اپسرا – ایک عورت ڈھائی فسانے


مایا اگلے روز دفتر نہیں گئی۔ کیوں کِہ اُس کی آنکھ دیر سے کھُلی تھی۔ شکیل نے اصرار کیا، کِہ وہ لنچ اُس کے ساتھ کرے۔ مایا اُس کے یہاں چلی آئی۔
”شکیل! مُجھے سعید سے محبَت ہو گئی ہے۔“ مایا نے آتے ہی اُسے خبر دی۔
شکیل نے مَتانت سے جواب دیا، ”اچھی بات ہے۔ کرو محبَت، مگر شادی تُم نواز سے کر رہی ہو۔“
مایا پُوری تیاری کر کے آئی تھی۔ ”مَیں نواز کو دھوکا نہیں دے سکتی۔ جب میرے دِل میں سعید ہے، تو نواز سے شادی کیوں کروں؟“
”سعید تُم سے شادی نہیں کرے گا۔“
”ہو سکتا ہے، کر لے! تُجھے یاد ہے، شُروع میں نواز بھی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بعد میں مان گیا۔“ مایا نے شکیل کے دعوے کو جھُٹلانے کے لیے، نواز کی مِثال دی۔
”یہ بعد میں بھی نہیں مانے گا۔ مَیں جانتا ہوں، اِسے۔“
”نہ کرے! لیکن مَیں نواز سے شادی نہیں کر رہی۔“ مایا نے اپنا عزم ظاہر کِیا۔
شکیل جو اَب تک تحمل سے بات کر رہا تھا، جھُنجلا اُٹھا۔ ”تُم پاگل ہو!؟“
”یہی سمجھ لو۔“
شکیل کو اپنا دِل مُٹھی میں جکڑا محسُوس ہوا۔ اُسے مایا کا آنے والا کل عزیز تھا۔ اُس کی نظر میں مایا غلط طرف جا کھڑی ہوئی تھی، جہاں مایا کے لیے لمحاتی راحت کے سِوا کُچھ نہیں تھا۔
”تُم جس مرد کو دیکھتی ہو، یہی کہتی ہو۔“ اُس نے مایا کی عزت نفس پر وار کیا۔
”تُو ٹھیک کہتا ہے، مَیں بہت بُری ہوں۔“ مایا نے دِفاع کرنے کے بَہ جائے، ہتھیار ڈالنا مُناسب سمجھا۔
”مَیں نے یہ کب کہا؟ مَیں ہمیشہ کہتا آیا ہوں، کِہ تُم نیک رُوح ہو۔“
مایا اپنے لیے ایسا کہے، تو شکیل کو دُکھ ہوتا تھا۔ و ہ نہیں چاہتا تھا، مایا خُود ترسی میں مُبتلا ہو۔ مایا نے گلو گیر لہجے میں کہا، ”مَیں ہر ایک کے دِل سے کھیلتی ہوں۔ بہت بُری ہوں۔ کیچڑ ہوں، مَیں۔“
”کیچڑ نہیں، تُم سونا ہو۔ نواز کو مت ٹھُکراو۔“ شکیل نے بڑی چاہت سے کہا۔
”کیا نواز مُجھے چاہتا ہے؟“ مایا نے یوں چونک کے پُوچھا، جیسے اندھا کوئی چاپ سُن کے ٹھِٹھَکے۔
”ہاں!“ شکیل نے تیقن سے کہا، اگر چہ اُس کو اِتنا یقین نہیں تھا۔
”تُجھے یقین ہے؟ دیکھ میرے لیے تیری بات حرفِ آخر ہے۔ سچ سچ بتا، کیا نواز مُجھ سے محبَت کرتا ہے؟“
”ہاں! کرتا ہے۔“
”اور سعید؟“
”نہیں کرتا۔“ شکیل نے تُرنت جواب دیا۔
”زَرا سی بھی نہیں کرتا؟“ مایا نے شکستہ دِلی سے پُوچھا۔
شکیل ہنس پڑا۔ اُسے مایا کی یہ ادائیں بھاتی تھیں۔ ”زَرا سی تو کرتا ہے۔“
”اچھا یہ بتا، مُجھ سے اِن دونوں میں سے کون زیادہ محبَت کرتا ہے؟ نواز؟ یا سعید؟“ مایا یک دَم خُوش دکھائی دینے لگی۔
”مَیں!“ شکیل نے اُداسی سے مُسکراتے کہا۔
”تُو تو کرتا ہی ہے۔ پَر مُجھے تُجھ سے شادی نہیں کرنی۔۔۔ نواز؟ یا سعید؟“
شکیل کو بے بسی محسُوس ہو رہی تھی۔ وہ جانتا تھا، کِہ مایا اپنی منوا کے رہے گی۔ ”لیکن سعید تُم سے شادی نہیں کرے گا۔“
”مُجھے اِس بات کی پَروا نہیں ہے۔“


شکیل کا جِی چاہا، کِہ مایا کے کندھے پکڑ کے اُسے جھَنجوڑ دے، تا کِہ اُس کا خواب ٹُوٹے۔
”تُمھارا دماغ خراب ہے۔ تُمھیں نواز سے محبَت تھی، تو تُم نے سعید سے دوستی کیوں کی؟ منع کرتا رہا مَیں تُمھیں، لیکن تُم باز نہیں آئیں۔ اَب کہتی ہو، سعید سے محبَت ہو گئی ہے۔ تُم کہیں ایک جگہ ٹِکو گی بھی؟“
مایا روہانسو ہو گئی۔ ”تُو بتا میں کیا کروں؟“
”نواز سے شادی کرو، اور چالاکی سیکھ سکو، تو سعید سے ملتی رہنا۔“ شکیل نے بے رحمی سے مشورہ دیا۔
”نہیں! مَیں اُسے دھوکا نہیں دینا چاہتی۔ مَیں ایک جگہ ٹِکنا چاہتی ہوں۔ کسی ایک کی بن کے رہوں گی۔ تُو ہی کہتا ہے ناں، مَیں ایک مرد پہ ٹِکتی نہیں ہوں۔“
شکیل اِس بحث سے تنگ آ چکا تھا۔ ”تُم بتاو، آخر تُمھیں محبَت کِس سے ہے؟۔۔ نواز سے؟“
”ہاں!“ مایا نے زَرا تامل کیے بَہ غَیر کہا۔
”اگر نواز سے محبَت ہے، تو سعید سے کیا ہے؟“ شکیل کا یہ سوال فِطری تھا۔
”محبَت۔ سعید سے بہت زیادہ محبَت ہے۔ اُس نے مُجھے سَر شار کیا ہے۔“
شکیل، مایا کو خُوب سمجھتا تھا، کِہ وہ سچ بیانی کر رہی ہے۔ مایا ایسی ہی تھی، کِہ جسے ایک بار دِل میں بسا لے، اُسے نِکال نہیں سکتی تھی۔ پھِر بھی شکیل نے تسلی کر لینا چاہی۔
”اور مُجھ سے؟۔۔ مُجھ سے کیا ہے؟۔۔ محبَت؟“
مایا نے سَر شاری سے آنکھیں مِیچ لیں۔ ”بے حد۔“ مایا نے آنکھیں کھول کے شکیل کی طرف دیکھا، جو فاتح کی طرح اُسے دیکھ رہا تھا۔ ”محبَت ہے، مُجھے۔۔۔ سب سے زیادہ تُجھ سے۔۔۔ تُو تو میرا شہزادہ ہے۔“
مایا کے ہونٹ شدِت جذبات سے کپکپا رہے تھے۔ وہ والہانہ وار آگے بڑھ کے شکیل سے بغل گیر ہو گئی، اور اپنے ہونٹ شکیل کے لَبوں میں پیوَست کر دیے۔ شکیل، مایا کے والہانہ پن کا شَیدا تو تھا ہی، مُزاحمت کیوں کر کرتا۔ بعد میں شکیل نے اِس بوسے اور مِلاپ پر کوئی نظم لکھی یا نہیں، کامِل یقین کے ساتھ کُچھ کہنا مشکل ہے۔

یہ کہانی ظفر عمران کے افسانوی مجموعے ’’آئنہ نما‘‘ سے لی گئی ہے۔
ناشر: کستوری پبلشنگ ہاوس، راول پنڈی
قیمت: 399 روپے
گھر بیٹھے منگوانے کے لیے رابطہ کیجیے
وٹس ایپ: 03009446803

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran