پچاس برس پہلے ملائیت کا انجام بتانے والا فن پارہ: غلام عباس کا شاہکار افسانہ ”دھنک“


یہ افسانہ میں نے آج سے دو سال قبل لکھا تھا۔ اس وقت میں تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ اجرام فلکی کی تسخیر کے لیے انسانی مہمات اس قدر شدت اختیار کر لیں گی کہ اگلے دو ہی برس میں انسان کا چاند پر پہنچنا ممکن ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ٹیلی ویژن کی نشریات میں بھی اس قدر ترقی ہو جائے گی کہ اس کے ذریعے ساری دنیا انسان کی اس فیروز مندی کا ”تماشہ“ دیکھ سکے گی۔

میں چاہتا تو افسانے میں ترمیم و تنسیخ کر کے اسے جدید ترین حالات کے مطابق بنا سکتا تھا۔ لیکن چونکہ میں نے تسخیر قمر کو محض انسانی کی انتہائی ترقی کے Symbol (علامت) کے طور پر استعمال کیا ہے۔ حقیقت پسندانہ فقط نظر سے نہیں، اس لیے ان تبدیلیوں سے افسانے کے نفس مضمون میں کچھ فرق نہ پڑتا۔ چنانچہ میں نے اسے جوں کا توں ہی رہنے دیا ہے یعنی جیسا کہ آج سے دوسال پہلے میرے تخیل میں اس کا نقش ابھرا تھا۔

حکیم الامت علامہ اقبالؒ کی تعلیمات کے زیر اثر میں نے خود کو کبھی کسی فرقے سے وابستہ نہیں کیا بلکہ ملت اسلامیہ کا ایک فرد سمجھا ہے۔ اپنی اسی حیثیت سے میں نے ملت کے مستقبل کے بارے میں جو خدشات محسوسکیے ۔ ان کا اظہار ایک افسانے کے پیرائے میں کیا کہ یہی میرا فن ہے۔

حضرت علامہ اقبالؒ نے غیر منقسم ہندوستان میں اہل وطن کی بے حسی، نا اتفاقی اور فرقہ بندی کو دیکھتے ہوئے انہیں خبردار کیا تھا:

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو

تمہاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

میں نے بھی کچھ اسی قسم کے حالات سے متاثر ہوکر یہ افسانہ تکھا ہے۔ اس سلسلے میں مجھے اتنا اور عرض کرنا ہے کہ افسانے میں مسلمانوں کے کسی خاص فرقے یا جماعت یا کسی خاص شخصیت کو ہدف نہیں بنایا گیا اگر کہیں مماثلث نظر آئے تو اسے محض اتفاقیہ سمجھا جائے۔

یہ بیسویں صدی کے اواحر کی ایک شب کا ماجرا ہے۔ ہوٹل موہن جوڈارو کی اکہتروین منزل پر جو سب سے اونچی اور ”باغیچہ آو یزاں“ کے نام سے موسوم ہے۔ ارباب حکومت کی جانب سے ایک پرتکلف ضیافت نیم شبی دی جا رہی ہے۔ مہمانوں میں دنیا بھر کے ملکوں کے سفیر سائنس دان، مفکر اور صحافی شامل ہیں۔

ہوٹل کی چھت پرکھلے آسمان کے نیچے کم خواب کا ایک شامیانہ جس کے کنروں پر موتیوں کی خوش نما جھالر لگی ہے۔ جڑاؤ الیستادوں پرنصب کیا گیا ہے۔ شامیانے کے نیچے رنگا رنگ قالینوں کا فرش بچھا ہے۔ یہ وہی قالین ہیں جو پٹ سن کے سنہرے ریشے سے بنائے جاتے ہیں اور اپنی نفیس بنت، پائیداری اور نقش و نگار کی دل آویزی کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ ان قالینوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے سے کشادہ اور آرام دہ مخملی صوفے رکھے ہیں جن پر معزز مہمان اپنی بیگمات کے ساتھ ممتکن ہیں۔

یہ مہمان جوپانچ براعظموں کے مختلف تمدنوں کی نمائندگی کرتے ہیں اپنا اپنا پروقار قومی لباس پہنے ہوئے ہیں۔ ان کے جدا جدا ناک، ان کی مخصوص حرکات و سکنات، ان کی الگ الگ بولیاں، ہر ملک کی عورت کا جداگانہ حسن، اس کی مختلف طرز آرائش و زیبائش اس کے مخصوص کرشمہ و ادا دیکھنے والوں پر ایک محویت کا عالم طاری کر دیتے ہیں۔

ہر چندبظاہر کوئی ہنڈا، باب، گیس یا ٹیو ب لائٹ دکھائی نہیں دیتی، پھربھی سارا پنڈال بقعہ نور بنا ہوا ہے۔ جا بجا فوارے چھوٹ رہے ہیں جن کی پھواروں پر رنگ برنگی شعائیں پڑ رہی ہیں۔ ”باغیچہ آویزاں“ میں قسم قسم کے پیڑ پودے کثرت سے لگائے گئے ہیں جن کے پھولوں کی ملی جلی خوشبو دلوں میں ایک نشاط کی کیفیت پیدا کر رہی ہے۔

مہمانوں کے وسط میں ایک اونچی گول میز پر جو کار چوبی کے کم کے ایک پیش قیمت میزپوش سے مزین ہے۔ ایک بڑا سا خوبصورت ریڈو سٹ رکھا ہے۔ اس سٹ کے اندر چاروں طرف اسپیکر اس ترکیت سے لگائے گئے ہیں کہ ہر شخص کو خواہ وہ کسی سمت بیٹھا ہو آواز صاف سنائی دے سکے۔

اس وقت ریڈیو سے آرکسٹرا کی موسیقی نشر ہو رہی ہے جس کی دھن اس تقریب کے لیے خاص طور پر باندھی گئی ہے اور وہ تقریب کیا ہے؟ وہ یہ کہ آج رات پونے دو سے لے کر دو بجے کے درمیان کسی وقت پاکستان کا پہلا خلاپیما چاندپر اترجائے گا اور اس کی اس بے نظیر کامیابی کا حال اور چاند پر اس کے مشاہدات براہ راست اسی کی زبان سے نشرکیے جائیں گے۔

گو دنیا کے بعض ممالک پچھلے کئی برسوں سے چاند پر پہنچنے کی کوشش کررہے تھے۔ مگر اس امر میں اولیت حاصل کرنا پاکستان کی قسمت میں لکھا تھا۔ جب پاکستان نے تسخیرقمر کے سلسلے میں اپنے عزم کا اعلان کیا تو پہلے تو ان ملکوں کے سربراہوں کو یقین ہی نہیں آیا کہ پاکستان نے اس میدان میں اس قدر ترقی کر لی ہے۔ مگر جبان کے سفیروں نے جو پاکستان میں مقیم تھے پاکستان کے اس ارادے کی تصدیق کر دی تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور انہوں نے اپنے اپنے ہاں کے سائنس دانوں اور دانشوروں کو اس تقریب کا حال بچشم خود دیکھنے کے یے یہاں بھیج دیا۔

اس وقت رات کا ایک بج چکا ہے۔ مگر دنیا کے دور دراز حصوں سے آئے ہوئے ان مہمانوں میں سے کسی کے چہرے سے بھی تھکاوٹ یا کسل مندی کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ چاق و چوبند نظر آرہے ہیں۔

ہوٹل کے خدام زرنگار ور دیاں پہنے ہلکے پھلکے طعام اور مشروبات کے طشت اٹھائے مہمانوں کی تواضع میں مصروف ہیں۔ کچھ لوگ باہم گفتگو کر رہے ہیں۔ کچھ ریڈیو کی موسیقی سن رہے ہیں جس کا سلسلہ کبھی کبھی منقطع ہو جاتا ہے اور اناؤنسر آج رات کے پروگرام کی تفصیل یا کوئی مقرر چاند کی مہم کے سلسلے میں ابتدائی کامیابیوں کا حال سنانے لگتا ہے کچھ مہمان جب بیٹھے بیٹھے اکتا جاتے ہیں تو شامیانے سے باہر نکل کر ”باغیچہ آویزیاں“ کی پر فضا روشوں پر ٹہلنے یا گردو نواح کا منظر دیکھنے لگتے ہیں۔ یوں تو شہر میں کئی عمارتیں ہوٹل موہن جوڈارو سے بھی اونچی اونچی ہیں۔ مگر مضافات اور سمندر کا جیسا دلفریب نظارہ ”باغیچہ آویزاں“ سے دکھائی دیتا ہے اور کہیں سے دکھائی نہیں دیتا۔ خصوصاً رات کے وقت تو جہازوں اور جزیروں کے مکانوں کی روشنیاں دور سے جھلملاتی ہوئی بہت ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں۔

اس وقت فروری کا چاند اپنی پوری تابندگی کے ساتھ روئیے زمین پر خنک چاندنی بکھیر رہا ہے۔ اس کا نظارہ بجائے خود ایک عجیب جاذبیت رکھتا ہے۔ مہمانوں کی نظریں بار بار اس کیطرف اٹھ جاتی ہیں اور وہ موجودہ تقریب کی مناسبت سے اور بھی مویت کے ساتھ اسے دیکھنے لگتے ہیں۔

آخر ڈیڑھ بجے کے قریب ریڈیو پر اعلان کیا گیا کہ سب مہمان اپنی اپنی نشستوں پرآکر بیٹھ جائیں۔ اس وقت مہمانوں کے اشتیاق کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ خصوصاً بعض خواتین پر تو اضطراب کی سی حالت طاری ہے جس پرقابوپانے کے لیے انہوں نے اپنی مٹھیاں بھینچ رکھی ہیں۔ دم بھر میں سب لوگ جو ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے اپنے اپنے صوبوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ سب نے کان ریڈیو کی آواز پر لگا دیے۔ کچھ وقت اور انتظار میں گزرا۔ اس کے بعد اناؤنسر کی آواز یہ اعلان کرتے سنائی دی:

”اب ہم اپنے سننے والوں کو چاند پرلیے چاتے ہیں جہاں اس وقت اجرام فلکی پر انسانی فتوحات میں ایک نیا اور انوکھا اضافہ ہونے کو ہے۔ لیجیے ہمارے خلا پیما جو اس مہم کو سر کر رہے ہیں آپ سے مخاطب ہوتے ہیں“

اس اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو سے ایسی گھڑ گھڑاہٹ سنائی دینے لگی جیسی کسی دور دراز ملک کے اسٹیشن کو ”پکڑتے“ وقت سنائی دیا کرتی ہے۔ اس فضائی گڑبڑ کاسلسلہ چند لمحے جاری رہا۔ اس کے بعد ایک انسانی آواز اس شور میں سے ابھرنی شروع ہوئی پہلے پہل الفاظ سنائی نہ دیے مگر رفتہ رفتہ واضح ہو گئے :

” میں کیپٹن آدم خان سکنہ ضلع جھنگ عمر پینتیس ( 35 ) سال آپ سے مخاطب ہوں۔ میرا خلائی جہاز اس وقت چاند کی سطح سے صرف پانچ ہزارفٹ کی بلندی پر رہ گیا ہے۔ جہاز کی رفتار پچھتر میل فی گھنٹہ کر دی گئی ہے۔ مجھ کو چاندکی سطح بہت صاف نظرآ رہی ہے۔ یہ وہی سر زمین ہے جس سائنس دان“ طوفانوں کے سمندر ”کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ عجیب نظارہ ہے پر ہول بھی اور دلکش بھی۔ لیجیے اب بلندی صرف دوہزار فیٹ رہ گئی ہے جہاز کی رفتار چالیس میل فی گھنٹہ ہے۔ مجھے اس سفر میں بحمداللہ کسی قسم کا حادثہ پیش نہیں آیا۔ خدا نے چاہا تو میرا جہاز حسب توقع آہستگی کے ساتھ چاند پر اتر جائے گا۔ اب میں ایک ہزار فیٹ سے بھی کم بلندی پر ہوں۔ جہاز کی رفتار بتدریج کم کی جا رہی ہے۔ لیجیے اب میں صرف سات سو فیٹ چاند کی سطح سے بلند ہوں۔ پانچ سو فیٹ۔ رفتار دس میل فی گھنٹہ۔ صرف اڑھائی سو فیٹ۔ سو فیٹ۔ الحمد اللہ کہ میرا خلائی جہاز صحیح سلامت چاند کی سطح پر اترگیا ہے۔ اس وقت پاکستانی گھڑیوں کے مطابق رات کا ایک بج کر اڑتالیس منٹ او ر چار سکینڈ آئے ہیں۔ پاکستان زندہ بار“۔

جلسے کے تمام شرکا نے جو دم سادھے بیٹھے تھے اور جن کے دل کی دھڑکن پل پل میں تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی ایک ساتھ اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ ریڈیو سے خلا پیما کی آواز سنائی دینی بند ہو گئی اور اس کے بجائے قومی ترانہ بجنا شروع ہوا۔ سب لوگ تعظیماً کھڑے ہو گئے۔ جب ترانہ ختم ہوا تو جلسے کاپنڈال تایوں کے شور اور نعرہ ہائے تحسین و آفرین سے گونج اٹھا۔ غیرملکی سفیر، سائنس داں اور اہل دانش اپنی نشستوں سے اٹھ اٹھ کر ارباب حکومت کے پاس جانے ان سے مصافحہ کرنے اور انہیں مبارکباد دینے لگے۔ یہ سلسلہ کچھ دیر جاری رہا۔ اس کے بعد ریڈیو سے پہلے کی طرح گھڑگھڑاہٹ سنائی دینے لگی۔ سب مہمان جلدی سے پھراپنی اپنی جگہ آبیٹھے اب کپیٹن آدم خان کی آواز پہلے سے بھی صاف سنائی دی:

” ابھی ابھی میں نے اپنا قومی پرچم“ طوفانوں کے سمندر ”کی سر زمین پر گاڑ دیا ہے۔ چاند کی سطح جمی ہوئی بھوبل کی طرح ہے۔ کہیں سخت کہیں نرم مگر اس میں پاؤں نہیں دھنستے جا بجا دراڑیں اور گڑھے ہیں۔ کہیں کہیں یہ گڑھے بہت بڑے بڑے ہیں جسے آتش فشاں پہاڑوں کے دہانے ہوں۔ پرچم گاڑنے کے مقدس فریضے سے فارغ ہو کر میں نے سب سے پہلے اس کے سائے میں اس خدائے لم یزل کے حضور نماز شکرانہ ادا کی جس کے فضل و کرم سے آج ہمارے ملک نے اپنا صحیح مقام پا لیا ہے اور اب وہ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔ پاکستان پائندہ باد“۔

جلسے کا پنڈال ایک مرتبہ پھر نعرہ ہائے تحسین و آفرین سے گونج اٹھا۔ جب شور تھما تو خلا پیما کی آواز یہ کہتی ہوئی سنائی دی:

”آ پ کو یہ معلوم ہی ہو گا کہ چاند میں دو ہفتے کا دن ہوتا اور دوہفتے کی رات۔ یہاں اس وقت دن ہے جس کو شروع ہوئے ہمارے حساب سے تقریباً چھتیس گھنٹے گزر چکے ہیں۔ میرے پاس اتنی آکسیجن موجود ہے کہ میں یہاں چاند کا پوار ایک دن بسر کرسکوں۔ اور میرے خلائی جہاز میں اتنا ایندھن ہے کہ وہ مجھے بفضل خدا خیروعافیت کے ساتھ وطن پہنچا سکے۔

” لیجیے اب میں آپ سے یہاں کے گردو پیش کے حالات او ر مشاہدات بیان کرتا ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments