پچاس برس پہلے ملائیت کا انجام بتانے والا فن پارہ: غلام عباس کا شاہکار افسانہ ”دھنک“


ابھی سپیدہ سحر نمودار نہیں ہوا تھا کہ کراچی سے سینکڑوں میل دور ایک قصبے کی چھوٹی سے مسجد میں ایک ملا صاحب نماز فجر کے بعد نمازیوں سے کہہ رہے تھے :

” ابھی ابھی میں نے اپنے ٹرانسسٹر پر یہ اعلان سنا ہے کہ پاکستان کا کوئی مردود شخص چاند پر پہنچ گیا ہے خدا اس کو غارت کرے۔

” برادران اسلام، یہ صریح کفر ہے کہ جن اشیا پر مشیت ایزدی نے اسرار و رموز کے حجاب ڈال رکھے ہیں انہیں سائنس دان اورنام نہاد ترقی کے نام پر بے نقاب کیا جائے۔

” بھائیو۔ ہم نے اپنی اس چھچھوری حرکت سے باری تعالیٰ کی جناب میں سخت گستاخی کی ہے۔ میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ عنقریب ہم پر خدائے قہار کا غضب نازل ہونے والا ہے۔ “

گاؤں اور قصبوں ہی کے نہیں شہروں کے ملاؤں میں بھی اس خبر سے ہلچل مچ گئی۔ چنانچہ ایک شہر کی درسگاہ میں ایک ملا صاحب جو درپردہ شعر و سخن کا بھی مذاق رکھتے تھے، یو ں نکتہ سنج تھے :

” باری تعالیٰ نے انسان کوزمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا اوریہ اختیار بخشا کہ جا وہاں جو جی میں آئے کرتا پھر، مگر انسان کا ناشکراپن اور اس کی ہوس ملک گیری دیکھو کہ اسے زمین کی لا محدود وسعتیں اپنے اعمال و فعال کے لیے تنگ معلوم ہوئیں اور اس نے اپنے خالق ہی کے آستانہ خاص، اس کی آسمانی مملکت ہی پرجوچاند سورج اور ستاروں پرمحیط ہے، غاصبانہ قبضہ جمانے کی ٹھان لی ہے۔

” اللہ اللہ انسان کے جنون نخوت کا کچھ ٹھکانہ ہے کہ اس نے فرشتوں کو تو صید زبوں قرر دے کر چھوڑ دیا اور خود یزداں ہی پر کمندیں پھینکنی شروع کر دیں۔

” نعوذ باللہ من ذالک۔ “

اور پھر اگلے جمعہ کو در السلطنت کی وسیع جامع مسجد میں جہاں ہزاروں مسلمان نماز جمعہ کے لیے جمع ہوئے تھے شہر کے ایک شعلہ بیاں خطیب للکار للکار کر اپنے خطبہ میں کہہ رہے تھے :

” مسلمانوں۔ تمہاری درسگاہوں میں جوشیطانی علوم پڑھائے جا رہے ہیں جانتے بھی ہو ان کا لب لباب کیا ہے؟ ان کا لب لباب یہ ہے کہ مادہ مثل ذات باری تعالیٰ ازلی ہے۔ یا ذات باری تعالیٰ (نعوذ باللہ) خود مادی ہے۔ تم نے دیکھا ان علوم نے رفتہ رفتہ کیا گل کھلایا، میرا اشارہ تسخیر و قمر کیطرف ہے جس کی خبر تم نے ریڈیو پرسنی اور اخباروں میں پڑھی ہو گی۔ ہماری حکومت جومغرب کی پیروی میں لادینیت کا شکار ہو گئی ہے اپنی اس کامیابی پر پھولی نہیں سماتی حالانکہ یہ سخت کافرانہ و ملحدانہ فعل ہے جس کا مرتکب شریعت کیرو سے واجب القتل ہے۔

” مسلمانو۔ آج ہر طرف فسق و فجو کا بازار گرم ہے۔ زمین فتنہ و فساد کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے۔ بے دینی، بے غیرتی، بے حیائی، فحاشی، عیاشی اور کفرو الحاد کا دور دورہ ہے۔ اللہ کا کلمہ نیچا اور کفر کابول بالا رہاہے۔ زنا کاری، شراب خوری اور قمار بازی دھڑلے سے ہو رہی ہے۔

آلات لہو و لعب اورناچ گانے کا عام رواج ہو گیا ہے۔

عورت کی آنکھ سے حیا اور جسم سے لباس کی قید اٹھ گئی ہے۔ یہ ساری علامتیں قرب قیامت کی ہیں۔

”مسلمانو۔ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب کلام اللہ دلوں، زبانوں اور کاغذوں سے اٹھا لیا جائے گا۔ زمین جا بجا شق ہو جائے گی۔ سمندر ابل پڑیں گے، پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہرکرتیز ہوا سے ریت کی طرح اڑنے لگیں گے۔ گردو غبار اورآندھیوں سے جہان تیرہ و تار ہو جائے گا۔ آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے ٹوٹ ٹوٹ کرریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔

” مسلمانو۔ جاؤ گاؤں گاؤں قریہ قریہ شہرشہر لوگوں کو خبردار کر دوکہ انسان من حیث القوام توبہ و استغفارکر لے کیونکہ قیامت آنے والی ہے۔ “

اور اس طرح ملاؤں نے اپنی لسانی اور زور خطابت سے عوام کو قرب قیامت کا ایسا یقین دلایا کہ ہر شخص ڈرا ڈرا سہما سہما نظر آنے لگا۔ حکومت کے خلاف ہر طرف ایک بد دلی سی پھیلنے گی۔ ملاؤں کی تحریک روز بروززور پکڑنے لگی۔ ملک بھر میں جگہ جگہ پہلے چھوٹے چھوٹے پھر بڑے بڑے جلوس نکلنے لگے۔ اسی طرح ان کے جلسوں کے شرکا کی تعداد بھی جلد جلد بڑھنے لگی۔ جلد ہی دارالسطنت میں ایک بھاری جلسہ منعقد کیا گیا جس میں حسب ذیل قرار داد منظور کی گئی:

” پاکستان کے عوام موجودہ نظام حکومت کوسخت کافرانہ اورفاسد اصولوں پرقائم تصور کرتے ہیں جس پر ہولناک نتائج نکلنے کا شدید خطرہ درپیش ہے۔ اس لیے وہ مطالبہ کرتے ہیں اس نظام کوفوراً بدلا جائے اور اس کے بجائے ملک میں قانون خداوندی رائج کیا جائے“۔

اس قرار داد نے یک بیک ارباب حکومت کوجیسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جب تک ملاؤں کی تحریک تسخیر قمر کی مخالفت تک محدود رہی تھی۔ انہوں نے اسے قابل اعتنا نہیں سمجھا تھا اور سچ یہ ہے کہ شروع شروع میں ان کے پاس اس طرف دھیان دینے کے لیے وقت بھی نہ تھا۔ ان کی توجہ تو تمام تر اس خراج تحسین کووصول کرنے میں لگی ہوئی تھی جو ساری دنیا اس محیر العقول کامیابی اور سائنس میں ان کی پیش روی پر انہیں ادا کررہی تھی اور پھر وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ اس کا عالمی سیاست اور خصوصاً ہمسایہ ممالک پرکیا اثر پڑا ہے۔ وہ ظاہر میں کیا کہتے ہیں اور در پردہ ان کا رد عمل کیا ہے۔

چنانچہ ملاؤں کی اس تحریک پر عام طور پر خیال کیا گیا کہ ان لوگوں کا کیا ہے۔ یہ تو سائنس کے ہر نئے انکشاف، ہر نئی اختراع کی شروع شروع میں ایسے ہی مخافت کیا کرتے ہیں۔ مگرپھر رفتہ رفتہ خود ہی اس کو قبول کر لیتے اور اپنے تصرف میں لانے لگتے ہیں۔ چنانچہ آج بڑے بڑے خرقہ و عمامہ والے ملاؤں میں سے شاید ہی کسی کا گھر ٹیلی فون، ریڈیویا ٹیلی ویژن سے خالی ہو گا۔ یا ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جو دینی نشریات میں اپنے لیے وافرحصے کا طلب گار نہ ہو۔ جوکسی سرکاری یا قومی دورے کے سلسلے میں ہوائی جہاز کو نقل و حرکت کے دوسرے ذرائع پر ترجیح نہ دیتا ہو۔

اور تو اور آج مساجد تک الاوڈ اسپیکر جسے یہ لوگ تلفظ کی سہولت کے لیے ”آلہ مکبرالصوت“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اذان، خطبہ اور دینی تقریبات کی تشہیر کا ایک جزو لاینفک ہے۔ اس لیے عجب نہیں کہ چند روز میں وہ تسخیر قمر کو بھی قبول کر لیں اور پھر کون کہہ سکتا ہے کہ آئندہ جب چاند میں سب سے پہلی مسجد کے افتتاح کا موقع آئے تو ہرملا اس مقدس فریضہ کے ادا کرنے کا خود کو دوسروں سے کہیں زیادہ اہل ظاہر نہ کریگا۔

لیکن اب جو اس تحریک نے ایک نیا رنگ اختیارکر لیا تو ارباب حکومت کو سخت تشویش ہوئی اور انہوں نے اخبارات اور ریڈیو کے ذریعے حکومت کا مو ¿قف واضح کرنے کی کوشش کی۔ اسی سلسلے میں ایک مفکر سے ”سائنس اور اسلام“ کے عنوان سے ریڈیو پر ایک زور دار تقریر بھی نشرکرائی۔ جس میں مفکر نے کہا:

” ہمارے ملا صاحبان سائنس کوکفر و الحاد سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے درس و تدریس کو گناہ قرار دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں جا بجا ارشاد فرمایا ہے کہ کائنات کو مسخر کرو۔ ہواؤں پر حکم چلاؤ، چاند اور سورج کی شعاؤں کواپنی گرفت میں لاؤ۔ زمین کے سینے سے اس کے ان گنت خزانے نکالو، اور سمندر کی طوفانی موجوں کوتابع فرمان بناؤ۔ تسخیرقمران ہی ارشادات خداوندی کی تعمیل کی ایک کوشش ہے۔ “

ایک پمفلٹ میں جس کا عنوان ”برچھی سے ایٹم بم تک“ تھا مضمون نگار سے موجودہ زمانے کے تقاضوں پریوں روشنی ڈالی:

” حضور سرور کائنات کے زمانے میں تیر انداز، شمشیر زنی اور شہسواری کی مہارت مسلمانوں کے لیے ایک مقدس فریضے کی حیثیت رکھتی تھی کیونکہ اس سے دین حق کی حفاظت مقصود تھی۔ اگر آنحضرت صلعم موجودہ زمانے میں ہوتے اور دیکھتے کو کس طرح باطل کی قوتیں چاروں طرف سے اسلام کو اپنے نرغے میں لینا چاہتی ہیں تو وہ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹینک اور ہوائی جہاز تو کیا راکٹ، میزائل بلکہ ایٹم بم تک کے استعمال کو ہر مومن کے ایمان کا جزو قرار دیتے۔ “

مگر ملاؤں کی تحریک اب اس قدرزور پکڑ چکی تھی کہ محض بیانات سے اس کا مداوا ہونا مشکل تھا۔

ادھرجب کیپٹن آدم خان چاند کی مہم سر کر کے اپنے خلائی جہازسمیت صحیح سلامت وطن واپس پہنچ گیا تو اس کی بڑی آؤ بھگت کی گئی۔ اسے قومی ہیروں قرار دیا گیا۔ اس کا استقبال ایک فاتح کی حیثیت سے کیا گیا اور اس کے فوجی مناصب میں جلد جلد ترقی دے کر اسے پہلے میجر اور کرنل بنا دیا گیا۔ علاوہ ازیں ملکی و غیر ملکی اخبارات میں اس کی ان گنت تصویریں اور انٹرویو چھاپے گئے۔ ایک تصویر جو خاص طور پر بڑی مقبول ہوئی اس موقع کی تھی جبکہ ایک غیر ملکی سفیرکی بیوی پاکستانی خلا پیما کی اس عدیم النظیر بہادری پر وفور جذبات سے مغلوب ہو کر اس کا منہ چوم رہی تھی۔ ہر چند اس میں بڑا معصوم سا جذبہ کار فرما تھا۔ مگر ملاؤں نے جو آدم خان کو مردود اور گردن زدنی سمجھتے تھے اسے کچھ اور ہی معنی پہنا کے خوب خوب اچھالا۔ اور اس سلسلے میں خزب اختلاف کے بعض اراکین سے ساز باز کر کے قومی اسمبلی میں ایک تحریک التوا بھی پیش کروا ڈالی۔

اس سے ملک میں اور بھی انتشار پھیل گیا۔ ملاؤں کے حوصلے پہلے سے بھی بڑھ گئے۔ اور انہوں نے جلد ہی اپنا ایک ملک گیر کنونشن منعقد کر ڈالا۔ جس میں متفقہ طور پر حکومت کے ارباب حل و عقد سے مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ و ہ کافر بے دین ہیں اور مملکت خداداد پاکستان کی سربراہی کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اس لیے ان کوفوراً مستعفی ہو جانا چاہیے۔

جس عظیم الشان جلسے میں یہ قرار داد پیش کی گئی اس میں بڑی بڑی تقریریں سننے میں آئیں۔ ایک ملا صاحب حاضرین سے یوں خطاب کر رہے تھے جوشیلی ”حیف صد حیف کہ ارباب حکومت نے ہماری تنبہیہ کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دی۔ لیکن دوست اب تنبیہات کا وقت گزر چکا ہے اوروہ ساعت آ پہنچی ہے کہ ملک کی زمام کار ملحدوں اور خدا کے باغیوں سے چھین لی جائے اور حکومت کی سربراہی مومنین اورصالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ پس اے مسلمانوں اٹھو، اس کافرانہ تہذیب کے علم برداروں سے عنان اقتدار چھین لو، اور چار دانگ عالم میں دین الہٰی کا ڈنکا بجا دو۔

” کیا تم جاننا چاہتے ہوکہ ہم کیسی حکومت چاہتے ہیں؟ آؤ میں تمہیں اس کی ایک جھلک دکھاؤں۔ اس حکومت میں کوئی فقیر نہیں ہو گا۔ لاوارث نہیں ہو گا کیونکہ یہ حکومت خود اس کا مائی باپ ہو گی۔ زمین کا مالک اللہ اور صرف اللہ ہو گا۔ نہ مزارع ہو گا نہ زمیندار۔ اگر ایسی بادشاہت چاہتے ہو تو مسلمانو اس زور سے نعرہ تکبیر لگاؤ کہ ایوان کفر کے درو بام متزلزل ہو جائیں“۔

اور واقعی حاضرین جلسہ نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ دور دور تک راہگیرچلتے چلتے تھم گئے۔ اور گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے کہ یہ شور کیسا ہے۔

اس کے بعد ایک چھوٹے سے قد کے ملا جن کی تقریر کا موضوع ”فی سبیل اللہ جہاد“ تھا بڑے جوش سے اچھل اچھل کر کہنے لگے۔

” ہم اللہ کے سپاہی ہیں۔ حکومت نے ہم کو سمجھا کیا ہے وہ ہماری طاقت سے بے خبر ہے۔ اگر ہم نہ چاہیں تونہ کہیں شادی بیاہ ہو، نہ میت کی تجہیز و تکفین عمل میں آئے۔ حکومت لاکھ اعلانات کرتی پھرے میں کہتا ہوں دور بینیں لگا لگا کر دیکھے۔ ہوائی جہازوں میں بادلوں سے اوپر پرواز کرے۔ ٹیلی فون کے ذریعے دوسرے شہروں سے شہادتیں فراہم کرائے مگر جب تک ہم اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے ہلال کونہ دیکھ لیں نہ عید کی خوشی ہو نہ محرم کا سوگ۔ حکومت اس باب میں بارہا ہم سے متصادم ہو کر ہماری طاقت کا اندازہ کر چکی ہے۔ “

جب یوں کھلم کھلا نعرہ بغاوت بلند ہونے لگے تو کون حکومت اسے ٹھنڈے پیٹوں گوارا کرے گی چنانچہ ان تمام مقررین کوجنہوں نے اس جلسے میں اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں۔ نقص امن کے خطرے کے تحت راتوں رات ان کے ٹھکانوں سے گرفتار کر لیا گیا اور ملک بھر میں دفعہ 144 (ایک سوچوالیس) نافذ کر دی گئی جس کی رو سے لاٹھیوں، تلواروں، برچھی بھالوں اور دوسرے ہتھیاروں کو لے کر چلنا، اینٹ پر پتھرتیزاب اورسوڈے کی بوتلوں کو دنگے فساد کی غرض سے جمع کرنا، پانچ سے زیادہ اشخاص کا اکٹھا ہونا ممنوع قرار دیا گیا۔

ان گرفتاریوں نے اور بھی آگ بھڑکا دی۔ حکومت کواس فعل کو مداخلت فی الدین سمجھا گیا۔ لوگ اپنے مذہب سے خواہ کتنے ہی بیگانہ کیوں نہ ہوں مگر ایک مرتبہ جب ان کو یقین دلا دیا جائے کہ یہ ان کے دین کی حرمت کا سوال ہے تو یک بارگی ان کے مذہبی احساسات بیدار ہو جاتے ہیں اور وہ ایک جنون کی سی کیفیت میں دین کی خاطر جان تک دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہی حال اس تحریک کا ہوا۔ عوام میں ہرطرف ناراضگی پھیل گئی لیکن چونکہ جلسوں جلوسوں پرپابندی عائد تھی اور وہ برملا غم و غصے کا اظہار نہ کر سکتے تھے اس لیے وہ ایک ایک دو دو کر کے مسجدوں میں پہنچنے لگے اور خود کو ملاؤں کی تحریک سے وابستہ کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ تمام مسجدیں سیاسی کارروائیوں کامرکز بن گئیں۔ دن رات رہنماؤں میں مشورے ہونے لگے نمازیوں کوکھلم کھلا سرکشی پر آمادہ کیا جانے لگا۔ جب ملاؤں کو یقین ہو گیا کہ عوام پورے طور پر ہمارے ساتھ ہیں توانہوں نے ایک خاص دن ان گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے مقرر کر دیا۔ اعلان میں کہا گیا کہ اس روز سارے ملک میں ہڑتال کی جائے گی اور حکومت کی نافذ کردہ دفعہ 144 (ایک سو چوالیس) کو توڑنے کے لیے شہر کی ہر مسجد سے نماز فجر کے بعد جتھے روانہ ہوں گے جن میں شرکا کی تعداد پانچ سے کسی صورت میں کم نہ ہو گی

یوم احتجاج کی صبح کوابھی اندھیرا ہی تھا کہ حکومت نے شہر کی تمام چھوٹی بڑی مساجد کے باہر پولیس کی بھاری جمعیتیں متعین کر دیں۔ حسب اعلان نماز فجر کے بعد نمازیوں کے جتھے مسجدوں سے نکلنے شروع ہوئے۔ ہرشخص کوپھولوں کے ہار پہنائے گئے تھے اور اس کے کپڑوں پرعرق گلاب چھڑکا گیا تھا۔ پولیس نے ان لوگوں کودھڑا دھڑ گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ صرف ایک گھنٹے کے اندر ملک کے طول و عرض میں دس ہزار سے اوپر گرفتاریاں عمل میں آ چکی تھیں۔ پھر بھی ان جتھوں کے کم ہونے کے آثار نظر نہ آتے تھے۔ لوگ تھے کہ خود کوگرفتار کرانے کے شوق میں جوق در جوق چلے آتے تھے شہر سے، قصبوں سے، دیہات سے، بعض سروں پرکفن باندھے ہوئے تھے۔ بعض درود شریف پڑھتے چلے آتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی جوالا مکھی پہاڑ پھٹ پڑا ہے جس سے انسانی لاوا بہتا چلا آ رہا ہے۔

یہ تو تھا دفعہ 144 (ایک سو چوالیس) کے توڑنے والوں کا حال۔ اب ہڑتال کرانے والوں کا ماجرا سنئے، یہ لوگ جن میں بہت سا عنصر غنڈوں اور آوارہ گرد لڑکوں کاشامل ہو گیا تھا۔ صبح ہی بازاروں اور گلی کوچوں میں چکر لگانے لگے۔ رضا کاروں نے گذشتہ رات ہی کوشہر کے باہر حصے میں لاوڈ اسپیکر کے ذریعے ہڑتال کا اعلان کر دیا تھا۔ نتیجہ ہوا کہ بہت سے دکاندار فساد کے ڈر سے گھروں ہی سے نہ نکلے اور اگر کچھ لوگوں نے پولیس کے اصرار اور حفاظت کی یقین دہانی پر دکانیں کھولیں بھی تو ہڑتالیوں کے مشتعل کردہ فوراً موقع پر پہنچ گئے اور لوٹ مار کی دھمکی دے کر دکانوں کوبند کوا دیا۔ اگرکہیں پولیس نے مزاحمت کی تو اس پر اینٹیں اورپتھر برسائے گئے۔ پولیس نے پہلے زیادہ سختی اختیار نہ کی۔ جس اس کے سمجھانے بجھانے سے ہجوم منتشر نہ ہوتا وہ وہ ہلکا سا لاٹھی چارج کر دیتی۔ لوگ ادھر ادھر بکھر جاتے لیکن تھوڑی دیر میں پھر آ موجود ہوتے۔ رفتہ رفتہ دونوں طرف تندی اور درشتی پیدا ہونے لگی، حالات نازک صورت اختیار کرنے لگے۔

یہ ہڑتالی دکانیں ہی بند نہیں کرا رہے تھے بلکہ بسوں، ٹیکسیوں اوررکشاؤں کو روک بھی رہے تھے۔ ان ہنگاموں میں دو بسوں اور آٹھ رکشاؤں کو جلا دیا گیا۔ جن بسوں کے شیشے توڑے گئے ان کا تو کچھ حساب ہی نہ تھا۔

کچھ لوگوں نے سرکار ی دفتروں اورغیر ملکی سفارتخانوں کا رخ کیا اور انہیں آگ لگانے لگے۔ حکومت کے لیے یہ بڑا نازک وقت تھا۔ جب پولیس کا لاٹھی چارج اور آنسو گیس اس سیلاب کو نہ روک سکا تو اسے گولی چلانے کا حکم دیا گیا اورجب صورت حال پولیس کے قابو سے باہر ہو گئی توفوج بلوائی گئی یہی واقعہ کئی شہروں میں پیش آیا ہر جگہ کرفیولگا دیا گیا۔ مگر فتنہ فساد اور بلوؤں کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔ شام ہوتے ہوتے تقریباً پچاس ہزار رضا کار گرفتار ہو چکے تھے اور سینکڑوں جانیں آتشیں اسلحہ کی نذر ہو گئیں تھیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments