پچاس برس پہلے ملائیت کا انجام بتانے والا فن پارہ: غلام عباس کا شاہکار افسانہ ”دھنک“


ملاؤں نے روئے زمین پر خدا کی بادشاہت کا جوتصور پیش کیا تھا وہ اب حقیقت بن چکا ہے۔

پچھلی حکومت کے مستعفی ہونے کے بعدسب سے پہلے بالغ رائے دہندگان کے دونوں سے ایک امیر چنا گیا اور اسے دنیا پر خدا کے نائب کی حیثیت دی گئی۔ انتخاب کا مسئلہ بڑا ہنگامہ خیز ثابت ہوا تھا اور سارا ملک جیسے ایک بحران کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ مگر شکر ہے کہ بالآخر یہ مصیبت ٹل گئی۔ ہوا یہ کہ جب تک ملا صاحبان حکومت سے برسر پیکار رہے۔ ان میں اتحاد رہا ایک یک جہتی بھی۔ مگر جیسے ہی عام انتخاب منعقد کرانے کا اعلان ہوا ہر شخص حصول اقتدار کے لیے مضطرب ہوگیا۔

ملک بھر میں بہت سی جماعتیں الیکشن لڑنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ہر جماعت نے اپنا لائحہ عمل، اپنے اپنے قواعد و ضوابط اوراپنی اپنی مخصوص وردی وضع کر لی اور پھرجتھے بنا بنا کر اپنے اپنے امیر کے گن گاتی گلی گلی کوچے کوچے پھرنے لگی۔ جلسے، جلوس، پوسٹر بازی غرض وہ وہ ہنگامے ہوئے کہ باید و شاید، الیکشن میں جن جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں سبز پوش، سرخ پوش، نیلی پوش، پیلی پوش، سیاہ پوش اور سفید پوش خاص طور پر قابل ذکر تھیں۔ موخر الذکر جماعت زیادہ تر دیہاتیوں پر مشتمل تھی۔

اس الیکشن میں جوخوش نصیب ملا برسر اقتدار آیا وہ سبز پوشوں کی جماعت کا امیر تھا۔ زبان و قلم کا دھنی، آتش بیاں، زور رقم، اس نے اپنے خطبوں اور پمفلٹوں سے ملک میں ہلچل سی مچاد دی اور اپنی آواز کو ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا۔ غرض اس زور شور سے پروپیگنڈا کیا کہ انتخاب میں سب سے زیادہ ووٹ اسی کو ملے اور سرخ پوش، نیلی پوش، پیلی پوش، سیاہ پوش اور سفید پوش امیدوارمنہ دیکھتے ہی رہ گئے۔

سبز پوشوں کے امیر نے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سوچا کہ ان مخالف جماعتوں کے نمائندوں کو مجلس شوریٰ میں شامل کر لینا بہترہو گا۔ اس طرح ایک تو ان کی اشک شوئی ہو جائے گی۔ دوسرے وہ ملک میں فتنہ و فساد پھیلانے سے باز رہیں گے۔

امیر نے کہا ”الگ الگ رہنا بجائے خود کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتے لیکن جب یہی رنگ یک جا ہو جاتے ہیں تودیکھو کیسی خوبصورت دھنک بن جاتی ہے“۔

یہ مصالحت بڑی کار آمد ثابت ہوئی۔ چنانچہ مجلس شوریٰ جس کا کام امور سلطنت میں امیرکو مشاورت دینا تھا پوری قوم کی نمائندہ بن کر اپنا کام بڑی دل جمعی کے ساتھ انجام دینے لگی۔ امیر نے مجلس شوریٰ کے اجلاس اور دیگر انتظامی امور سر انجام دینے کے لیے شہر کی جامع مسجد کو پسند کیا اور اسی کے ایک حجرے میں بود و باش اختیار کی۔ چنانچہ دن رات جامع مسجد میں مجلس شوریٰ کے جلسے ہونے لگے اور حکومت کا اصلاحی اور تعمیری کام بڑی سرگرمی سے شروع ہو گیا۔

مجلس شوریٰ نھے سب سے پہلے اپنی توجہ اس امر پر مرکوز کی کہ پچھلی حکومت کے زیر اثر معاشرے کے رگ و پے میں مغربی تہذیب و تمدن کو جو زہر سرایت کر گیا ہے اس کو زائل کیا جائے۔ چنانچہ تمام انگریزی طور طریقے، لباس، آداب معاشرت یک قلم موقوف کر دیے گئے۔ بلکہ اس اقدام کی تحصیل ہی کو نصاب تعلیم سے خارج کر دیا گیا۔

ملک کی زمام کار امیر نے خود اپنے ہی ہاتھ میں لی اور پچھلی حکومت کے انتظامی امور کے طریقے، سیکرٹریٹ اور اس کے ماتحت جملہ شعبے منسوخ کر دیے گئے اور ان کی پچھلی فائیلوں اور تمام ریکارڈز کو نذر آتش کر دیا گیا۔ البتہ پولیس اور چنگی کے محکمے بحال رکھے گئے۔

تمام اسکول کالج اور یونیورسٹیاں اور مروجہ طریق تعلیم منسوخ کر دیا گیا۔ اور اس کے بجائے دینی مدرسے قائم کیے گئے۔ جو عموماً مسجدوں سے ملحق ہوتے تھے ان مدرسوں میں فقہ، حدیث، تفسیر و غیرہ علوم شرعیہ اور فن قرا ¿ت کی تعلیم دی جانے لگی۔ ملک کا رسم الخط عربی قرار پایا اور ایک ایسا منصوبہ بروئے کار لایا جانے لگا کہ ایک معینہ مدت کے اندر سارے ملک کی زبان عربی ہو جائے۔

فن خوش نویسی کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دی گئی۔ نسخ، خط کوفی اور طغریٰ کی تعلیم کے ماہر خوش نویسوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ علاوہ ازیں ایک بڑا مدرسہ فن حرب اور سپہ گری کی تعلیم کے لیے بھی کھولا گیا۔ جس میں تلوار، نیزے، گرزِ برچھی بھالے کے استعمال کے گر سکھلائے جانے لگے۔

عورتوں کی وہ تمام آزادیاں اور بے پردگیاں جن کی پچھلی حکومت نے کھلے بندوں اجازت دے رکھی تھی کلیتاً ختم کر دی گئیں۔ علاوہ ازیں انہیں بے حجابانہ گھر سے باہر نکلنے کی بھی ممانعت کر دی گئی۔ پھر چونکہ بقول ملا نہ تو عورتوں کو مملکت کے انتظامی مناصب دیے جا سکتے تھے اور نہ وہ عہدوں ہی پر فائز ہو سکتی تھیں اس لیے ان کے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہی نہ سمجھی گئی۔ ان کے لیے تو بس اتنا ہی کافی سمجھا گیا کہ وہ عام اصولوں دین اور امور خانہ داری جان لیں یا زیادہ سے زیادہ دھوبی کے کپڑوں کا حساب رکھ سکیں۔

مجلس شوریٰ نے دوسرا اصلاحی قدم عدالتوں کے باب میں اٹھایا۔ وکالت کے پیشے کو ختم ہی کر دیا گیا کیونکہ وکلا جان بوجھ کا حقائق کو چھپاتے اور اپنے پرفریب دلائل سے منصف کو گمراہ کرتے ہیں اور یہ اسلامی روایات کے سراسر منافی ہے۔ کورٹ فیس کی رقم نہ ہونے کے باعث داد رسی ہی سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جج اور مجسٹریٹ کے عہدے کی منسوخی کر دیے گئے اوران کے بجائے ہر شہر میں مفتی اور قاضی مقرر کیے گئے اوراس طرح عدالتی نظام کے لیے کسی لمبے چوڑے عملے کی ضرورت ہی نہ رہی۔

اس طرح عدالتی ملکیت کے بارے میں یہ فیصلہکیا گیا کہ جن زمینوں پرلوگوں کا پہلے سے قبضہ ہو، ان پر ان کی مالکانہ حیثیت برقرار رکھی جائے۔ البتہ لگان کی شرح مربعوں کے حساب اور اجناس کے لحاظ سے مقرر کی جائے اگر کسی شخص کے پاس زمین ہو اور وہ اس پر تین سال تک کھیتی باڑی نہ کر سکے یا اسے تعمیر یا کسی اورکام میں نہ لا سکے تو وہ زمین متروکہ سمجھی جائے گی اوراسے دوسرا شخص کام میں لے آئے تواس پر عرضی دعویٰ نہ ہو سکے گا۔

ملک میں جہاں جہاں افتادہ زمینیں تھیں ان کے متعلق اعلان کیا گیا کہ جوشخص ان کوآباد کرے اسی کی ملکیت ہو جائیں گی۔ فصل کی پیداوار میں زمیندار اور کاشت کار لگان کی رقم منہا کرنے کے بعد برابر کے حصہ دار قرار دیے گئے۔

مجلس شوریٰ نے نماز، روزہ، زکوة، قربانی اور بشرط استطاعت حج بیت اللہ کو ہر مسلمان پر فرض قرار دیا اور جوان احکام شرعی کو انجام نہ دے اس کے لیے دروں کی سزا مقرر کی گئی۔ جائیدار پر، جس میں اراضی، نقدی، زیور، گائیں بھینسیں، اونٹ، گھوڑے، بھیڑ بکری شامل تھی۔ زکوة کی شرح مالیت کا چالیسیواں حصہ بعنی اڑھائی فیصد سالانہ ٹھہری۔

مسلمان دولت جمع کر سکتے ہیں اور اسے کاروبار میں بھی لگا سکتے ہیں۔ مگر یہ دولت ان کے مرتے ہی ان کے عزیز و اقارب میں تقسیم کر دی جائے گی اور اگر وارث نہ ہو تو ساری رقم بیت المال میں جمع کر دی جائے گی۔ غیرمسلم رعایا کو ذمی قرار دیا گیا۔ ان کو زکوة سے مستشنیٰ قرار دیا گیا مگر ان پرجزیہ لگایا گیا جو تقریباً ساڑھے تیرہ روپے سالانہ فی کس تھا۔ البتہ جو ذمی عسا کر اسلام میں بھرتی ہونا پسند کریں۔ ان پر سے یہ جزیہ کی قید اٹھا لی جائے گی بعض غیر مسلم اقوام نے جزیہ کے خلاف آواز اٹھائی مگر ان میں جو اہل دانش تھے انہوں نے اپنے ہم مذہبوں کو سمجھا یا کہ اس طرح ہمارے امرا اور اہل ثروت کو زکوة سے چھٹکارا مل جائے گا جو جزیہ سے کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے اور انہوں نے جزیہ منظورکر لیا۔

جرائم میں چور کے لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا، غیر شادی شدہ زانی اورزانیہ کے لیے سو سو درے اور شادی شدہ کے لیے سنگساری کی سزا مقرر کر دی گئی۔

شہروں اور قصبوں میں جہاں جہاں تھیٹر اور سینما تھے سب کے سب دینی درسگاہوں یا یتیم خانوں میں تبدیل کر دیے گئے ہوٹلوں اور کلب گھروں کی جگہ سراہیں بنا دی گئیں۔ وہ تما م کھیل جن سے مغربیت جھلکتی تھی مثلاً کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، ٹینس، گولف، بیڈ منٹن وغیرہ بند کر دیے گئے اور ان کے بجائے شہسواری، نیزہ بازی، چوگان بازی، تیز اندازی کو از سرنوزندہ کیا گیا۔ نیز پہلوانی اور کرز زنی کے فن کو بھی فروغ دیا جانے لگا۔

اسلحہ سازی کے کارخانے سارے ملک میں وسیع پیمانے پر کھل گئے لوہا اورفولاد ڈھال، تلوار، گرز اور برچھی بھالے کی صورت میں ڈھلنے لگا۔ مسلم رعایا کے ہر فورد کوبصورت مردایک تلوار اور بصورت عورت ایک خنجر کا مستحق قرار دیا گیا۔ چنانچہ جیسے ہی کوئی بچہ پیدا ہوتا حکومت کے اہلکار تلوار یا خنجر لے کر اس کے گھر پہنچ جاتے۔ تلوار لباس کا جزو بن گئی یہاں تک کے سقے بھی کمر پر مشک رکھے پہلو سے تلوار لٹکائے گھروں میں پانی بھرنے لگے۔ یہی کیفیت دھنیوں اور کھٹ بنوں کی نظر آنے لگی۔

جب ملک میں تلوار کی مانگ بڑھی اور لوہے کی کمی محسوس کی جانے لگی تو مکانوں کے آہنی پھاٹک اورجنگلے قومی ضرورت کے تحت اکھاڑے جانے لگے۔ ملک میں آتشیں اسلحہ کا ایک کارخانہ بھی کھولا گیا جس میں بندوقیں، رائفلیں، پستول اور ان کے کار توس اورگولیاں بنائی جانے لگیں۔ لیکن مجلس شوریٰ نے آتشیں اسلحہ کا استعمال سوائے عساکر حکومت کے رعایا کے تمام افراد کے لیے ممنوع قرار دیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments