کمزور سہیل کی باکرہ دلہن


میں نے اس کی طرف دیکھا، اور کہا، تم کو تو شادی کا بہت شوق تھا، ہر وقت تیار ہو کر گھومتی تھیں، جیسے آج بھی لیکن میری بات ادھوری رہ گئی وہ چیخی، میں کب گھومتی تھی ہر وقت تیار ہو کر، اس گھر میں آتے ہی باورچی خانے میں لگا دیا تھا آپ کی اماں نے، کہ بڑی بھاوج ہو تم بس سب کی خدمت کرو، کھانے پکاؤ اس نے میری اماں کی نقل اتاری جو کہ وہ اکثر اتارتی تھی، مجھے ہنسی آ گئی، تم خوش ہو کھانے پکا کر، بس ٹھیک ہے، دعا ہے کہ نادیہ اور ہماری بچیاں بھی خوش رہیں، آج مجھے محسوس ہوا، بچیاں واقعی بڑی ہو گئی ہیں

یہ تو میں آپ سے کب سے کہہ رہی ہوں، کوئی اچھا اکلوتا لڑکا ڈھونڈیئے، ہماری بچی تو بھی اکلوتی ہے، لڑکا اچھا اور شریف ہو بس یہ کافی ہے اکلوتے کی پخ ضروری نہیں، میں نے کہا، آپ مرد گہرائی میں نہیں سوچتے، وہ بولی، اچھا بس فی الحال چپ ہو جاو، میں نے لیٹتے ہوئے کہا، وہ بھی لیٹ گئی، تھوڑی دیر کے بعد مجھے نیند آگئی، صبح میری آنکھ کسی کے کھانسنے سے کھلی، نہ جانے کون ٹیرس پر کھانس رہا تھا، میں نے کروٹ بدلتے ہوئے سیل فون میں وقت دیکھا، ساڑھے آٹھ بجے تھے، میری بیوی بے خبر سو رہی تھی، میں نے بھی سونے کی کوشش کی، لیکن نیند نہ آئی، میں نے اٹھ کر کھڑکی سے جھانکا، سہیل ٹیرس پر سگریٹ پی رہا تھا اور شاید وہی کھانسا تھا، میں نے سر جھٹکا اور منہ ہاتھ دھو کر کمرے سے باہر نکلا، تو سہیل اپنے کمرے میں واپس جا رہا تھا

میں نچلی منزل پر آیا تو سب ہی سوئے ہوئے تھے، اور پورے گھر میں مختلف آرائشی اشیاء اور بچوں کے کپڑے بکھرے ہوئے تھے، نکاح کے میوہ جات بھی ادھر ادھر زمین پر پڑے تھے، جو شاید بچوں سے گرے تھے، میں نے پھیلاوا سمیٹا اور گھر میں جھاڑو دینا بھی شروع کر دی، جب میں کچرا دان میں کچرا پھینک رہا تھا تو جمعدار بھی اسی وقت آ گیا، میں نے اسے کچرا دان تمھا دیا جو اس نے خالی کر کے دے دیا، میری چھوٹی بھابھی کمرے سے نکلی۔

دلہن کے گھر والے ناشتہ لا رہے ہیں، فون آ گیا ہے اس کی امی کا، ارے ابھی تک کوئی بھی سو کر نہیں اٹھا، بھائی جان آپ کیا کر رہے ہیں، چلو اچھا ہوا میں نے جھاڑو دے دی، میں نے کہا، میں الارم لگا کر سوئی تھی، میں صفائی کر دیتی، رات کو بہت تھک گئے تھے، اس لیے ہمت نہیں ہوئی وہ شرمندگی سے کہنے لگی، کوئی بات نہیں کم از کم چائے بننے تو رکھو، میں کھانے کے لئے بھی کچھ بناوں گی، آپ بے فکر رہیں، وہ کہتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئی، میں ہاتھ دھو کر دوبارہ اپنے کمرے میں آیا اور بیوی کو اٹھایا، نادیہ کے گھر والے آ رہے ہیں ناشتہ لے کر، وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی، نیچے اترنے سے پہلے سہیل کے کمرے کا دروازہ بھی بجایا کہ اٹھ جاو، نیچے آ کر اماں کو اٹھایا، اماں آپ ابھی تک نہیں اٹھیں، بے فکر ہو گئیں آخری بیٹا بیاہ کر، میری بیوی اماں سے بھی شرارت کرنے لگی، ارے تم سے کہا تھا، کہ مجھے کمبل نکال دو، موسم بدل رہا ہے میرے گھنٹوں میں درد ہو گیا، رات کو نیند بھی دیر سے آئی، ٹھنڈ محسوس ہوتی رہی، ہائے معاف کر

دیں اماں، ابھی نکالتی ہوں، وہ پیٹی کی طرف بڑھی، اماں کو کمبل نکال کر دیا اور پھر باورچی خانے میں چلی گئی، تھوڑی دیر کے بعد پھر بالائی منزل کی جانب مجھے اشارہ کرتی ہوتی بڑھی، اوپر کا حال احوال بھی تو لوں، میں نے صرف سر ہلایا، تھوڑی دیر کے بعد نادیہ کے گھر والے آ گئے، میری بیوی نادیہ اور سہیل بھی نیچے اتر آئے، سہیل صرف ناشتہ کرنے ساتھ بیٹھا، پھر واپس کمرے میں چلا گیا، مجھے یہ بد اخلاقی محسوس ہوئی لیکن خاموشی میں بھلائی سمجھی

نادیہ کے گھر والے چلے گئے، گھر کے بچے نادیہ کو گھیر کر بیٹھ گئے، دوپہر تک ناشتہ چلتا رہا، سہ پہر کو خواتین اور لڑکیاں نادیہ کو لے کر بیوٹی پارلر چلی گیئں، میں اماں سے باتیں کرتے کرتے سو گیا، شام ہو گئی تو اماں نے اٹھایا، ولیمہ کے ہال کاچکر تو لگا آو، میں اٹھ بیٹھا، میں اتنی دیر سو گیا، کوئی بات نہیں، اماں نے کہا اچھا ہوا سو گئے، میں باہر آیا تو میری بیوی اور سہیل بحث میں مصروف تھے، میری بیوی سہیل کو ہال میں پہنچنے کا کہہ رہی تھی کہ فوٹو گرافر انتظار کر رہا ہے لیکن سہیل نخرے کر رہا تھا، کیا ضرورت ہے

ضرورت کیوں نہیں ہے، میرا دوسرابھائی بگڑ کر بولا، بلوایا کیوں تھا، ایڈوانس رقم دے چکے ہیں، اب ہر حال میں فوٹو گرافی ہو گی، آخر کیا مسئلہ ہے سہیل، میں بھی پوچھ بیٹھا، تو سہیل نے میری طرف دیکھا اور فورا بالائی منزل کی سیڑھیاں چڑھ گیا، میں بھی اپنے کمرے میں تیار ہونے آ گیا، ہال میں سب ایک ساتھ پہنچے، سہیل بالکل چپ تھا، بلکہ سب ہی چپ تھے، ولیمہ بہ خیر و خوبی نمٹا کر گھر واپس آئے اور سکون سے سو گئے

دو دن خیریت سے گزرے، تیسرے دن میں آفس گیا، واپس آیا تو سہیل اور نادیہ دروازے پر کھڑے تھے، سہیل موٹر سائیکل گھر سے نکال رہا تھا، کہاں چلے میں نے پوچھا، نادیہ کو ان کے میکے لے جا رہا ہوں، مجھے نادیہ کاچہرہ بے رنگ اور خوف زدہ سا محسوس ہوا، میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا، اس نے میری طرف ایسے دیکھا، جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو، مجھے حیرت سی ہوئی، پوچھا تم کو کیا ہوا ہے، یہ موٹر سائیکل پربیٹھتے ڈر رہی ہے، سہیل کہنے لگا، تو ٹیکسی منگوا لیتے، میں نے کہا، روز تھوڑی منگوا سکوں گا۔

عادت ڈالنی ہو گی موٹر سائیل پر بیٹھنے کی، وہ ترش لہجے میں بولا، میں بد مزگی کے ڈر سے مزید کچھ نہ بولا، نادیہ بہ مشکل بیٹھ گئی، سہیل نے موٹر سائیکل آگے بڑھا دی، میں اندر آ گیا، مجھے سہیل کے رویئے پر حیرت تھی، سہیل نادیہ کے گھر سے جلدی آ گیا، مجھ سے نگاہیں نہ ملائیں، دو دن گزر گئے، سب نے سہیل کو نادیہ کو لانے کا کہا، میری بیوی کے سیل فون پر نادیہ کی امی کا فون آیا اور انہوں نے جھجکتے ہوئے پوچھا کہ سہیل کب لینے آئے گا، میری بیوی کو حیرت سی ہوئی لیکن اس نے بات سنبھال لی اور نادیہ سے بات کی، اس نے بھی یہی کہا، سہیل لینے آئیں گے تو آ جاوں گی، میری بیوی نے مجھے بتایا اور کہا کہ آخر دو دن کے دولہا دلہن میں آخر ایسی کیابات ہو گئی، آپ سہیل سے پوچھیے نا

میں سوچ میں پڑ گیا کہ سہیل سے کیسے پوچھوں، لیکن رات کے کھانے کے دوران بچوں نے میری مشکل آسان کر دی، وہ چچا سے چچی کو لانے کے لئے کہنے لگے، سہیل نے کہا، چچی کو بھول جاو، مجھے پسند نہیں آئی تمھاری چچی، ہم سب دم بخود رہ گئے، سہیل اطمینان سے کھانا کھاتا رہا، جب کہ ہم سب کھانا کھانا بھول چکے تھے، سہیل تم مذاق کر رہے ہو، میری دوسرے نمبر والی بھاوج نے پوچھا، نہیں میں بالکل سیریس ہوں، سہیل نے کہا

لڑکے کیا اول فول بک رہا ہے، دو دن تو ہوئے ہیں شادی کو اور تو نے شادی سے پہلے دیکھا تو تھا، اماں نے برہمی سے کہا، سہیل نے اطمینان سے پانی پیا پھر گویا ہوا، میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں، مجھے وہ بالکل پسند نہیں آئی ہے، میں اس کو طلاق دے دوں گا جلد ہی، ہم سب حیرت سے گنگ ہو گئے، نا پسند کرنے کی وجہ، میری بیوی نے سوال کیا، سہیل کوئی جواب دیے بنا بالائی منزل کی سیڑھیاں چڑھ گیا، بچے کھس پھس کرنے لگے، جب کہ ہم سب صدمے میں تھے

ارے میرے تو ہاتھ پاوں سن ہو رہے ہیں کیا کہہ گیا یہ لڑکا، اماں بولی، میرا دوسرا بھائی اٹھ کر اماں کو دلاسا دینے لگا، میری بیٹی میری بیوی سے پوچھنے لگی، طلاق تو عدالت کے ذریعے ہوتی ہے کیا ہم لوگ عدالت جائیں گے، اللہ نہ کرے چپ رہو، ایسی باتیں نہیں کرتے، میری بیوی نے اسے جھڑکا، چلو سب لڑکیاں دسترخوان بڑھاو، اماں کو تسلی دینے اور بچوں کے سونے کے بعد سب نے فیصلہ کیا، کہ سہیل سے بات کریں، سہیل کمرے کا دروازہ بند کیے بیٹھا تھا، لیکن سب کے مسلسل دروازہ بجانے پر مجبورا کمرے سے باہر آ گیا، ہم نے دوبارہ اسے کمرے میں دھکیلا اور اس کے کمرے میں ہی براجمان ہو گئے

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments