کو سمیٹا گیا ہے۔ پوری کتاب میں ناطق کا اسلوب تخلیقی ہے نہ کہ تحقیقی اور یہی اس کتاب کی مجھے سب سے بڑی خوبی لگی۔ ہم نے اپنے طلبا کو تخلیقی اسلوب سے اتنا دُور کر دیا ہے کہ اُن کے تحقیقی مقالات کی زبان اور عہد ِ حاضر کے ٹی وی ڈراموں کی زبان میں کوئی خاص فرق نہیں پچا۔

ہمارے اساتذہ ہمارے تحقیقی مقالوں میں مصادر و منابع کی کھوج، حواشی کے اندراج کے درست طریقوں، مواد کی ترتیب اور دلائل کی پیش کش وغیرہ کو دیکھتے اور ڈانٹ ڈپٹ کرکے ٹھیک کراتے تھے۔ ہم اپنے شاگردوں کے تحقیقی مقالوں کے جملے سیدھے کرتے ہیں اور بعض اوقات ایسی پریشانی دامن گیر ہوتی ہے کہ پورے کا پورا صفحہ کاٹ کر خود لکھ دینے میں عافیت محسوس ہوتی ہے۔ پھر خیر سے اب ڈانٹ ڈپٹ کا دَور بھی چلا گیا، اِدھر سختی سے کچھ کہا نہیں اُدھر طالب علم غائب۔

تحقیقی مقالات کی زبان ہی مجھے وہ محرک لگتا ہے جس نے ریڈرشپ کو کم کیا ہے۔ موضوع کا انتخاب بہت اچھا ہوتا ہے، مواد بھی بہت اہم پیش کیا جا رہا ہوتا ہے لیکن مقالے کی زبان ایسی ہوتی ہے جو خود کو پڑھوانہیں سکتی۔ میں اکثر اپنے طلبا کوسنگت والے ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی تحریریں پڑھنے کا مشور ہ دیتا ہوں جس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ سمجھ سکیں کہ ریڈیبلیٹی کیا چیز ہے۔ ٹھیک اسی طرح ڈاکٹر ناصر عباس نیئرکی دس بارہ برس پہلے کی تحریر اور ایک بالکل تازہ تحریر کا صرف تنقیدی زبان کے حوالے سے موازنہ کریں تو یہ خصوصیت سمجھ آسکتی ہے۔

جس طرح تنقیدی تحریروں کی زبان نے قارئین میں تنقید کی ریڈیبلیٹی کو کم کیا ہے ٹھیک یہی حال تحقیقی مضامین کی زبان کا بھی ہے۔ جب بھی تحقیق کرنے اور لکھنے والے اپنی تحریر کے ساتھ قاری کوجوڑنے میں سنجیدہ ہوں گے وہ اس خشک موضوع کو تخلیقی زبان کا تڑکا لگانے سے اتفاق ضرور کریں گے۔ کچھ ایسے محققین بھی ہوں گے جو اس کے برخلاف سوچ رکھتے ہوں۔ دراصل وہ جانتے ہیں کہ اُن کی تحقیقی کتب اور مضامین کا بھرم تحریرمیں ریڈیبلیٹی کی صلاحیت نہ ہونے سے قائم ہے۔

ناطق کی کتاب ’فقیر بستی میں تھا‘ اپنے قاری کو تخلیقی زبان کی وجہ سے ایسے گرفت میں لیتی ہے کہ آپ شاہجہاں آباد کے گلی کوچوں سے چلتے ہیں تو مولوی آزاد کے ساتھ لاہور کی بادشاہی مسجد کے میناروں کے سائے تلے پہنچ کر سانس لیتے ہیں۔ آزاد کا یہ مرقع ایک کہانی ہے جس میں کئی اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ یہ آپ کو آزاد کی کسمپری پر جذباتی بھی کرتی ہے اور اپنی بہو کو آزاد کے منہ سے وکھری ٹائپ کی گالی سنا کر ہنسا بھی دیتی ہے۔

اس کہانی کا ابتدائی دلچسپ باب آزاد کے والد اور دہلی اُردو اخبار کے مالک مولوی محمد باقر کی زندگی پر مبنی ہے۔ مولوی محمد باقر کی زمانہ شناسی اُن کو کس طرح معاشی آسودگی کے اوج پر لے جاتی ہے، اٹھارہ سوستاون اُن پر کیسے بیتتا ہے اور پھر اپنی ذات کے دائرے سے باہر نکل جانے والی خود اعتمادی کیسے اُن کے لیے قاتل ِ بے رحم کھوجتی ہے، اس سب کی منظرکشی میں ناطق نے کمال کیا ہے۔ بالخصوص وہ منظر جب محمد حسین آزاد اپنے والد مولوی محمد باقر سے قید میں ملنے کا حیلہ تلاشتے ہیں اور پھر نظروں ہی نظروں میں ایک آخری ملاقات ہوتی ہے، قاری کو بہت جذباتی کر دیتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

خاور نوازش

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

خاور نوازش

ڈاکٹر خاور نوازش بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اُردو اور ہندی تنازع کی سیاسی، سماجی اور لسانی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اُن کے پہلی کتاب‘ مشاہیرِ ادب: خارزارِ سیاست میں’ 2012ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ ‘ادب زندگی اور سیاست: نظری مباحث’ کے عنوان سے اُن کی دوسری کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نےشائع کی۔ اُردو کی ادبی تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ عصری سیاست اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔ اُن سے اس میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔[khawarnawazish@bzu.edu.pk]

khawar-nawazish has 5 posts and counting.See all posts by khawar-nawazish