آرمی چیف کی توسیع: آج سپریم کورٹ میں کیا ہوا؟


(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست پر آج دوسرے روز بھی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ آج سماعت میں کچھ دیر کے لیے وقفہ بھی کیا گیا۔

سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آرمی چیف کب ریٹائرڈ ہوں گے؟ تواٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کل رات کو ریٹائر ہو جائیں گے، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پھر تو اس کیس کا فوری فیصلہ ہونا چاہیے۔

اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان وفاق کی جانب سے اور فروغ نسیم آرمی چیف کے وکیل کے طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ہیں۔

دوبارہ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم آرمی ایکٹ اور رولز کا شق وار جائزہ لیتے ہیں، تاکہ آرمی چیف کی تقرری اور توسیع کے قانون کی روح سمجھ سکیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ بہتر ہے کہ عدالت کیس سے متعلق سوال پوچھے، میں جواب دوں گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 243 کے تحت ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جا سکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی تعیناتی اور مدت 1975 ء کے کنونشن کے تحت ہے، آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی سے متعلق عدالت کو مطمئن کروں گا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ ایک قانون کی عدالت ہے، ہمارے سامنے قانون ہے، شخصیات نہیں۔ اگر قانون کے مطابق کوئی چیز غلط ہو تو اس کو ٹھیک نہیں کہہ سکتے۔ اگر قانون کے مطابق درست نہیں تو پھر ہم فیصلہ دیں گے۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ میں فوج کے قانون کو پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں، ایکٹیو سروس سے متعلق سیکشن 2 پڑھ کر سناؤں گا، جنرل قوم کا افسر ہوتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے سوال چیف کا ہے، جنرل کا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے اس پر کہا کہ عدالت کو میں تعیناتی کی دیگر مثالیں بھی پیش کروں گا، قانون کو اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے کہ اس میں کوئی لچک نہ ہو۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے انہیں ہدایت کی کہ پہلے قانون سے دلائل کا آغاز کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کا تقرر وزیرِ اعظم کا اختیار ہے، یہ بات واضح ہے، ابہام نہیں کہ وزیرِ اعظم کسی کو بھی آرمی چیف مقرر کر سکتے ہیں۔

انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں ریٹائرڈ آرمی چیف کو دوبارہ لگایا جا سکتا ہے یا نہیں، اس سوال کا واضح جواب آئے تو مسئلہ حل ہو گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ جو بولنا چاہتے ہیں بولیں، پھر ہم قانونی نکات پر بات کریں گے، ہم آپ کے دلائل کی تعریف کرتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آپ کے تمام سوالات کے جوابات دیتا رہوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم ان رولز اور ریگولیشن کو پڑھتے ہیں، جو کہنا ہے کہیں، ایک ایک لفظ نوٹ کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف آرمی کے کمانڈنگ افسر ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف میں اسٹاف کا مطلب کیا ہے، خالی چیف آف آرمی بھی تو ہوسکتا تھا۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ اس بارے میں مجھے علم نہیں، پڑھ کر بتا سکتا ہوں، کمانڈنگ افسر وہ ہوتا ہے جو آرمی کے کسی الگ یونٹ کا سربراہ ہو۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پاکستان آرمی کے رولز تقسیمِ ہند سے پہلے کے ہیں، رولز میں ترامیم کو ان کی روح کی اصل روشنی میں دیکھتے ہیں۔ کیا آرمی ایکٹ میں کمیشنڈ افسر کی تعریف نہیں؟

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ تعریف ہے، اعلیٰ افسر کمیشنڈ افسر کہلاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں گڑبڑ ہے، ہم سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ادارے کا ایک باقاعدہ نظام ہے، سپاہی کا افسر لانس نائیک ہو گا، اس طرح پورے ادارے کا نظام ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر آپ کی تعریف ختم ہو گئی ہے تو آگے بڑھیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ سیکشن 16 پڑھ کر سناؤں گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سیکشن 16 ملازمت سے برخاستگی سے متعلق ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کسی کو بھی نوکری سے نکال سکتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت بھی کسی کو نوکری سے نکال سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کو محدود مگر وفاقی حکومت کو مکمل اختیارات حاصل ہیں، جونیئر اور چھوٹے افسران کو آرمی چیف نکال سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمر کا بھی تعین ہے کہ کون کس عمر میں کیسے ریٹائر ہو گا، میں عدالت کو پاک آرمی رولز 1954 ء بتانا چاہتا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پہلے یہ بتائیں کہ آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ اچھے افسر کو توسیع دے دیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ رولز 176 میں یہ چیزیں بتائی گئی ہیں۔

جسٹس منصور نے کہا کہ 176 میں تو صرف رولز ہیں، اچھا کام کرنے والے افسران کی مدت میں توسیع کا ذکر نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں اچھی کارکردگی والے افسر کو کس قانون کے تحت عہدے پر برقرار رکھا جاتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ سیکشن 176 میں قواعد بنانے کے اختیارات موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت آرمی سے متعلق قواعد اور ضوابط بنا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی کا ادارہ پوری دنیا میں کمانڈ کے ذریعے چلتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں جانتے ہیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ میں عدالت میں آرمی ایکٹ کے چیپٹر ون، ٹو اور تھری پڑھوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرمی آفیسر کے حلف میں ہے کہ اگر اسے جان دینی پڑی تو وہ دے گا، یہ بہت بڑی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”میں خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا“ یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے، بہت اچھی بات ہے اگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا جائے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4