ناطق نامہ، فقیر کی بستی اور خوابوں کا نگر


ناطق آزاد کے زندگی کے تمام اہم واقعات کوصرف ترتیب میں پیش ہی نہیں کرتا بلکہ اس میں کہانی کا ذائقہ شامل کرتا ہے۔ آزاد کا گرفتاری سے بچنے کے لیے مختلف علاقوں کا سفر اور پنجاب میں عافیت، مولوی رجب علی کا آزاد کے لیے شروع میں معاش کا وسیلہ بننا اور پھر جان کا دشمن ہونا، ڈاکٹر لائٹنریعنی ملا عبدالرشید آفندی کا جاسوسی کردار، سنٹرل ایشیا کی سیاحت اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں ڈاکٹر لائٹنر کی شدید مخاصمت میں آزاد کا وقت گزارنا، یہ تمام واقعات آزاد کے اس مرقعے میں مجھے زیادہ دلچسپ لگے۔

علی اکبر ناطق کوروایتی محققین کے اِک ذرا قریب لانے والا حصہ وہ ہے جس میں آزاد کے لاہو رمیں قیام کو پیش کیا گیا ہے۔ یہاں لاہو ر کی زندگی کی گہما گہمی اور اندرون کا جغرافیہ جس انداز میں پیش کیا گیا ہے وہ کسی تفتیشی افسر کی واردات لگتی ہے۔ ناطق نے لاہورمیں آزاد کے تمام مساکن کا کھوج لگایا اور بالخصوص اندرون شیراں والا گیٹ کا اور بالآخر وہ بنگلہ ایوب شاہ تلاش کر لیا جہاں آزاد طویل مدت قیام پذیر رہے۔ اس تلاش کی کہانی بھی دلچسپ پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔

”فقیر بستی میں تھا“ ادب کے ہر قاری اور بالخصوص تحقیق کے طلبا کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ خواہ کوئی آزاد کو ناطق کے احساسات کی عینک پہن کر مت دیکھے لیکن واقعات کے اُس تجزیے کو ضرور سمجھے جو اس کتاب میں ملتا ہے۔ اسی طرح خواہ کوئی ناطق کی طرح اپنے ممدوح کے جنازے کی کہانی کسی بزرگ سے سن کر مرعوب نہ ہو لیکن اپنے ممدوح کی زندگی کو جی کر ضرور دیکھے اور یہ کتاب اس امر کی تحریک بنتی ہے۔ اس کتاب میں ناطق کے ہاں آزاد پرستی کا یہ عالم بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے ممدوح کی کمزوریوں سے صرفِ نظر کرے۔ لیکن یہ بھی نہیں کہ اُس کے ہم عصروں کے ساتھ آزاد کا تقابل کرتے ہوئے کسی کی جان بخشی کرے۔ اس حوالے سے پوری کتاب میں سے صرف ایک ہی مثال پیش کروں گاجہاں ناطق کی ناطقیت آستینیں چڑھائے گویا ہے، ملاحظہ کیجیے :

”وہ ڈپٹی نذیر احمد نہیں تھے جو اپنے ہی شاگردوں سے سود کھاتے۔ وہ مولوی شبلی نہیں تھے جو تاریخِ اسلام کے خونیں کرداروں پر ملمع کاری کرکے تعصبات کے نیزے اچھالتے اور جھوٹ کے سِکے پر شفاف چاندی کا پانی چڑھاتے۔ وہ ذکا اللہ نہیں تھے جو کینہ توزی میں غالب جیسے عظیم شاعر کی چغلیاں کرتے اور کریم الدین اور مولوی فیروز الدین سے مل کر غالب کے تعلیماتِ پنجاب سے منظور شدہ وظیفے کی فائلیں دبا لیتے۔ وہ حالی بھی نہیں تھے کہ کسی سرسید کے باج گزار بن کر رہ جاتے اور جو وہ کرسکتے تھے وہ نہ کر پاتے۔ وہ آزاد تھے، جسے نہ مادیت کی لت تھی، نہ چغل خوری کی عادت تھی، نہ مذہبی مناقشوں وار منافقوں سے علاقہ تھا۔ وہ متخیلہ کی نثر کا بادشاہ تھا اور اسی سلطنت پر قناعت کرکے حدِ امکان سے آگے ہی آگے پرواز کر گیا۔ “ (ص 133۔ 134 )

”فقیر بستی میں تھا“ کے آخری سطریں پڑھتے گئے اور شمس العلما کے اس مرقعے کی دل فزائی ہمارے میدانِ خیال کی فصیلوں سے ٹکرائی اور ہمیں اپنا وہ فقیر ساتھی یاد آیا جسے ایک سائیکلوں کی دکان کے باہر پڑے پنچ پر سوتا چھوڑ آئے تھے۔ بھاگے بھاگے وہاں پہنچے۔ سورج طلوع ہو چکا تھا۔ ہم نے فقیر کو بازو سے پکڑ کر ہلایا تو اُس کی آنکھ کھل گئی۔ ہمیں دیکھا، پھر اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور گویا ہوا، کہاں تھے آپ میرے ہم زاد۔

ہم نے بتایا کہ ہم ایک مہاراجہ کی تاج پوشی کی تقریب میں گئے تھے جہاں برہمن اور پنڈت اُن کے راج کی تصدیق کرتے ہوئے اُنھیں سنگھاسن پر بٹھا رہے تھے۔ محل کے اندر اور باہر ایک انبوہِ کثیر تھا۔ وہاں ہماری ملاقات ایک بہت حسین عورت سے ہوئی جو خود کو پری ظاہر کر رہی تھی۔ اُس کے پورے لباس میں مختلف النوع موتی جڑے ہوئے تھے۔ اُس نے قریبی آکر ہمارے کان میں کہا کہ آپ نے کبھی جنت کی خواہش کی ہے۔ ہم نے کہا ہزارہا بار۔

اُس نے پوچھا وہاں کی سب سے زیادہ پُر کشش کون سے چیز ہے۔ ہم ایک لمحے کو سوچا کیے تو اُس نے اپنا ایک ہاتھ ہماری آنکھوں پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے ہمارا داہنا ہاتھ تھام لیا۔ اگلے ہی لمحے ہم گھنے درختوں کے ایک جھنڈ کے سائے میں ایک قدرتی نہر کے کنارے بیٹھے تھے۔ نہر کا پانی اتنا شفاف تھا کہ اُس میں ہماری تصویریں بن گئی تھیں۔ ہم پانی میں پاؤں لٹکاکر بیٹھ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک اور پری نمودار ہوئی اور ہمارے قریب آ کر اُسی نہر کے پانی میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ اب ہم دو پریوں کے درمیان بیٹھے تھے اور سوچ رہے تھے کہ کس کے کاندھے پر سر دھریں۔

ہماری یہ بات جاری تھی کہ پیچھے سے ایک بزرگ نے ہمیں ہاتھ سے چھوا اور بولے، تم یہیں ہو ابھی تک؟

ہم نے کہا جی۔ آپ کون؟

بولے، میں جو بھی ہوں لیکن یہ بنچ سونے کے لیے نہیں بیٹھنے کے لیے ہے۔ تم نے رات سے یہیں بستر لگایا ہوا ہے؟

ہم نے کہا، بزرگو۔ ! ہم تو ابھی کچھ دیر پہلے آئے۔ یہاں تو یہ فقیر سویا ہوا تھا۔

بولے، اچھا اب ہٹو یہاں سے۔ مجھے جھاڑو لگا کر دکان کھولنی ہے۔ پتا نہیں کہاں سے آ جاتے ہیں ایسے لوگ!

ہم پنچ سے اُٹھے۔ فقیر کا ہاتھ تھاما۔ اُسے اپنا وہ قول یاد دلا یاکہ خواب اصل میں وہی ہوتے ہیں جو کھلی آنکھوں سے دیکھے جائیں۔ اور شاہ حسین کی یہ کافی گاتے ہوئے بستی کی طرف واپس چل دیے :

جنگل بیلے پھراں ڈھونڈیندی، اجے نہ پایو لال

کہے حسین فقیر نمانا، ملے تاں تھیواں نہال

خاور نوازش

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

خاور نوازش

ڈاکٹر خاور نوازش بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اُردو اور ہندی تنازع کی سیاسی، سماجی اور لسانی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اُن کے پہلی کتاب‘ مشاہیرِ ادب: خارزارِ سیاست میں’ 2012ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ ‘ادب زندگی اور سیاست: نظری مباحث’ کے عنوان سے اُن کی دوسری کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نےشائع کی۔ اُردو کی ادبی تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ عصری سیاست اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔ اُن سے اس میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔[khawarnawazish@bzu.edu.pk]

khawar-nawazish has 5 posts and counting.See all posts by khawar-nawazish