سیکیولرازم یا اسلام : مکالمے پر تبصرہ


انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں اسلام اور سیکیولرازم کے موضوع پر اسلامی جمعیت طلبہ نے ایک مکالمے کا اہتمام کیا جس میں فرنود عالم، حاشر ابن ارشاد، زبیر صفدر اور شاہنواز فاروقی صاحب نے سیکیولرازم اور اسلام پر گفتکو کی۔ اس کروٹ لیتے سماج میں جہاں اعتدال پسندی کو دیس نکالا دیا جاچکا، یہ مجلس ایک تازہ ہوا کے جھونکے سے کسی طور کم نہی۔ اس پہلے کہ اس گفتگو پر تبصرہ کیا جائے، قارئین کی سہولت کے لیے اختصار کے ساتھ مجلس میں ہونے والی باتوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

پیش بندی میں جناب حاشر ابن ارشاد نے تقریب اور منتظمین کی تعریف کی اور مباحثے کو مکالمے کا نام دیا۔ موضوع کی حساسیت کا اقرار کرتے ہوئے سیکیولرازم کی تعریف کرنے سے پہلے اس کی ضروریات پر زور دیا۔ آپ کے مطابق یہ سوچ کی تبدیلی کا نام ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اس بیٹھک سے پہلے اسلام پسندوں سے متعلق کچھ غلط فہمیاں تھیں جو کسی طور کم ہوئیں۔ آپ کے نزدیک سیکیولرازم ایک سیاسی بندوبست کا نام ہے جو فرد کے لیے نہی بلکہ ریاست کے لیے ہے۔

اسی طرح مذہب فرد کے لیے ہے نا کہ ریاست کے لیے۔ اس کے بعد مائیک فرنود صاحب سنبھال لیتے ہیں اور سیکیولرازم کے اردو مطلب اور اصل تعریف پر بحث شروع ہوجاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ سیکیولرازم لادینیت نہی ہے۔ یہ دراصل دین میں دلچسپی ہی نہی رکھتا۔ یہ متنوع الخیال، مختلف العقائد معاشروں میں بقائے باہمی کا تقاضا کرتا ہے۔ سیکیولرازم فرد کی مذہبی آزادی، کسی مذہب کے اقرار یا انکار اور فکری اظہار کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ مذہب جب فرد کے ذاتی یا ریاستی معاملات مین مداخلت کرتا ہے تو اس سے سیکیولرازم پریشان ہوجاتا ہے۔

اس کے بعد سوال کیا جاتا ہے کہ جب مذہب ریاست کے معاملات میں مداخلت کرے تو سیکیولرازم پریشان ہوتا ہے تو کیا مذہب پر اسی قسم کا قدغن لگانے سے مذہب کو اس کے پیدائشی حق سے محروم نہی کیا جارہا۔ اس پر شاہنواز فاروقی صاحب گویا ہوتے ہیں اور اب تک کی گئی گفتگو کو خلاف واقعہ قرار دے کر سیکیولرازم کو مذہب دشمن اور خدا دشمن نظریہ قرار دیتے ہیں۔ اپنی بات کے اثبات کے لیے آکسفورڈ ڈکشنری کے صفحہ 1062 سے لفظ سیکیولرازم کی تعریف کے حوالہ جات دیتے ہیں۔

اس کے بعد کہتے ہیں کہ سیکیولرائزیشن کا مفہوم انسانوں کو مذہب سے آزاد کرکے سائنس کے تابع کرنا ہے۔ یہ مذہبی حوالوں کو تحلیل کرکے وحی و رسالت کا انکار کرتا ہے۔ سیکیولرازم کے مطابق اخلاقیات حالات اور وقت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ سیکیولر مورالٹی ایک ریلیٹیو مورالٹی ہے جس میں اخلاقیات کا معیار بدلتا رہتا ہے، جیسے کہ جنسی تعلقات سے متعلق سیکیولر رویے۔ یہ خدا سے بے نیاز ہے اور معاشرے کی نوبل اقدار کے خلاف ہے۔

زبیر صفدر صاحب نے سیکیولرازم کو ابہامات کا مجموعہ قرار دیا کہ اس کا واحد مقصد کنفیوژن پیدا کرنا ہے۔ اسلام کو چودھویں کے چاند سے مشابہت دی اور سیکیولرازم کو کسی گمنام ستارے سے۔ آپ کے نزدیک اسلام کے ماننے والوں کے ذاتی افعال کو لے کر اسلام پر تنقید کی جاتی ہے اور اسلام کی تاریخی حیثیت سے انکار کیا جاتا ہے۔ آگے چل کے مذہب اور دین کے تصور پر حاشر ابن ارشاد صاحب متکلم ہوتے ہیں کہ یہ ایک ہی کون سی پٹ ہے۔

دین کے ضابطۂ حیات ہونے کی بات بہت بعد میں کی گئی۔ ابتداء میں یہ سیاسی بندوبست سے الگ رہا ہے۔ آپ کے نزدیک ویسٹ فیلیا ٹریٹی کے بعد پتا چلتا ہے کہ مذہب میں بھی سیاسی بندوبست کا اہتمام ہے۔ فرنود عالم صاحب بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ یہ سیکیولرازم اور مذہب کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اس کے لیے آپ اس بات کا حوالہ دیتے ہیں کہ پولیٹیکل اسلام اور نان پولیٹیکل اسلام میں تشریحات کا فرق ہے۔ بدھ ازم کا حوالہ دیتے ہیں کہ اس میں رسالت کا تصور نہی لیکن یہ بھی ایک مذہب ہے۔

بات یہ ہے کہ انسانوں کو جس طریقے پر یقین ہو اس پر عمل کرنے کی آزادی ہو۔ چوبیس اسلامی ممالک ایسے ہیں جن میں سیکیولر نظام حکومت قائم ہے۔ ہم ہندوستان میں بھی ہم سیکیولر نظام چاہتے ہیں۔ اسی لیے citizen amendment bill of india کے خلاف ہیں۔ جس طرح ہم ہندوتوا کی مخالفت کرتے ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی ہندووں کو آزادی ملنی چاہیے۔

فاروقی صاحب گویا ہوتے ہیں کہ معلوم 6000 سال انسانی تاریخ میں سیکیولرازم کا کوئی تصور نہی۔ یہ جدید مغربی تصور ہے جس کا مقصد مذہب کو ختم کنا ہے۔ یہ خدا کا انکار کرتا ہے۔ سیکیولرازم میں انسان کو خالق مان کر پوجا جاتا ہے۔ یہ مادہ پرست نظام ہے۔ اس کے برعکس مذہب میں انسان کو شعورِ بندگی کی بنیاد پر جانا جاتا ہے جو خدا کی رضا چاہتا ہے۔ مذہب کے مطابق انسان روح، نفس اور جسم کا مجموعہ ہے جبکہ سیکیولرازم کے مطابق انسان محض مادہ ہے۔ دونوں نظام تصور علم میں بھی متصادم ہیں۔ ایک کے نزدیک اخروی کامیابی ہی حقیقی کامیابی ہے جبکہ دوسرا کہتا ہے کہ دنیاوی مال و متاع ہی حتمی جیت ہے۔ اسلام انسان کو ضابطے کا پابند کرتا ہے جبکہ سیکیولرازم ایسی کوئی پابندی نہی لگاتا۔

زبیر صفدر صاحب کہتے ہیں کہ اسلام کا تصور دین ایسا نہی کہ انسان ذاتی حیثیت میں مذہبی ہو اور اجتماعی طور پر سیکیولر۔ اسلام وہ ہے جس کا ماخذ قرآن ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے ”ادخل فی السلم کافہ“

سوال یہ ہے کہ کیا اسلام زندگی گزارنے کا ضابطہ نہی دیتا۔ کیا معاشی، معاشرتی و فوجداری قوانین کا بیان نہی موجود قرآن میں؟ اسلام اپنی اساس میں محض فرد کے لیے نہی بلکہ معاشرے کے لیے ہے۔

فرنود صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ ہے ہی یہ کہ مذہبی عقیدے اور سیاسی معاملات میں تصادم ہے۔ مذہب مابد الطبیعیات metaphysical ہے۔ اس میں دو جمع دو پانچ ہوسکتے ہیں اور اسے فلسفے کی بنیاد پر جانچا بھی نہی جاسکتا۔ جبکہ سیاست ایک مادی شے ہے، ہم اسے محسوس کرسکتے ہیں اور اسے عقل کی بنیاد پر پرکھ سکتے ہیں۔ جبکہ مذہب سیاسی و غیر سیاسی میں منقسم ہے۔ اس میں توہین رسالت ایکٹ ایسی چیزیں ہیں۔ یہ منطقی نہی ہے۔

اس میں حزب اللہ اور حزب الشیطان کا تصور ہے۔ ریاست کو ایسا کوئی حق نہی کہ وہ انفرادی عمل اور مذہبی معاملات میں مداخلت کرے۔ مذہب کے تصور گناہ پہ ریاست کو قانون سازی نہی کرنی چاہیے۔ سیکیولرازم کے مطابق انسان کو مذہب پر محض اس لیے عمل کرنا چاہیے کہ خدا اس کا تقاضا کرتا ہے نا کہ ریاست ایسا کرنے کے لیے مجبور کرے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments