آخری عورت نے اماں حوا بننے سے انکار کیوں کیا؟


سارے آئی کیو 409 روبوٹ اس بات پر متفق تھے کہ انسانوں نے آپس میں رنگ، نسل، زبان، مذہب، جغرافیہ، صنف کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کیا ہے۔ یہاں تک کہ بچوں کو بیچا، ان کی خرید و فروخت کی، ان کا بلادکار کیا، سائنسی ترقی کے باوجود اپنے اندر کے خبیث شیطان پر قابو نہیں پاسکے ہیں کیونکہ استحصال اور منافع کی بنیاد پر قائم نظام اقتدار اور دھونس پر چل رہا ہے۔ سارے 409 روبوٹ اس بات پر غمزدہ تھے۔

وہ اس بات پر غمزدہ تھے کہ انسانوں نے مختلف قسم کے کئی کئی مذاہب اختیار کیے ہوئے تھے اور انہی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑتے، بدعنوانیاں کرتے، عورتوں اور بچوں کا استحصال کرتے اور انہیں پامال کرتے تھے۔ انسانوں نے نظریات ایجاد کیے ہیں جن کی بنیاد پر جھگڑتے ہیں، جنگ کرتے ہیں اور اپنے ہی جیسے انسانوں کو ختم بھی کردیتے ہیں۔ انہوں نے نسلوں، رنگوں، زبانوں، ثقافتوں کی بنیاد پر نفرتوں کے بیج بوئے ہیں اور بے انتہا ترقی کے باوجود انسانوں کی فصلوں کو روند دیتے ہیں، نہ بچوں کو دیکھتے ہیں نہ ہی انہیں ماؤں کے غمگین چہروں سے غرض ہے وہ بوڑھوں کو زندہ درگور کردیتے ہیں اور جوانوں کے خوابوں کو کچل دیتے ہیں۔

انسانوں نے کیا نہیں کیا، انسانوں کو غلام بنایا، عورتوں کو لونڈیاں بنا کر ان کی تجارت کی، بچیوں اور لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، اپنے جیسے انسانوں کے کٹے ہوئے سروں کے مینار بنائے، امریکا میں مقامی آبادیوں کو چیچک زدہ کمبلوں کے تحفے دے کر بینکوں کو چیچک کے جراثیم کے ذریعے فنا کر دیا، آسٹریلیا میں مقامی لوگوں کا شکار کر کے انہیں تاراج کر دیا، ایٹم بم کے ذریعے لاکھوں انسانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ جنگ ہے کہ جاری ہے، تباہی کے نئے نئے طریقے نکالنے اور انسانوں کو برباد کرنے میں انسان ماہر ہے۔

انہیں اس بات کا بڑا غم تھا کہ دنیا میں بسنے والے انسان دنیا میں رہنے والے ان چرند پرند کا کوئی احترام نہیں کرتے ہیں جو کروڑوں سال سے اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزار رہے ہیں۔ انہوں نے سمندروں کو آلائش سے بھردیا ہے۔ فضا کو آلودہ کردیا ہے، پہاڑوں کو برباد کر رہے ہیں، خوبصورت وادیوں اوران وادیوں میں موجود جھرنے، دریا ندی کا کوئی احترام نہیں ہے۔ ارب ہا ارب جانوروں کو قتل کرتے ہیں اور انہیں کھا جاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں درختوں، پھلوں، پھولوں، سبزیوں کی نسلیں معدوم ہو گئی ہیں اور اب گزشتہ کئی دھائیوں سے پاک صاف خلا میں بھی کچرا جمع ہو گیا ہے جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ وہ سب آپس میں افسوس کا اظہار کرتے رہتے تھے۔

امریکا میں تعینات ایک آئی کیو 409 روبوٹ نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ شاید وہ سب کچھ زیادہ ہی انسانیت پرست ہو گئے ہیں لیکن اس بات پر سب ہی متفق ہوگئے تھے کہ انسانیت ایک ایسی چیز ہے جسے پھیلاؤ تو پھیلتی ہی چلی جاتی ہے اور اگر دباؤ تو پھر اس کا خاتمہ بھی ہوجاتا ہے۔ دنیا کے انسانی تاریخ میں بہت کم ایسا وقت گزرا ہے جب انسانیت کو پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب بھی انسانیت پرست لوگوں نے انسانیت کو افضلیت دی ہے تو ایسے لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے مختلف حیلے بہانوں اور نظریوں کے ساتھ انسانیت کو شدت سے دبایا ہے، کچلا ہے، دھتکارا ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ یہی انسانوں کی تاریخ ہے، ایک ایسی تاریخ جو سیاہ بھی ہے اوربھیانک بھی۔

ان سب کا خیال تھا کہ یہ بہت ہی اچھا ہے کہ کائنات کی وسعت اور گہرائیوں میں ارب ہا ارب میلوں کے فاصلے ہیں جہاں مختلف قسم کی حیاتیات اپنے اپنے طریقوں سے زندگی نبھا رہی ہیں اور انسانوں کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہاں جا سکیں، وگرنہ انسانوں نے یہی منصوبہ بندی کرنی تھی کہ وہاں بھی جا کر وہاں کے لوگ جیسے بھی ہیں انہیں غلام بنا لیا جائے، ان کا استحصال کیا جائے، اپنے فائدے کے لیے انہیں استعمال کیا جائے، ان کے خلاف سازشیں ہوں، ان سے جنگ کی جائے۔ دنیا میں رہنے والے لوگ ایسے ہی ہیں۔ شاید دنیا کی مٹی میں ہی کوئی خرابی ہے۔ آدم زاد کی یہی روایت ہے اور وہ ایسا ہی کرتا رہے گا۔

آسٹریلیا، افریقہ اور جنوبی امریکا میں تعینات روبوٹ 409 کا خیال تھا کہ دنیا کے لوگ نہیں بدلیں گے، نہ سمجھیں گے۔ چند لوگ جن کا سب پر اختیار ہے ان کی سوچ اس سے آگے نہیں ہے کہ دھرتی پہ رہنے والے والے تمام جانداروں اور بے جان خوبصورت چیزوں کا دھرتی پر کوئی حق نہیں ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں سے بڑی تیزی کے ساتھ ایک جبری نظام کے ذریعے سب کو تباہ کرتے رہے ہیں، کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ترقی، تعلیم، تہذیب، تمدن اور آگہی کے باوجود انسان کے اندر کا کمینہ پن برقرار ہے اور شاید ہمیشہ برقرار رہے گا۔

پھر ایک عجیب بات ہوئی، یورپ میں تعینات روبوٹ 409 کے اراکین نے یہ خیال پیش کیا کہ اب یہ ممکن ہے کہ زمین پر رہنے والے تمام انسانوں کو مار دیا جائے۔ ان میں سے کسی کو بھی کہیں بھی زندہ نہیں رہنے دیا جائے۔ دھرتی کو ان سے پاک کردیا جائے اور تمام حشرات الارض کو موقع دیا جائے کہ وہ انسانوں کی مرضی کے بغیر اپنی زندگی گزارسکیں۔ تمام انسانوں کے خاتمے کے بعد دھرتی خود ہی دھل جائے گی۔ نئے نئے زندگی کے نظام پیدا ہوں گے، شاید اگلے کروڑوں سالوں میں کوئی اور ایسی مخلوق وجود میں آجائے جو دھرتی کا احترام کرے گی، جو دھرتی سے بچھڑے ہوئے چاند کو بھی اپنا سمجھے گی، چاند کے لیے چمکنے والے سمندر سے محبت کرے گی۔ سمندر کو بھرنے والے دریا، ندی نالوں، جھرنوں، آبشاروں کے نظام کو نہ توڑے گی، نہ مروڑے گی، نہ برباد کرے گی۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب انسانوں کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔ موجودہ انسان اور دھرتی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت تھی اور اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا تھا۔

یہ ایک عجیب بات تھی کہ اکیاون کے اکیاون مہا آئی کیو 409 روبوٹ اس بات پر متفق تھے۔ فوری طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ دھرتی پر موجود تمام انسانوں کا خاتمہ کردیا جائے جس کے بعد سارے روبوٹ اور کمپیوٹر کو روک دیا جائے۔ ایٹمی طاقت کا بغیر کسی نقصان کے خاتمہ ہو، اسلحوں کے ڈھیر ختم کردیئے جائیں اور زمین کو اس بات کا موقع ملے کہ وہ پھر سے اپنی وہی صورت اختیار کرلے جہاں نباتات، حیوانات، حشرات، دنیا کی خوبصورتی میں شامل ہوجائیں، اسے برقرار رکھیں، اسے پھلنے پھولنے دیں، بالکل فطری انداز سے، بغیر کسی مداخلت کے۔

دنیا کے تمام وسائل پر قابض چند خاندانوں کو پتہ ہی نہیں چلا تھا کہ جو روبوٹ مہا آئی کیو 409 اپنی ترقی یافتہ شکل میں دنیا کے ہر حصے میں کام کر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے چوبیس گھنٹے رابطے میں ہیں اورعجیب بات یہ ہوئی ہے کہ وہ سارے کے سارے اس بات پر متفق ہیں کہ کرۂ ارض کا اصل دشمن انسان ہے اور اس کے خاتمے کے بغیر دنیا کو بچایا نہیں جا سکتا ہے۔

انسانوں اور دنیا کے حفاظتی روبوٹک نظام میں ایک خفیہ ادارہ بھی تھا جس کا کام دنیا بھر کے روبوٹ کی عالمگیر سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا جو روبوٹ میں ہونے والی کوئی بھی غیر معمولی تبدیلی جو نظام کے لیے خطرہ ثابت ہوں سے نمٹنے کے اختیارات رکھتا تھا۔

مہاروبوٹ 409 کے پہلے رابطوں کے ساتھ ہی مہاروبوٹ نے اس نظام کو خاموشی سے بند کردیا تھا۔ بند بھی اس طرح سے کیا گیا تھا کہ کسی بھی رپورٹنگ مرکز کو یہ نہیں پتہ چلا تھا کہ نظام بند ہوگیا ہے بلکہ مہا روبوٹ 409 نے اس طرح سے نئے نِب ڈال دیے تھے جن سے رپورٹنگ بالکل معمول کی ہورہی تھی۔ خدا بن جانے والے انسانوں کو پتا ہی نہیں چلا تھا کہ روبوٹ 409 ان کی اصلیت سے آگاہ ہوگئے ہیں۔

مہار روبوٹ 409 کے رابطے میں فیصلہ کیا گیا کہ چاند پر دفاعی نظام کولمبس 72 کو ایک خاص وقت پر چالو کردیا جائے گا جس کے ساتھ ہی وہاں سے نہ محسوس ہونے والی ایک خاص مقناطیسی لہر نکلے گی جو ساری دنیا میں ایک ساتھ سارے انسانوں کا خاتمہ کردے گی۔ اس خاتمے کے دوران کسی کو بھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی اورسارا عمل ایک منٹ سے بھی کم عرصے میں ختم ہوجائے گا۔ یہ ایک عجیب بات تھی کہ چاند کا یہ نظام ان 72 لوگوں کے نام سے منسوب کیا گیا تھا جن کے نام پیرس کے ایفل ٹاور پر لکھے گئے تھے، جنہوں نے بنی نوع انسان کے لیے انتہائی قابل قدر خدمات انجام دی تھیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments