پیر سائیں کا شمامۃ العنبر عطر اور لچھی کی اقلیتی کرسی


کسی دن بادل ہوتے تو لچھی کو کاپی کی لکیریں ناچتی ہوئی لگتی تھیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے بھی دیکھتی تو بھی لکیر کہیں جاتی اور اس کی پینسل کہیں اور۔

اسکول شروع ہوتے ہی وہ روز سب کے ساتھ اپنی پوری آواز کے ساتھ چیخ چیخ کے کلمہ پڑھتی اور پھر یاد کرتی

ہم سب مسلمان ہیں ہم سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اس نے زمین سورج چاند ستارے پیدا کیے اس نے ہی تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے۔

اس کا کئی بار دل چاہا کہ ”سر“ سے پوچھے کہ انسان کا مطلب سارے لڑکے یا ساری لڑکیاں؟ مگر ”سر“ کے پاس رکھا ڈنڈا اسے چپ رہنے پہ مجبور کردیتا تھا۔ پورا دن سر کم بولتے تھے یہ ڈنڈا زیادہ بولتا تھا۔

اس ڈنڈے کے یاد کروائے ہوئے سبق ہر بچے کے جسم سے زیادہ روح کو یاد تھے۔

آہستہ آہستہ جب اسے پکا یقین ہوگیا کہ یہ اونچائی ناقابلِ تسخیر ہے تب ہی ایک دن کلاس میں دو نئی کرسیاں آگئیں پتا چلا آج سے وڈیرا سائیں کی بیٹی اور بھتیجی اسکول آئیں گی بی بی سکینہ اور بی بی حاجرہ، مگر مکمل نام صرف حاضری رجسٹر میں لکھنے کے لیے تھے ورنہ سر سے لے کر چپڑاسی تک ہر کوئی انہیں صرف بی بی کہتا تھا۔

ان کی دمکتی رنگت، سیاہ، سلیقے سے بندھے، چھوٹے سے اسکارف میں اور نمایاں ہو جاتی تھی، ان بچیوں کے ساتھ ان کے بستے پکڑے ان سے ذرا بڑا ایک لڑکا بھی ہوتا تھا۔ جو سارا دن ان کے پیروں کے پاس بیٹھا رہتا تھا اسکول کے زیادہ تر بچوں نے ٹی وی کے علاوہ پہلی بار باقاعدہ بستے دیکھے تھے جب جب کوئی بستہ کھلتا تھا آگے والی بینچ پہ بیٹھے لڑکے اور نیچے بیٹھی لڑکیاں بستے کی تاریک جیبوں میں یوں جھانکتے جیسے اندر کوئی الگ دنیا آباد ہو۔

اس شوق میں روز آگے بیٹھنے پہ جھگڑا ہوتا۔ سدا کے نالائق لڑکے لڑکیاں جو اسکول ہی مشکل سے آتے تھے اب سب سے پہلے موجود ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ ان بستوں میں سے جو کچھ برآمد ہوتا تھا وہ بھی زیادہ تر بچوں کے لیے عجوبہ ہی تھا۔ صاف ستھری جلد والی کتابیں، پھول والے ڈیزائن کی کاپیاں، سادی اور رنگین پینسلیں، جانوروں اور پھلوں کے شکلوں والی رنگ برنگی ربڑیں، ٹافیاں، بسکٹ، جوس۔ جو بچیوں کے ایک اشارے پہ وہ قدموں میں بیٹھا لڑکا نکال نکال کے دیتا رہتا تھا۔ بچیاں شاید چھ سال کی تھیں اور لڑکا دیکھنے میں آٹھ یا نو سال کا لگتا تھا۔ لچھی خود سات سال کی تھی اور وہ لڑکا اسے اپنے بڑے بھائی جتنا لگتا تھا۔

لچھی بھی پہلی میں تھی اور وہ دونوں بھی۔ لچھی بغیر کسی شک و شبہ کے پہلی کی سب سے ہوشیار طالبہ تھی مگر نتیجہ نکلا تو پہلی پوزیشن پہ وڈیرہ سائیں کی بیٹی سکینہ تھی دوسری پہ وڈیرہ سائیں کی بھتیجی ہاجرہ اور تیسری پوزیشن پہ لچھی۔ رپورٹ کارڈ لیتے ہوئے لچھی کی آنکھوں کے سوال اتنے واضح تھے کہ شاید سر نے اور ہیڈ ماسٹر نے بھی پڑھ لیے۔ ہیڈ ماسٹر نے نرمی سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا

”اگلی بار اور محنت کرنا“

نیا سال شروع ہوا تو لچھی کو نیا دوپٹہ بھی ملا جو اماں کے دوپٹہ سے چھوٹا تھا مگر چاروں طرف موتیوں کی چھوٹی چھوٹی لڑیاں لٹکی تھیں۔ اس بار اماں نے امتحانوں کے دوران ہی اس کے لیے دوپٹہ بنانا شروع کردیا تھا۔

سکینہ اور ہاجرہ کے اسکارف کی جگہ بھی اب ذرا بڑے سیاہ چادر نما دوپٹے نے لے لی تھی۔

اس کمرے میں اور بہت سی لڑکیاں تھیں مگر لچھی کو لگتا تھا اس کا مقابلہ بس ان دونوں بیبیوں سے ہے۔ یا شاید ان کی کرسیوں سے۔ اسی سال چاچا تیرتھ کی بڑی بیٹی سِری اسکول سے واپسی میں غائب ہوگئی حالانکہ یہ چاروں ایک ساتھ ہی واپس آتی تھیں مگر پھر بھی پتا نہیں کس موڑ پہ وہ گم ہوئی ان میں سے کسی کو اندازہ نہیں ہوسکا۔ چاچا اس دن پاگلوں کی طرح ہر جگہ بیٹی کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ اگلے دن تھانے گیا تو منشی نے دھتکار دیا۔

ان کی برداری کے ہر گھر میں عجیب آسیب زدہ ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ اماں نے کئی دن اسے اسکول ہی نہیں جانے دیا۔ خبروں والے روز چیخ چیخ کے بتاتے کہ ”بارہ سالہ سری دیوی“ نے اپنی مرضی سے پسند کی شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کرلیا ہے۔ محلے کے جس گھر میں بھی ٹی وی تھا اس گھر سے سری سے متعلق کسی نا کسی خبر یا بحث کی آوازیں آرہی ہوتی تھیں۔ ہر چینل پہ دو تین لوگ بیٹھے کچھ موجودہ حکومت پہ اعتراض کر رہے ہوتے تھے تو کچھ ہندو برادری کے ”اندرونی“ مسائل کو ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔

گاؤں میں جہاں دو لوگ جمع ہوتے یہی موضوع زیرِ بحث ہوتا تھا۔

چاچا تیرتھ پولیس سے مایوس ہوکر وڈیرہ سائیں کے دروازے پہ پہنچ گیا۔ جرگہ بلایا گیا سارے گوٹھ والے جمع ہوئے لچھی کے محلے کی پانچ بوڑھی عورتیں بھی گئیں لچھی بھی دادی کے پیچھے پیچھے جرگے میں پہنچ گئی۔ یہ کہنے کو جرگہ تھا مگر سب پیر سائیں کے حکم کے پابند تھے۔ لچھی نے زندگی میں پہلی بار پیر سائیں کو دیکھا تھا۔ ان کے آکر بیٹھتے ہی گاؤں کے سید مردوں نے بڑھ کے ان کے ہاتھ چومے۔ باقی تمام گاؤں کے مردوں نے قدم چومے آخر میں ہندو برادری کی باری آئی جنہیں قدم چھونے کی اجازت نہیں تھی وہ سب مرد، پیر سائیں کے قدموں سے ذرا پرے زمین چوم چوم کے اپنی جگہوں پہ آکر بیٹھ گئے۔ پیر سائیں کے اشارے پہ ان کے بغل میں کھڑے ایک شخص نے تیرتھ کا مسئلہ بتانا شروع ہی کیا تھا کہ پیر سائیں نے ہاتھ اٹھا کر خاموش کرادیا۔

”بابا! تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو تمہاری لڑکیاں کیا گل کھلا رہی ہیں۔ جب تک لڑکی گھر میں تھی تب نظر نہیں رکھی اب ہاتھوں سے نکل گئی تو روتے پھر رہے ہو۔ ویسے بھی قاعدہ یہ تھا کہ پہلے صبغت شاہ کے پاس مسئلہ لے کر آنا چاہیے تھا۔ “ پیر سائیں نے وڈیرہ سائیں کی طرف اشارہ کیا۔

” اب جب تم نے تھانے کے منشی کو اپنا سائیں مان لیا ہے تو ہم سے کیا شکوہ؟ ویسے بھی تمہاری اپنی برادری میں گئی ہوتی تو ہم سنگ چٹی دلوا سکتے تھے۔ اب وہ مسلمان ہوگئی ہے ہماری پناہ میں ہے معاملہ ختم۔ “ پیر سائیں فیصلہ سناتے ہی اٹھ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ سارا میدان آہستہ آہستہ خالی ہوتا چلا گیا۔ چاچا تیرتھ وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔ میدان سے نکلتے ہوئے لچھی نے آہستگی سے دادی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ دادی بے دھیانی میں آگے بڑھ گئی لچھی وہیں ایک ٹوٹی دیوار کے پیچھے چھپ کے چاچا تیرتھ کو دیکھ رہی تھی۔ چاچا کچھ دیر گم سم اپنی جگہ پہ کھڑا رہا پھر پیر سائیں کی کرسی کے بازو پہ ہاتھ رکھ کر نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ اس کا ہلکے ہلکے جھٹکے لیتا بدن دیکھ کر لچھی کا دل بھی بھاری ہوگیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments