ناطق نامہ، فقیر کی بستی اور خوابوں کا نگر


عرفان صدیقی کا شعر ہے :

اٹھو یہ منظرِ شب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

ہمارا بھی یہی ماننا ہے کہ خواب دیکھنے کے لیے نیند کی حالت میں جانا ضروری نہیں۔ خواب اصل میں وہی ہوتے ہیں جو کھلی آنکھوں اور جاگے دماغ سے دیکھے جائیں اور جن کی تعبیر کے لیے ہم سرگرداں بھی ہوں۔ اِسی لیے نیند کی حالت میں کی گئی سیروں، اٹھائی گئی راحتوں اور مختلف ہستیوں کی مستیوں کو ہم نے ہمیشہ کم ہی اہمیت دی ہے۔ بھئی بات سیدھی سی ہے کہ جس کام میں ہم سے زیادہ ہمارے لاشعور کی مرضی شامل ہو اُسے شعور کی باریکیوں سے جانچنا تو لَو میرج کو ارینج بنانے کے طریقے ڈھونڈنے ایسا ہے۔

ہم صرف انھی خیالات کو اپنے خوابوں پر محمول کرتے ہیں جو عالم ِ ہوش و حواس میں ہمیں گرفت میں لیں اور ایسے لیں کہ اُن کی تعبیر کی خواہش بلکہ تلاش میں ہم اپنا آرام و سکون بھی غارت کر بیٹھیں۔ ایسے کھلے خواب کھلے دریچوں کی مانند ہوتے ہیں کہ آس پاس والے بھی گزرتے سمے نہ صرف اُن کی طرف جھانک لیتے ہیں بلکہ اپنے اپنے ظرف کے مطابق رسپونس بھی دیتے جاتے ہیں۔ ہمارے آس پاس والے بھی ہمارے خوابوں پر خوب نظر رکھتے ہیں۔

اُن میں کچھ دوست ہیں اور کچھ غیر دوست۔ دشمن ہمارا کوئی ہے نہیں، جو ایک آدھ فی الوقت لگتا ہے وہ اصل میں بیمار ہے اور مریضوں کو شفا یابی تک دشمن سمجھنا بدذوقی و بے کیفی کی علامت ہے۔ چنانچہ سبھی دوست اور غیر دوست پاس سے گزرتے ہوئے ہمارے خوابوں میں جھانکتے ضرور ہیں اور وہ بھی ایسے کہ ساتھ والے کو جھانک تانک کے انداز سے ہی متوقع رسپونس کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ایسے اندازہ کاروں کی نظر کی وسعت اور ذہن کی رسائی پر یقین جانیے کبھی کبھار تو رشک آنے لگتا ہے پھر یہ سوچ کر سنبھل رہتے ہیں

کہ رشک آنے لگا اپنی بے کمالی پر

کمال ایسے بھی اہلِ کمال کے دیکھے

(روحی کنجاہی)

نیند میں دیکھے گئے خوابوں کی وقعت کا اندازہ یہاں سے لگا لیجیے کہ کل شب خواب میں ہم نے اپنے دوست ناطق کو بھی خاموش کرادیا۔ علی اکبر ناطق وہ آدمی ہے جس کی گفتگو میں عرصہ قیام آج بھی اتنا ہی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے جتنا دس برس پیچھے ہماری پہلی ملاقات پر تھا۔ وہ ہمارے کلاسیکی ادب کا رسیا ہے۔ بولتا ہے تو ہمارے گاؤں کے مستری علم دین کا سعودیہ پلٹ فرزند لگتا ہے جو وہاں سے نکالے جانے والے محنت کشوں کے جذبات کی ترجمانی بھی خوب کر سکتا ہے۔

لکھتا ہے تو اٹھار ہ سو ستاون والی نسل کے مکتب سے فیض یاب انشاپردازوں کا گرائیں لگتا ہے۔ وہ سوچتا لمحہ موجود میں ہے۔ پیتا نہیں ہے اور کھاتا بھی یہ سوچ کر ہے کہ اگلی دفعہ بھی کھانے کو ملے گا۔ شیعہ ایسا ہے کہ جہاں بیٹھے وہاں سب کو شیعہ فرض کرلیتا ہے اور اُس کے بعد کی کیفیات کا آپ خود اندازہ لگا لیں۔ وہ بہ خوبی جانتا ہے کہ عشق کیے بغیر بھی عاشق کیسے دِکھا جا سکتا ہے اس لیے صرف اور صرف معشوق ہونے کی اہلیت کے معیار(eligibility criteria) کو سنجیدگی سے لے کر اس پر مسلسل کام کرتا رہتا ہے۔

مجھ پر کچھ دن پہلے ہی کھلا کہ وہ مولانا محمد حسین آزاد کا ویسے ہی دیوانہ ہے جیسے آزاد اپنے اُستاد نواب ابراہیم ذوق کے دیوانے تھے۔ خواب میں جو ہم نے اُسے تھوڑا سا چھیڑا تو اُس نے آزاد کی ایک ایک تحریر کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی۔ نیرنگ ِ خیال ہو کہ سخندانِ فارس، قصص الہند ہو کہ دربارِ اکبری، آبِ حیات ہو کہ نظم آزاد، ایک ایک کتاب اُس کے اندر اُتری ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ آزاد کی عالمِ جنوں کی تحریروں کو جنھیں ہمارے ناقدین کچھ بھی نہیں سمجھتے، ناطق کو نہ صرف زیادہ پسند تھیں بلکہ اُن کی گہرائی اور گیرائی کو وہ اُردو کے بڑے بڑے اُدبا کی ہوش و حواس میں لکھی ہوئی تحریروں سے بھی آگے کی ثابت کرنے کے دلائل رکھتا ہے۔

یہ تو نہیں معلوم کہ گفتگو کتنا عرصہ چلی کیونکہ خواب کی گھڑی کی سوئیاں ہماری دنیا کی گھڑیوں کی طرح تو چلتی نہیں، بہرکیف جتنی دیر بھی باتاں کیے کمال کیے۔ ہمیں بھی اُسے دبوچنے کا نکتہ مل گیا جب یہ جان گئے کہ وہ آبِ حیات کی تصنیف اور دیوانِ ذوق کی ترتیب سے کچھ کنی کترا تا ہے سو ہم آگئے اس سوال کے ساتھ میدان میں کہ صاحب یہ بتائیے کہ بندہ آزاد کو ان دو کتابوں کی تصنیف و تالیف کے سمے کیا ہوا!

بولا، کیا ہوا۔ !

ہم نے کہا، کیوں بھئی۔ قاضی عبدالودود کو نہیں پڑھا؟ آزاد بحیثیت محقق میں اُنھوں نے کیا باقی چھوڑا ہے۔

بولا، مجھے مناقشہ بازوں سے کیا علاقہ! ۔ قاضی وہ نا آسودہ روح ہے جو اپنی ہمت پر قناعت کرنے سے عاری ہے، اُسے کیا خبر کہ رونقِ شعرو سخن کیا ہوتی ہے۔ وہ تو اپنے گھانس پھونس کے آئینوں کے جلو میں گرفتار شخص ہے۔

ہم نے کہا، یوں بات نہیں بنے گی۔ مولانا کی جن جن اغلاط کی نشاندہی انھوں نے کی ہے اُن کا دفاع کیجیے۔

اب کے ناطق کی ناطقیت بیدار ہونے لگی۔ بولا، یار تم درسی تحقیق اور درسی تنقید کے لوگ ایسی باتوں میں کیوں پھنس جاتے ہو جنھیں کسی ادیب کی ادبی عظمت سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا، مثلاً میں نے اکثر دیکھا ہے کہ درسی محققین گنتی گننے میں ہی کئی کئی ماہ لگے رہتے ہیں، کسی شاعر کے اشعار کی تعدادمسئلہ ہے، کسی کتاب کے صفحات کی تعداد مسئلہ ہے توکسی کا سن ِ تصنیف۔ درسی محققین کے پاس وقت کی کوئی کمی نہیں۔ پھرادیبوں کی تاریخ ِ ولادت اور تاریخ ِ وفات پر تو کئی لوگوں میں باقاعدہ معرکہ آرائیاں کئی دفتر سیاہ کرادیتی ہیں، شکر خدا کا کرتا ہوں کہ کبھی کسی ادیب کے سن ِ تاج پوشی یا سن ِ گل تراشی پرجھگڑا سننے میں نہیں آیا پر کیا بعید۔ میں یونیورسٹی کے پروفیسروں کو بھی کہتا ہوں کہ بھئی آنکھوں اور کانوں کے ساتھ ساتھ دل کو بھی کھولو۔ آزاد کو سمجھنے کے لیے دل کھولنا سب سے ضروری عمل ہے۔

ہم نے کہا، جناب یہاں تو معاملہ دل کھولنے سے زیادہ دل بڑا کرنے کا ہو گیا ہے۔ اب کون اتنا دل بڑا کرے کہ میاں آزاد کو اپنے ہی اُستاد ابراہیم ذوق کے اشعار کی اصلاح کی اجازت بھی دے۔ ”دیوانِ ذوق“ کی ترتیب میں مولوی صاحب نے شاگردی کے مرتبے سے استادی کے مقام ِ اولیٰ کی طرف جس سرعت کے ساتھ سفر کیا ہے وہ ایک کھلا باب ہے۔

بولا، بس کرو یار! تم کر سکتے ہو یہ؟ کوئی اور کر سکتا ہے کیا؟ بڑے بڑے گریڈ لے کر بیٹھے ہو اور ایک مصرعہ چست نہیں کر سکتے۔ بھئی اس کے لیے بھی محنت پسند ہونا ضروری ہے۔ آزاد کی طبیعت میں لطف ِ زبان کا جوہر اُستاد ذوق سے قربت کا شاخسانہ تھا اور یہ جوہر کیا ہے، تم نہ سمجھو گے۔ آزاد جب کچھ کہتے تھے تو گویا اُستاد ذوق ہی کہا کیے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

خاور نوازش

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

خاور نوازش

ڈاکٹر خاور نوازش بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اُردو اور ہندی تنازع کی سیاسی، سماجی اور لسانی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اُن کے پہلی کتاب‘ مشاہیرِ ادب: خارزارِ سیاست میں’ 2012ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ ‘ادب زندگی اور سیاست: نظری مباحث’ کے عنوان سے اُن کی دوسری کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نےشائع کی۔ اُردو کی ادبی تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ عصری سیاست اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔ اُن سے اس میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔[khawarnawazish@bzu.edu.pk]

khawar-nawazish has 5 posts and counting.See all posts by khawar-nawazish