بزرگ کے تین دن – سندھی کہانی


تخلیق : زیب سندھی ترجمہ : شاہد حنائی

پہلا دن:۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی کی درگاہ میں مرقد پرچادر چڑھا کر حاکمِ وقت نے فوٹو گرافروں کی طرف دیکھتے ہوئے دُعاکے لیے ہاتھ اُٹھائے تو اس گھڑی وہ نورانی چہرے والا بزرگ بھی وہیں موجود تھا۔ بزرگ شخص نے لمحہ بھر کے لیے حاکمِ وقت کی طرف حیرانی کے ساتھ دیکھا اور ان کی دُعا مکمل ہونے سے پہلے ہی وہاں سے نکل گیا۔ مزار سے باہر نکل کر درگاہ کے احاطے میں زائرین کے بجائے پولیس کے جتھے دیکھ کر اس بزرگ کی حیرت دُکھ میں بدل گئی اور وہ درگاہ کے احاطے سے بھی باہر نکل گیا۔

یہ بزرگ شخص بھٹ شاہ 1 ؂کا ہی رہائشی تھامگر اسی شہر کا رہائشی ہونے اور بڑھاپے کو پہنچ جانے کے باوجود شاہ لطیف کے نام پر لگنے والاسالانہ میلہ کبھی نہیں دیکھ پایا تھا۔ آج وہ اپنی زندگی میں پہلی بار شاہ لطیف کامیلہ دیکھنے نکلا تھا اور اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ ہر حال میں میلے کے تینوں روزوہیں گزارے گا اورمشاہدہ بھی کرے گا۔

درگاہ سے باہر گلی میں ساری دُکانیں بند تھیں اورگلی میں بھی درگاہ کے احاطے کی طرح پولیس اہل کاروں کے جتھے ہتھیار اور ڈنڈے اُٹھائے کھڑے تھے اور چند بڑی موٹرکاریں کھڑی تھیں۔ بزرگ شخص نے عقیدت مند زائرین کو دیکھنا چاہا مگر ایسے کسی فرد کا وجود دُور تک دکھائی نہ دیا۔ بزرگ شخص کو تشویش لاحق ہوگئی۔ اسی دوران ٹریفک اہل کار سیٹیاں بجانے لگے کیوں کہ ذرا فاصلے پرباوردی اہل کاروں کے حصار میں حکم ران درگاہ سے نکل کر اپنی جھنڈا لہراتی موٹر کار میں بیٹھ رہا تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے متعدد موٹر کاروں کے کانوں کے پردے پھاڑ دینے والے سائرن بجنے لگے اورحکم ران سمیت وزیروں، مشیروں اور اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کی گاڑیاں چلتی بنیں۔ بزرگ شخص گلی میں اکیلا رہ گیا تو اس نے سکون کی سانس لی ہی تھی کہ دفعتاً سامنے سے زائرین کا ازدحام درگاہ کی گلی میں داخل ہوا۔ ہجوم کی تعداد اور رفتار دیکھ کر بزرگ شخص پیچھے ہٹ رہا مگر پھر بھی وہ زائرین کے ریلے میں محصور ساہو کر رہ گیا۔ یک دم ہر طرف افراتفری پھیل گئی تھی۔ دُکانیں اور ہوٹل کھلنے لگے تھے۔ تماش بین قبیل لوگوں کی بھیڑ میں بزرگ شخص کی سانسیں اُلجھنے لگیں۔ وہ بڑی مشکل سے ان تماش بین مزاج لوگوں کے ہجوم سے نکل پایا تو سامنے موجود چوراہے پر جا کھڑا ہوا۔

چوراہے کے وسط میں ایک طنبورہ؂ اِستادہ تھا۔ طنبورے کے گردا گرد مختلف سیاسی جماعتوں کے رنگ برنگے جھنڈے، حکم رانوں کے لیے خیر مقدمی بینراور کئی کٹے پھٹے اشتہار لگے ہوئے تھے اور ہر طرف افراتفری کا سماں تھا۔ شور شرابے اور گھمسان کی اس جگہ پر کھڑے بزرگ نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ ایک دُکان کے باہر بہت ہجوم جمع تھا اور بندے پر بندہ چڑھ رہا تھا۔ حیرانی اور تجسس میں گھرا بزرگ شخص اس دُکان کی طرف چل دیا۔ بڑی تگ و دو کے بعد کہیں جا کروہ دُکان کے سامنے جمع انبوہ سے گزر کر سامنے پہنچا تو اس نے دیکھا کہ یہ ایک ہوٹل تھا، جہاں نوعمر رقاص لڑکے کسی بے ڈھبے گیت کی دُھن پر تھرک رہے تھے۔ اندر بیٹھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان خوب رو رقاصوں پر نوٹ نچھاور کر رہی تھی۔ بزرگ شخص کا دل دُکھ اور طیش سے لبریز ہو گیا اور وہ جمع ہوجانے والے شائقین کی بھیڑ سے باہر نکل گیا۔

ہجوم میں سے نکلتے ہوئے بزرگ شخص کی نظر ایک طرف جا پڑی، جہاں گزرگاہ کے کنارے چند ہیجڑے طبلے کی تھاپ پر ناچ رہے تھے۔ بزرگ شخص کا دل مزید اُداس ہو گیا۔ اس نے انتہائی دُکھ کے ساتھ سوچا: ”یہ کیسے عقیدت مند ہیں! یہ تو سارے تماش بین مزاج شوقینوں کا اجتماع ہے! “ بزرگ شخص نے لوگوں کی بھیڑ سے گزرتے ہوئے خود کو بہت غم زدہ محسوس کیا۔ اس نے اُداسی کے عالم میں چلتے چلتے شاہ بھٹائی کے نام سے منسوب باغ کی طرف جانے کا قصد کیا۔ اس باغ سے بزرگ شخص کی کئی یادیں وابستہ تھیں۔

باغ کی طرف جاتے ہوئے اس کی نظر کراڑ جھیل 3 ؂ پر پڑی۔ کائی زدہ پانی کو دیکھتے ہوئے اس کادل رنجیدہ سا ہو گیا۔ اس نے گردن موڑ کر ایک نظر تماش بین مزاج زائرین کی طرف اور دوبارہ کراڑ جھیل کو دیکھا تواس کے دل سے آہ نکلی :

اُجلا جل میلہ ہوا، گندا کیا کاگوں نے
اب وہاں آتے ہنسوں کو، لاج بہت آئے

وہ اندر ہی اندر شرمندہ ہو گیا۔ وہ چند ساعتیں کراڑ جھیل کے سبز کائی زدہ پانی کو بغور دیکھتا رہاتو اس کے اندر کی شرمندگی بڑھتی گئی۔ کچھ دیربعداس نے کراڑ جھیل کے کائی زدہ پانی سے نگاہیں ہٹائیں تواس کی نظر جھیل کے کنارے مدفون شاعر کی قبر پر جا پڑی۔ سنگِ مر مر سے بنی اس تربت کی طرف دیکھتے ہوئے بزرگ شخص کے چہرے پر ایک بامعنی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ آگے بڑھ گیا۔

بزرگ شخص شاہ سائیں کے باغ کے قریب پہنچا تووہاں ڈنڈا بردار باوردی سرکاری اہل کار راستہ بند کیے کھڑے تھے۔ ایک سرکاری اہل کار نے وہاں موجود لوگوں کی توجہ لاؤڈسپیکر پر ہونے والے اعلان کی طرف دلائی۔ لاؤڈسپیکر پر سرکاری اعلان مسلسل دُہرایاجا رہا تھا: ”اس سال شاہ سائیں کے باغ میں ماڈل امن ثقافتی گاؤں بنایا گیا ہے، جس کا افتتاح وزیر صاحبہ اپنے دستِ مبارک سے فرمائیں گی۔ افتتاح کے بعد عوام کو باغ میں داخلے کی اجازت ہو گی۔ عوام سے درخواست کی جاتی ہے کہ وزیر صاحبہ کی آمد پر ان کا فقید المثال استقبال کریں۔ “ بزرگ شخص کے چہرے پر ایسی شکنیں نقش ہو گئیں جو ناگوار باتیں سن کر اُبھرا کرتی ہیں۔ بزرگ شخص وہاں سے پلٹ گیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3