بائی فوکل کلب – مشتاق احمد یوسفی


کبھی کبھی اپنی ندیدی آنکھوں سے خود پناہ مانگنے لگتے تھے۔ زکام کے سہ ماہی حملے کے دوران ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کئی بار وصیت کر چکے ہیں کہ میں مرنے لگوں، تو للہ ایک گھنٹہ پہلے میری عینک اتار دینا، ورنہ میرا دم نہیں نکلے گا۔ ہم نے ایک دفعہ پوچھا مرزا! ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ تمہارے دشمنوں کے مرنے میں اب ایک گھنٹہ رہ گیا ہے؟ بولے، جب میں نرس سے ڈیوٹی کے بعد کا فون نمبر پوچھنے کے بجائے اپنا ٹمپریچر پوچھنے لگوں، تو سمجھ لینا کہ تمہارے یار جانی کا وقت آن لگا ہے!

مگر مرزا کی باتیں ہی باتیں ہیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ ان کے سینے میں جو بانکا سجیلا ڈانؔ جوان دھومیں مچایا کرتا تھا، وہ اب پچھلے پہر دوہرا ہو ہو کر کھانسنے لگا ہے۔ اب وہ آتش دان کے سامنے کمبل کا گھونگھٹ نکالے، کپکپاتی آواز میں اپنے نیاز مندوں کو اس عہد رنگیں کی داستانیں سناتے ہیں جب وہ علی الصبح FRIDGE کے پانی سے نہایا کرتے تھے۔ وہ تو یہاں تک شیخی مارتے ہیں کہ آج کل کے مقابلے میں اس زمانے کی طوائفیں کہیں زیادہ بد چلن ہوا کرتی تھیں۔

مرزا کا ذکر، اور پھر بیاں اپنا! سمجھ میں نہیں آتا کس دل سے ختم کریں۔ لیکن قلب کے سر پرست اعلیٰ فہیم اللہ خان کا تعارف رہا جاتا ہے۔ یہ انہیں کے دم قدم بلکہ دام و درم کا ظہور ہے جس نے چاکسو خورد و کلاں کے تمام ادھیڑوں کو بغیر کسی مقصد کے ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا۔ خان صاحب ہر نسل کی امریکی کار اور گھوڑوں کے دلدادہ ہیں۔ آخر الذکر کی رفتار و کردار سے اتنے متاثر ہیں کہ کسی حسین خاتون کی انتہائی تعریف کرنی مقصود ہو تو اسے گھوڑی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اوروں پر بہت ہوا تو رزق کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ ان پر پوری بارہ دری کھلی ہوئی ہے۔ اور وہ بھی روز اول سے ورنہ ہونے کو تو فارغ البالی ہمیں بھی نصیب ہوئی، مگر بقول شاعر

اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو

ہم جب چوتھی جماعت میں پہنچے تو ان کے بڑے صاحبزادے میٹرک میں دوسری دفعہ فیل ہو چکے تھے۔ لیکن پیری کا احساس تو کجا، جب سے ہم نے بائی فوکل لگایا ہے، ہمیں اپنی تازہ ترین یعنی ماہ رواں کی منظور نظر سے ”انکل“ کہلوا کر حسینوں کی نگاہ میں ہماری عزت اور عمر بڑھاتے ہیں۔ جس مقام پر اب ہم لاحول پڑھنے لگ گئے ہیں، وہاں ان کی زبان ابھی تک سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے سوکھی جاتی ہے۔ ہم نے ان کی جوانی کی گرمیاں نہیں دیکھیں۔

ہاں، بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ جب موصوف کی جوانی محلے کی دوشیزاؤں کے والدین پر گراں گزر نے لگی تو انہوں نے ہم سایوں کے در و دیوار پہ حسرت سے نظر کر کے چاکسو خورد کو خیر باد کہا اور ممبئی کا رخ کیا، جہاں اون کی آڑھت کے ساتھ ساتھ 1947 تک کئی اونچے گھرانوں کی روشن خیالی پر متصرف رہے۔ مرزا کا کہنا ہے کہ ان کا دل شروع ہی سے بہت بڑا تھا۔ ان کا مطلب ہے کہ اس میں بیک وقت کئی مستورات کی سمائی ہو سکتی تھی۔ خوب سے خوب تر کی جستجو انہیں کئی بار قاضی کے سامنے بھی لے گئی۔ اور ہر نکاح پہ پھر پھر کے جوانی آئی کہ یہ

عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کے لیے

ان کے قہقہے میں جو گونج اور گمک ہے، وہ سندھ کلب کے انگریزوں کی صحبت اور وہیں کی وہسکی سے کشید ہوئی ہے۔ خوش باش، خوش لباس، شاہ خرچ۔ نا جائز آمدنی کو انہوں نے ہمیشہ نا جائز میں خرچ کیا۔ دھوپ گھڑی کی مانند جو صرف روشن ساعتوں کا شمار رکھتی ہے۔ قومی ہیکل، چوڑی چھاتی، کھڑی کمر، کندھے جیسے خربوزے کی پھانک، کھلتی برستی جوانی۔ اور آنکھیں؟ ادھر دو تین سال سے عینک لگانے لگے ہیں، مگر دھوپ کی۔ وہ بھی اس وقت جب سینڈزپٹ کے لباس دشمن ساحل پر غسل آفتابی کے نظارے سے ان کی گدلی گدلی آنکھوں میں ایک ہزار ”اسکینڈل پاور“ کی چمک پیدا ہو جاتی ہے اور وہ گھنٹوں کسی کو نظروں سے غسل دیتے رہتے ہیں۔ پاس کی نظر ایسی کہ اب تک اپنی جوان جہان پوتیوں کے نام کے خط کھول کر بغیر عینک کے پڑھ لیتے ہیں۔ رہی دور کی نظر، سو جتنی دور نارمل آدمی کی نظر جا سکتی ہے، اتنی دور بری نظر سے دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments