پچاس برس پہلے ملائیت کا انجام بتانے والا فن پارہ: غلام عباس کا شاہکار افسانہ ”دھنک“


ادب اور شعروشاعری پر بھی کڑی پابندی عائد کر دی گئیں اور عاشقانہ غزلوں اور نظموں اور گیتوں کو تو ادب سے خارج ہی کردیا گیا کیونکہ ان سے ملک کی بہو بیٹیوں کے خیالات پربرا اثر پڑنے کا احتمال تھا۔ البتہ حمدونعت، رجز، مرثیہ و سلام اور قومی لوریوں کو شاعری میں افضل ترین درجہ دیا گیا۔ ناول، افسانے اور ڈرامے چونکہ من گھڑت قصے ہوتے ہیں۔ اور دروغ گوئی کوتقویب دیتے ہیں اس لیے معاشرے میں ان کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ اخباروں میں ہر قسم کی تصاویر یہاں تک کہ کارٹون تک چھاپنے بند کر دیے گئے۔ مصوری، سنگتراشی، موسیقی وغیرہ کوفنون لہو ولعب قرار دے کر ان کی بھی کلی طور پر ممانعت کر دی گئی۔

کسب معاش میں ایسے تمام وسیلے حرام قرار پائے جن سے لوگ معاشرے کواخلاقی یا مادی نقصان پہنچا کر روزی پیدا کرتے ہیں۔ چنانچہ شراب اور دوسری نشہ آور اشیا کا بنانا اور بیچنا، عصمت فروشی اور رقص و سرور کا پیشہ، نیز جوا، گھوڑ دوڑ، سٹہ بازی، لاٹری معمہ بازی بند کر دی گئی چونکہ سود خواہ کسی بھی شکل میں ہو، حرام ہے اس لیے ملک بھر میں بنک، انشورنس، انعامی بانڈ وغیرہ کے کاروبار قطعاً ممنوع قرار پائے۔ بینکوں کی تنسیخ کے بعد دوسرے ممالک سے زر مبادلہ کے لین دین کے سلسلے خود بخود منقطع ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی منڈیوں میں اجناس کی خریدو فروخت معدوم ہوگئی۔

ڈاکٹر اور سرجن کے پیشے بھی ختم کر دیے گئے کیونکہ ان کی دواؤں میں شراب کی آمیزش ہوتی ہے اس کے بجائے طب یونانی اور جراحی کوحکومت کی سرپرستی میں لینے اور نصاب تعلیم میں شامل کرنے کافیصلہ کیا گیا۔ نرس کا پیشہ موقوف کر دیا گیا۔

ان سب پیشوں کے ختم کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں لاکھوں اشخاص بے روز گار ہو گئے۔ مجلس شوریٰ نے سفارش کی کہ انہیں زمینیں دے دی جائیں تا کہ وہ کھیتی باڑی کر کے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں مگر مشکل یہ آن پڑی کہ اچھی اچھی اور قابل کاشت زمینیں پہلے ہی سے اورلوگوں کے قبضے میں تھیں جو باقی بچسیں تھی وہ یا تو بنجر تھیں یا ان کی مٹی میں سیم اور تھور کی بہتات تھی۔ چنانچہ انہیں کھیتی باڑی کے قابل بنانے کے لیے ان لوگوں کو بڑے جتن کرنے پڑے اور دور دوردریاؤں سے نہریں کھود کھود کر پانی لانا پڑا۔

ہر شخص کو حکم تھا کہ سیدھا سادھا لباس پہنے اور رہنے سہنے میں سادگی اختیار کرے۔ داڑھی رکھے اور لبیں کتروائے۔ کسی قسم کی شان و شوکت کا اظہار نہ کرے۔ نہ فضول خرچی اور اسراف میں پیشہ ضائع کرے۔ آرام طلبی اور تن آسانی کوترک کرے۔ چنانچہپیش بندی کے طور پر شہر کی دکانوں سے تعیش کی سازی چیزیں مثلاً ریفریجریٹر، ائیرکنڈیشنز، واشنگ مشین، بجلی کے پنکھے، چولہے، استریاں، چینی کے ظروف اورکراکری کا سامان اٹھوا دیا گیا۔ یہاں تک کہ ٹوتھ پیسٹ اور دانتوں کے برش تک کو معاشرے سے خارج کر دیا گیا۔ اس کے بجائے مسواک کے استعمال پر زور دیا گیا کہ اس سے بقول ملا فصاحت بڑھتی ہے۔

علاوہازیں عہد حاضرکی تمام اختراعات و ایجادات مثلاً ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، ٹیپ ریکارڈر، ریکارڈ چینجز، کیمرے وغیرہ کی فروخت پرپابندی لگا دی گئی۔ بجلی کی روشنی کا بے جا استعمال جرم ٹھہرا۔ کوکا کولا، پاکولا اور تمام انگریزی طرز کے مشروبات ممنوع قرار دیے گئے۔

شہر میں جتنی اونچی اونچی عمارتیں تھیں ان کی صرف اتنی ہی منزلوں کوجائزہ سمجھا گیا جو جامع مسجد کے گنبد و مینار سے نیچی تھیں۔ باقی منزلوں کو منہدم کرا دیا گیا۔ چونکہ دوسرے ممالک اور خصوصاً مغربی ممالک کے سفیروں کے قیام سے ان کے آداب معاشرے کے برے اثرات اہل ملک کے ذہنوں پر پڑنے کا اہتمام تھا اس لیے ان سے کہا گیا کہ آپ یہاں ٹھہرنے کی تکلیف نہ فرمائیں اور اسی وقت تشریف لائیں جب کسی اہم ملکی یا بین الاقوامی نزاع کے سلسلے میں بالمشافہ گفت و شنید کی ضرورت ہے۔

مجلس شوریٰ نے مسلمانوں کو ایک مہینے کی مہلت دی کہ وہ اس عرصے میں اپنا شعار اسلامی بنا لیں اور متشرع نظر آئیں اس کے بعد جو شخص غیر اسلامی شعار کا نظر آئے گا اسے دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے گا۔ وہ چاہے تو کوئی غیر اسلامی مذہب اختیار کر سکتا ہے لیکن وہ مسلم کہلانے پر اصرار کرے تو اسے مرتد تصور کر کے سنسار کر دیا جائے گا۔

پہلے پہل لوگ اپنا ہی ملکی لباس یعنی کرتا پاجامہ شیروانی ٹوپی یا پگڑی باندھتے رہے۔ عربی لباس صرف کبھی کبھار پٹڑی پر کھڑے ہو کر طاقت کی دوائیں بیچنے والے نیم حکیموں کے تن پرنظر آتا تھا۔ مگر ایک دن ایک درزی کو جو سوجھی اس نے ایک لمبا دکلا کر کرتا زیب برکیا، اوپر ڈھیلی ڈھالی سیاہ عبا پہن، سر پر ایک بڑا سا سفید رومال رکھ، پیشانی پر سنہرے ریشم کی رسی کے ددو تین پیچ دے، بازار میں چل کھڑا ہوا۔

یہ شخص خاصا شکیل اور بلند قامت تھا۔ یہ لباس اس کے جسم پر خوب پھبا۔ چنانچہ کچھ لوگ اس کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔ وہ کوئی تین چار گھٹنے شہر کے مختلف بازاروں اور چوکوں میں خوب گھوما پھرا۔ اس کے بعد اپنی دکان پر آ ’لباس اتارا‘ باہر ایک کھونٹی پر لٹکا، نیچے یہ عبارت لکھ دی کہ یہ عربی لباس یہاں سے صرف پینتس روپے میں دستیاب ہو سکتا ہے پھر کیا تھا لوگ دھڑا دھڑ آرڈر دینے لگے۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی عربی لباس کی مقبولیت ایک دم بڑھ گئی۔

ملاؤں کی حکومت کا پہلا سال ہر پاکستان کے لیے بے حد صبر آزما ثابت ہوا۔ خود حکومت کو سخت اقتصادی مشکلات کا سانا کرنا پڑا۔ مگر عوام نے اس کا پورا پورا ساتھ دیا۔ ملاؤں نے خدا اور رسول کے نام پر اہل وطن سے جو بڑی سے بڑی قربانی طلب کی انہوں نے اس سے دریغ نہیں کیا مصائب اٹھائے مگر اف نہ کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ صوم و صلوة کے بھی ایسے پابند ہو گئے کہ ان پر کسی محتسب کے مقرر کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ جدھر دیکھو چھوٹے چھوٹے لڑکے سیاہ عبائیں پہنے چھوٹی چھوٹی تلواریں کمر سے لٹکائے ٹولیاں بنا بنا کے ”خنجر ہلال کا ہے قومی نشان ہمارا“ گاتے ہوئے نظرآنے لگے۔

نماز کے اوقات میں مسجدیں نمازیں سے اس قدر پر ہو جاتیں کہ تل دھرنے کو جگہ نہ رہتی۔ جمعہ کے روز ہر طرف ایسی چہل پہل دیکھنے میں آتی جیسے کسی تلوار پر نظر آتی ہے۔

لوگ اپنے عزیزیوں اور دوستوں سے تو اپنی مادری زبان میں ہی بات چیت کیا کرتے البتہ غیروں اور اجنبیوں سے ٹوٹی پھوٹی عربی میں ہم کلام ہوتے۔ ادھر عربی لباس تیزی سے رواج پا ہی رہا تھا بس ایسا معلوم ہونے لگا جیسے ملک کو عربستان ثانی بنانے کی ریہرسل کی جا رہی ہو۔

٭٭٭ ٭٭٭

جہاں تک تہذیب مغربی کی تقلید، زنا کاری، شراب خواری، قمار بازی، سود اور عورتوں کی بے پردگی کا تعلق تھا ملاؤں کی حکومت کو ان کی تنسیخ یا ترمیم و اصلاح کے قوانین نافذ کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ کیونکہ ملاؤں کی سبھی جماعتیں، سبز پوش، نیلی پوش، پیلی پوش، سیاہ پوش اور سفید پوش ان کی بیخ کنی پرمتفق تھیں بلکہ ایسے معاملات میں ان کے پیشواؤں میں اس قدر ہم آہنگی پائی جاتی کہ وہ لوگ جو ملاؤں کے مختلف فرقوں میں پھوٹ پڑ جانے کا خدشہ محسوس کیا کرتے تھے۔ اطمینان کا سانس لینے لگے کہ بحمد اللہ ہمارے اندیشے باطل ثبات ہوئے۔

لیکن رفتہ رفتہ جب اسلام کے بنیادی اصول و عقائد ایمان وتقوی کا سوال پیدا ہونا شروع ہوا۔ تو ان فرقوں میں انتشار و کشیدگی کی فضا پیدا ہونے لگی۔ یوں تویہ سبھی فرقے اللہ کو ایک، رسول کو برحق اور قرآن کو کلام اللہ سمجھتے تھے۔ لیکن ان کی جماعتی معتقدات و نظریات ایک دوسرے سے یکسر جداگانہ تھے۔ جیسے مختلف رنگوں والے شیشوں کی عینکوں سے منظر کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے۔ سبز پوش جن باتوں کو حلال سمجھتے تھے۔ سرخ پوش انہیں حرام، نیلی پوشوں کاجس فقہ پر ایمان تھا۔ پیلی پوشوں کی نظر میں وہ کفر کے مترادف تھا۔ ہر چند امیر مملکت نے ہر جماعت کو اپنے اپنے اصول وعقائد پر قائم رہنے کی آزادی دے رکھی تھی ان کی الگ الگ مسجدیں تھیں۔ الگ الگ طریق عبادت، الگ الگ مدرسے، اور ایک فرقہ دوسرے پر اپنے عقائد مسلط کرنے کا مجاز نہ تھا۔ پھر بھی جب کبھی مختلف فرقوں کے لوگ کسی اجتماعی تقریب یا قومی جلسے میں یک جا ہوتے اور تاریخ یا فقہ کا کوئی مسئلہ زیر بحث آتا گفتگو میں تلخی پیدا ہو جاتی۔

جس وقت حکومت نے ایک ادارہ تصنیف و تالیف قائم کیا جس کا مقصد ایک مفصل تاریخ اسلام لکھنا اور رسول اکرم خلفائے راشدین اور دیگر اکابر اسلام کے سوانح حیات مرتب کرنا تھا تو فرقہ وارانہ جذبات اچانک منظر عام پر آ گئے اس کی ابتدا اخبارات سے ہوئی۔ ایک فرقے کے اخبار نے اپنے مقالہ افتتاحیہ میں اس مسئلے پر یوں روشنی ڈالی۔ ”یہ کتب اگر کسی نجی ادارے کی جانب سے شائع کی جائیں تو انہیں اس پر چنداں اعتراض نہ ہو۔ قابل اعتراق امر تویہ ہے کہ ان پر حکومت کی مہر ہو گی اور اس طرح یہ پوری قوم کے خیالات کا نمائندہ تصور کی جائیں گی۔ اگر حکومت کو یہ کتب شائع کرنا ہی ہیں تو اس کافرض ہے کہ وہ ہرفرقے کے نقطہ نظر سے ان کے الگ الگ سلسلے شروع کرے“۔

اس پر اخبارات میں ایک طویل بحث چھڑ گئی۔ بعض اس کے حق میں تھے۔ بعض اسے اسراف بے جا تصور کرتے تھے اور بعض کا کچھ اور نقطہ نظریہ تھا۔ یہمسئلہ کئی روز تک مجلس شوری کے بھی زیر غور رہا اور جب اس کا کوءیمناسب حل نہ مل سکا تو امیر نے فی الحال تصنیف و تالیف کا کام ہی رکوا دیا۔ مگر اب ملک کی فضا مکدر ہونی شروع ہو چکی تھی۔

بد قسمتی سے ان ہی دنوں ایک ایسا واقعہ پیش آیا۔ جس نے مختلف فرقوں کے جذبات کومشتعل کر دیا۔ ہوا یہ کہ ایک دن جب سرخ پوش اپنے علاقوں کی مسجدوں میں نماز فجر پڑھنے گئے تو بعض مسجدوں کی دیواروں پرجعلی حروف میں ایسے کلمات لکھے ہوئے پائے گئے۔ جن سے اس جماعت کے بعض اکابرین کی بے حرمتی ہوتی تھی اس سے سرخ پوشوں کے غصے اور رنج کی حد نہ رہی۔ ان کا ایک وفد امیر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امیر نے اس کی شکایت بڑی ہمدردی سے سنی۔ پھر مجلس شوریٰ سے کہا کہ اس معاملے کی پوری پوری تفتیش کی جائے اور مجرموں کو گرفتار کرکے قرار واقع سزا دی جائے۔

جب دو دن تک مجرم گرفتار نہ کیے جا سکے تو تیسرے روز اسی قسم کا واقعہ سبز پوشوں کی مسجدوں میں پیش آیا۔ سبز پوشوں کو اس امر میں ذرا شک نہ تھا کہ یہ کارروائی سرخ پوشوں نے انتقامی طور پر کی ہے۔ گو سرخ پوش بڑی شدو مد سے اپنی بریت ظاہر کر رہے تھے۔

اسی روز سبز پوش نوجوانوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار کے لیے نماز ظہر کے بعد ایک جلوس نکالنا ضروری سمجھا۔ جب تک یہ جلوس ان کے اپنے محلوں میں گھومتا رہا اس سے کسی نے تعرض نہ کیا۔ یہاں تک کہ نیلی پوشوں، پیلی پوشوں، سیاہ پوشوں اورسفید پوشوں کے محلوں میں بھی خیریت ہی گزری۔ مگرجیسے ہی یہ جلوس سرخ پوشوں کے علاقے میں پہنچا تو ایک تو وہ بے حد لمبا ہو گیا۔ دوسرے اس کے نعروں میں زیادہ تندی و تلخی پیدا ہو گئی ایک آدھ جگہ اینٹ پتھرپھینکے جانے کی خبر بھی آئی۔ مگرشکر ہے کہ بے بنیاد ثابت ہو گئی تا ہم دونوں فرقوں کے جذبات سخت مشتعل ہو گئے تھے۔ دونوں طرف کے نوجوان بات بات پر تلواریں سولت لیتے تھے۔ اس پر حکومت کے لشکریوں کے لیے بیچ بچاؤکرنا ضروری ہوگیا۔ اس سعی میں تین چار لشکری زخمی تو ہوئے مگر حالات پر قابو پا لیا گیا۔

اگلے روز دونوں فرقوں کے اخباروں نے اس واقعہ پر خوب خوب حاشیے چڑھائے اور ایک دوسرے پرکھلم کھلا چوٹیں کیں۔

امن چین کے چند ہی روز گزرنے پائے تھے کہ ایک اور واقعہ پیش آیا جو پہلے سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔ ہوا یہ کہ ایک رات نماز مغرب کے بعد کوئی شخص سیاہ پوشوں کی ایک مسجد میں چپکے سے ایک بم رکھ کر چلا گیا۔ جب یہ بم پھٹا تو خوش قسمتی سے اس وقت مسجد میں کوئی نمازی موجود نہ تھا بس مسجد کا ایک طاق ہی شہید ہوا۔

اس واقعے سے لوگوں کی توجہ سرخ پوشوں اورسبز پوشوں کے قضئے سے ہٹ کرسیاہ پوشوں کی طرف منعطف ہو گئی۔ سیاہ پوشوں کے اخباروں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ کئی روز تک اپنی مسجد کے طاق کی شہادت کا سوگ منا کیے۔ یہاں تک کہ ایک اور سانحہ اہل ملک کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اب کے یہ ہوا کہ پیلی پوشوں کے ایک مجتمد نماز عشاءسے فارغ ہو کرمسجد سے گھر کی طرف جا رہے تھے کہ کسی نے ایک تاریک گلی سے نکل کر ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا اور خود فرار ہو گیا۔ مجتہد کی چیخ سن کر بہت سے پیلی پوش جمع ہوگئے۔ کچھ قاتل کی تلاش میں دوڑے مگر اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ مجتہد کواٹھا کرمسجد میں لے گئے۔ مگر ان کی حالت نازک تھی۔ زخم کاری لگا تھا۔ چنانچہ جب فجر کی اذان ہو رہی تھی تو وہ دم توڑ چکے تھے۔ پیلی پوشوں کے غیظ و غضب کا کچھ ٹھکانہ نہ رہا۔ ایک پیلی پوش اخبار نے سیاہ حاشیوں کے ساتھ اپنے مجتہد کی شہادت پر بڑا زور دار اور درد ناک مقالہ لکھا۔ اس کا مقطع کا بند یہ تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments