کورونا وائرس: ایران میں کورونا کی دوا بنانے کے دعووں میں کتنا سچ کتنا جھوٹ


ایران

ایران ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو کووِڈ 19 سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کے باعث ایران میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق ایران میں عوام کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے سرکاری سرپرستی میں چلنے والے میڈیا نے ایسی رپوٹس شائع کیں ہیں جن کے مطابق ملک میں مقامی طور پر کورونا وائرس کی دوا بنانے کی کوششوں میں پیشرفت ہوئی ہے۔

اس نوعیت کی رپورٹس چلانے کا مقصد ایران کی سائنسی صلاحیتوں کا اظہار ہے اور اس بات کا بھی کہ وبا سے نمٹنے کے لیے ایران کو کسی دوسرے ملک پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

23 مارچ کو ایرانی میڈیا نے ملک کی ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ کے ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ آئندہ دس روز میں ایران اینٹی کورونا دوا تیار کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

اس سے قبل علی رضاضان نے ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ’آئی آر این اے‘ کو بتایا تھا کہ یہ دوا اس سے قبل چین میں مریضوں پر استعمال کی جا چکی ہے اور اس کی مدد سے کورونا وائرس پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔ انھوں نے اس دوائی کا کوئی نام نہیں لیا تھا۔

بی بی سی

کیا امریکہ نے کورونا کے علاج کے لیے کلوروکوئن کی منظوری دے دی ہے؟

وینٹیلیٹر کی نوبت کب آتی ہے اور پاکستان میں کتنی مشینیں ہیں

کورونا وائرس کس چیز پر کتنی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے؟

کیا دیہی پاکستان کورونا سے نمٹ سکتا ہے؟


اس بیان کے بعد آئی آر این اے نے ایک خبر اس شہ سرخی کے ساتھ چلائی کہ ’کورونا کی نئی اینٹی وائرس دوا ایران میں بنائی جائے گی۔‘

ایران کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے چیئرمین محمد رضا نے 21 مارچ کو کہا تھا کہ چینی کمپاؤنڈ (دوا) کی تیاری کے لیے پیشگی سامان درآمد کیا جا چکا ہے۔

اس بیان کے بعد بھی ایرانی میڈیا نے یہ خبریں چلائی تھیں کہ ’ایران میں تیار کردہ‘ دوا اگلے دس دن میں دستیاب ہو گی۔

22 مارچ کو فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اس رپورٹ پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ دوا کی تیاری کا پیشگی سامان بہت سے ممالک میں تیار ہوا جسے ایران نے درآمد کیا ہے۔

غلط فہمی

ایران

11 مارچ کو سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ٹی وی چینل، نیٹ ورک ون میں ایک میزبان نے نیوز بلیٹن میں کورونا وائرس کی روک تھام کرنے والی دوائی کی تیاری کی ’اچھی خبر‘ بہت خوشی سے سنائی۔ اس خبر کے بعد ایک ایسی کمپنی میں بنائی گئی ویڈیو نشر کی گئی جو کہ اس دوا کو تیار کر رہی ہے۔

اس ویڈیو میں ’ابو ریحان کمپنی‘ کے مینجر نور محمد کو ’ہائیڈروکلوروکوئن‘ نامی دوائی کے بارے میں بات کرتے دکھایا گیا جو نہ صرف کورونا کی ’روک تھام کرتی ہے بلکہ کورونا انفیکشن کا علاج‘ بھی۔ ابو ریحان کمپنی اس دوا کی تیاری میں مصروف ہے۔

بعدازاں ایک اور ویڈیو نشر کی گئی جس میں نور محمد نے کہا وہ صرف اس دوا کے حوالے سے معلومات دے رہے تھے، انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کی کمپنی نے یہ دوا تیار کی ہے۔

انھوں نے کہا ہائیڈروکلوروکوئن کوئی نئی دوا نہیں ہے اور یہ کہ اس دوا کو دیگر ایرانی کمپنیوں نے تیار کیا ہے۔

انھوں نے کہا غلط فہمی پھیلانے کا ذمہ دار اس ٹی وی اینکر کو قرار دیا جنھوں نے کورونا وائرس کی ایرانی دوا ایجاد کرنے کی رپورٹ ٹی وی پر نشر کی تھی۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی کمپنی میں بنائی گئی ویڈیو میں کانٹ چھانٹ بھی کی گئی جس کے باعث غلط فہمی پھیلی۔

ہائیڈروکلوروکوئن برسوں سے ملیریا کی روک تھام اور علاج کے لیے استعمال ہونے والی ایک عام سے دوا ہے۔ یہ دوا کورونا کی روک تھام میں مددگار ہے یا نہیں یہ بات یقینی طور پر نہیں کی جا سکتی تاہم اس پر تحقیق ضرور جاری ہے۔

مزید دعوے

ایران

فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے چیئرمین نے بعد میں دوا بنانے کے دعوؤں پر اپنا ردعمل دیا۔ ایسے ’بہت سے دعوے‘ حالیہ مہینوں میں سامنے آئے ہیں۔

چیئرمین نے کہا کہ دوا بنانے والے اپنے دعوؤں کی حمایت میں قابل بھروسہ شواہد دینے میں ناکام رہے ہیں۔ انھوں نے ایک ایسے ہی دعوے کا تذکرہ کیا جو جنوبی شہر ابادان کی یونیورسٹی کی جانب سے سامنے آیا تھا۔

ایران کے پاسدارانِ انقلاب سے وابستہ نیوز ایجنسی تسنیم نے بھی 25 مارچ کو اینٹی وائرس ڈرگ کے حوالے سے ایک ’اچھی خبر‘ شائع کی۔ یہ دوا ابادان میڈیکل سائنسز یونیورسٹی نے تیار کی تھی اور ان کا دعویٰ تھا کہ یہ کورونا کے مریضوں کی حالت میں بہتری لاتی ہے۔

یونیورسٹی نے اپنی کامیابی کا دفاع کرتے ہوئے ان ’نااہل‘ افراد پر تنقید کی جنھوں نے ان کی تحقیق پر سوالات اٹھائے تھے۔

27 مارچ کو ’ینگ جرنلسٹ کلب‘ نے اس شہ سرخی کے ساتھ ایک خبر اور ویڈیو پوسٹ کی کہ ’کورونا وائرس کا اینٹی باڈی دریافت۔‘ ینگ جرنلسٹ کلب نامی ویب سائٹ سرکاری خبر رساں ادارے آئی آر آئی بی سے وابستہ ہے۔

اس خبر میں لکھا تھا کہ مسیح دانیشوری ہسپتال کے محققین کورونا سے صحتیاب ہونے والے افراد کے خون سے پلازمہ کو علیحدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اب یہ تکنیک کورونا کے نئے متاثرین کے ابتدائی علاج میں استعمال ہو گی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’(اس دریافت نے) کووِڈ 19 کے مریضوں کی صحت میں بحالی کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp