پچاس برس پہلے ملائیت کا انجام بتانے والا فن پارہ: غلام عباس کا شاہکار افسانہ ”دھنک“


” قاتل اب تک گرفتار نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ واقعہ کسی منظم سازش کا نتیج ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قتل کا منصوبہ پہلے سے بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا۔ اس واقعہ سے اس المناک حقیقت کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ حکومت پیلی پوشوں کے، جو اقلیت میں ہیں، جان و مال کی حفاظت سے قاصر ہے“۔

امیرمملکت نے جنہیں اس واقعہ کا انتہائی صدمہ پہنچا تھا۔ فوری طورپر مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کیا یہ اجلاس کئی دن تک جاری رہا۔ مگر کسی کو کوئی ایسی تدبیر نہ سوجھی جس سے پیلی پوشوں کی اشک شوئی ہو سکے۔ اور حکومت کو ان کا اعتماد پھر سے حاصل ہو سکے۔

اس اجلاس میں مجلس شوریٰ کے ایک رکن نے کہا:

” ہمارے پاس اس امر کا کیاثبوت ہے کہ اس قتل کا یا اس سے قبل کے واقعات کا مرتکب پاکستان کا کوئی باشندہ ہی ہوا ہے۔ اگر وہ پاکستان ہوتا تواب تک ضرور اس کا سراغ مل گیا ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تخریبی کارروائیاں، ملک میں پھوٹ ڈلوانے کی یہ کوششیں ضرور کسی ایسے ہمسایہ ملک کے جاسوسوں کی ہیں جو ہم سے بیر رکھتا ہے اور ہماری تباہی کے درپے ہے۔ ان دنوں جبکہ آمدورفت کے وسائل ایسے آسان ہیں نا معلوم کتنے غیر ملکی ایجنٹ پاکستانیوں کا بھیس بنائے پھر رہے ہیں“۔

کچھ دیر اجلاس پرسکوت طاری رہا۔ اس کے بعد دوسر رکن بولا ”ہاں یہ ممکن ہے۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کیا ہمارے اخبارات بھی، جوملک میں انتشار پھیلا رہے ہیں ہمارے دشمنوں کے ایجنٹ ہیں؟ “

اس پر ایک اور رکن نے کہا ”ہم نے مغربی تہذیب کی بہت سی بدعتوں کو منسوخ کر دیا۔ مگر افسوس اخباروں کی طرف کسی کا دھیان نہ گیا“۔

امیر نے، جو اپنے ہی خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے اور اس گفتگو سے بے تعلق معلوم ہوتے تھے۔ ایک آہ سرد بھری اور کہا:

” کاش قاتل پکڑا جاتا“

ملک کی فضا روز بروز بگڑتی جا رہی تھی۔ اب اکا دکھا آدمیوں پر حملے ہونا عام بات ہو گئی تھی اس پر ملک کی تمام جماعتیں اپنی اپنی حفاظت کے لیے رضا کار بھرتی کرنے لگی تھیں۔ کیونکہ عساکر حکومت پر سے ان کا اعتماد اٹھتا جا رہا تھا۔ چند ہی دنوں میں سرخ پوشوں۔ سبز پوشوں، نیلی پوشوں، سیاہ پوشوں اور سفید پوشوں نے ہزاروں کی تعداد میں رضا کار بھرتی کر لیے۔ ان رضا کاروں کے دستے اپنی اپنی جماعت کے مخصوص رنگ کی وریاں پہنے۔ سوائے بندوق کے باقی سب ہتھیاروں سے لیس، اپنا اپنا پھریرا لہراتے، بڑے بڑے بازاروں اورچوکوں میں کھلے بندوق فوجی مشقیں کرتے دکھائی دینے لگے۔ شہر کی تمام دکانیں سر شام بند ہوجاتیں۔ لوگ گھروں میں پہنچتے تو عافیت کاسانس لیتے۔ کہیں وقت بے وقت آنا جانا ہوتا تو جتھے بنا بنا کر جاتے۔

ایک دفعہ ایک بڑے با رونق بازار میں عین روز روشن ایک شخص کی نعش پائی گئی یہ شخص جو عربی لباس پہنے تھے اوندھے منہ پٹڑی پر گرا پڑا تھا۔ اس کی ناک اور منہ سے خون جاری تھا پل بھر میں سبز پوشوں، سرخ پوشوں، نیلی پوشوں، پیلی پوشوں، سیاہ پوشوں اور سفید پوشوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔ سرخ پوش کہتے تھے کہ ہمارے آدمی کو ظالم سبز پوشوں نے مار ڈالا۔ سبز پوش کہتے تھے کہ ایک غریب سبز پوش، سرخ پوشوں کے کینے کا شکار ہو گیا۔ چونکہ متوفی کسی خاص فرقے کا لباس پہنے ہوئے نہ تھا۔ اس لیے نیلی پوش، پیلی پوش، سیاہ پوش، سفید پوش بھی اس پر اپنا حق جتانے لگے تھے۔ قریب تھا کہ تنازعہ بڑھ جاتا مگراتنے ہی میں ایک بے پردہ عورت مجمع کو ہٹاتی ہوئی نعش کے قریب پہنچی۔

اور ان کو پہچان کر اس سے لپٹ گئی۔ معلوم ہوا کہ متوفی اس کا شوہر تھا۔ یہ دونوں سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ شوہر عربی لباس پہننے کا بہت شوقین تھا۔ وہ ادھیڑ عمر تھا اور کئی برس سے دل کے مرض میں مبتلا تھا۔ قیاس کہتا ہے کہ اس پر چلتے چلتے اچانک دل کا دورہ پڑا ہو گا۔ اور وہ گر کر مر گیا۔ اور یوں خدا خدا کر کے یہ ہنگامہ فرو ہوا۔

غرض صورت حال اس قدرنازک ہو گئی کہ امیر نے عساکر حکومت کے نام حکم جاری کر دیا کہ اپنے دستے شہر کے ناکوں پر معتین کردو اور دن رات بازاروں اور گلی کوچوں میں گشت کرتے رہے اور جہاں مفسدوں اور فتنہ پروازوں کودیکھو گرفتارکرلو اور اگر وہ مزاحمت کریں تو انہیں گولی مار دو اس میں کسی فرقے یا جماعت کالحاظ نہ کیا جائے۔

امیر خود بھی مجلس شوریٰ کے اراکین کے ہمراہ اکثر شہر میں گشت کرتے۔ وہ ہر فرقے کے لوگوں سے ملتے اور انہیں اتحاد، بردباری، اورصبرکی تلقین کرتے اور جو دن بھی خیروعافیت سے گزر جاتا اس کی سب کو وہ دیر تک جامع مسجد میں سربسجود رہتے اور خضوع و خشوع کے ساتھ شکرانہ خداوندی ادا کیا کرتے۔

ایک رات وہ جامع مسجد کے صحن میں کچھ زیادہ ہی دیر سجدے میں گرے رہے جب پہلے صبح کاذب اور پھرصبح صادق نمودار ہوئی تب بھی و سر بسجود ہی رہے پھرجب نمازی حسب معمول صحن مسجد میں نماز فجر کے لیے جمع ہوئے۔ اس وقت بھی انہوں نے سجدے سے سر نہ اٹھایا اس پر لوگوں کو کچھ تشویش ہوئی۔ قریب آکر دیکھا تو امیر شہید ہوئے پڑے تھے۔ زہرمیں بجھا ہوا ایک خنجر ان کے پہلو میں گھونپا ہوا تھا۔

امیر مملکت کی شہادت کی خبر آن واحد میں دارالخلافہ کے گوشے گوشے میں پھیل گئی۔ پھرکیا تھا۔ ان کے پیرو سبز پوش غیظ وغضب سے دیوانے ہو گئے وہ ”القصاص القصاص“ چلاتے ہوئے سرخ پوشوں کے محلوں کی طرف چڑھ دوڑے۔ ادھر گھروں سے سینکڑوں لوگ نیزے تلواریں اوربرچھی بھالے لے لے کے نکل پڑے۔ ہرطرف تلوار چلنے لگی۔ آو و بکا، فریاد و فغاں کی صدئیں اٹھنے لگیں۔ زمین بے گناہوں کے خون سے رنگین ہونے لگی۔ ”ماروان ناپاک سبزوں کو“ ”لینا ان پلید سرخوں کو“ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ رنگوں کی کوئی قید نہ رہی اور نیلے پیلے سیاہ و سفید بھی مار دھاڑ میں شامل ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے مسجدوں پر یورش کی۔ منبروں کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ مسجدوں کی دیواروں پربزرگان دین کے ناموں کوجو کتبے لگے تھے انہیں نوچ کھسوٹ کر اتار ڈالا۔ بعض شقی گھروں میں گھس گئے اور عورتوں کی بے حرمتی کرنے لگے۔ عورتیں روتی پیٹتی اور بچے بلکتے تھے۔ مگر کوئی ان کی فریاد سننے والا نہ تھا گھنٹے بھر کے اندر تمام بازار اورگلی کوچے لاشوں سے پٹ گئے۔

ادھر حکومت کے لشکری الگ بندوقیں چلا چلا کر بلوائیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے۔ سڑکوں پر ہزاروں لاشیں بے گورو کفن پڑ نظر آنے لگیں۔

ابھی یہ ہنگامہ کشت و خون برپا ہی تھا کہ دفعتاً فضا میں ایسی آوازیں گونجنے لگیں جیسی بمبارطیاروں کے اڑنے اور ٹینکوں کے چلنے سے پیدا ہوتی ہیں۔

ایک صحرائے لق ودق ہے جس پر چودھویں کا پورا اور گول چاند اپنی پوری تابندگی کے ساتھ چاندنی بکھیر رہا ہے جس طرف نگاہ اٹھتی ہے ریت ہی ریت دکھائی دیتی ہے۔ جس کے ذریعے چاندکی طرح چمک رہی ہیں۔ ریت میں کہیں نشیب و فراز، کہیں ریت کے اونچے اونچے ٹیلے جن پر آہو خرام بے پروا میں مصروف ہیں جب کبھی کوئی قافلہ ادھر سے گزرتا ہے تویہ آہو چوکڑیاں بھرتے ہوئے کوسوں دور نکل جاتے ہیں۔

دور دور تک آبادی کانشان نہیں۔ البتہ کہیں کہیں ایسے کھنڈر ضرور پائے جاتے ہیں جن کودیکھنے سے گماں ہوتا ہے کہ یہاں کبھی کوئی متمدن شہر آباد ہو گا۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے جو عجیب اداسی کی کیفیت لیے ہوئے ہے۔

اچانک افق پر کچھ دھبے سے نمودار ہوے جب کوئی قافلہ آتا ہے تو پہلے یوں ہی دھبے سے دکھائی دیتے ہیں جو رفتہ رفتہ پھیلتے جاتے ہیں اور ایسا نظر آنے لگتا ہے جیسے کوئی لمبا سانق بل کھاتا ہوا آ رہا ہو۔ رفتہ رفتہ اونٹوں کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹیوں کی آواز حدی خواں کے لحن کے ساتھ مل کر دھیمی دھیمی سنائی دینے لگتی ہے جوں جوں قافلہ قریب آتا جاتا ہے۔ آوازیں بلند ہوتی جاتی ہیں۔ یہاں تک کے قافلے کے محافظ لشکریوں کے نیزے چاندنی میں چمکتے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں۔

لیکن یہ دھبے جو افق پرنظر آئے۔ یہ تو پھیلے اور نہ انہوں نے سانپ کی شکل ہی اختیار کی۔ البتہ وہبڑے بڑے ضرور ہوتے گئے۔

نہیں، یہ قافلہ تو نہیں بلکہ چند مسافر ہیں۔ جب یہ قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ چار اونٹ چلے آ رہے ہیں جن پر دو مرد اور دو عورتیں سوار ہیں۔ ان چاروں نے مغربی لباس پہن رکھا ہے۔ اگلے اونٹ کی مہار ایک شخص نے پکڑ رکھی ہے جو عربوں کا سا دگلا لباس پہنے اونٹ کے قدم بہ قدم چل رہا ہے۔

معلوم ہوتا کہ یہ کوئی انگریز یا امریکن سیاح ہیں جو بندرگاہ کے ہوٹل سے گائیڈ کے ہمراہ چاندنی میں گردو نواح کی سیر کو نکلے ہیں۔ مرد ادھیڑ عمر ہیں اور عورتیں بھی جوانی کی منزل سے گزر چکی ہیں مگر چاروں چاق و چوبند اور شاداں و فرحاں نظرآتے ہیں۔ ان کے قہقہے اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز میں گڈ مڈ کر اس منظر کی اداسی پرایک تضحیک کی سی کیفیت پیدا کر رہے ہیں۔

ایک عورت نے اپنی اونچی اور خراش دار آواز میں اپنے ساتھ والے مرد سے کہا۔

” ڈک۔ دیکھو یہاں کا منظر کتنا دل فریب ہے۔ ذرا گائیڈ سے پوچھو ابھی کتنا اور آگے جانا ہے“۔

مگر یہ پوچھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ کیونکہ گائیڈ چلتے چلتے خود ہی ٹھہرگیا۔ ساتھ ہی گھنٹیوں کی آواز بھی تھم گئی۔ چاروں سیاح گردنیں گھما گھما کر گردو پیش کا منظر دیکھنے لگے۔ گائیڈ نے کھنکار کر انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ پھر وہ ریت پر ایک خاص جگہ جہاں کچھ کھنڈرپتھروں کی صورت میں پڑے تھے اشارہ کر کے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا۔

” صاحب۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں غنیم کے حملے سے پہلے ہوٹل موہن جوڈارو ہوا کرتا تھا جس کی اکہتر منزلیں تھیں اور جہاں پہلی مرتبہ پاکستانی خلا پیما نے چاند سے ریڈیوپر پیغام بھیجا تھا۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments