بدلتا ہوا شاہی محلہ اور بدلتے کردار



داتا کی نگری، رنگ بدلتا لاہور۔ سب بدل گیا، نہیں بدلا تو داتا نہیں بدلا۔ داتا آج بھی ویسا ہی ہے۔
عرصہ ہوا، دربار کے سامنے بہت وسیع و عریض علاقہ خالی پڑا ہوتا تھا۔ ’سرکلر باغ‘ جسے مقامی لوگ ’کِیسی باغ‘ کہتے لاہور کے چاروں طرف گھومتا تھا۔ ٹکسالی کے بعد یہ باغ کافی کشادہ ہوجاتا۔ عرس سے بہت پہلے اس علاقے میں ناچنے گانے والے، ڈھول تماشا والے، مانگنے والے، مزدوری کرنے والے، دور دراز سے آکر ادھر جمع ہو جاتے۔ ٹکسالی سے موچی تک جھگیاں ہی جھگیاں نظر آتیں۔ دکانیں سج جاتیں۔ احتیاج روزگار بہت سارے لوگوں کو ادھر لے آتی۔ بچے غبارے اڑاتے ’باجے بجاتے‘ پنگھوڑے جھولتے۔ کہیں قتلمے تلے جا رہے ہوتے، کہیں مٹی کے کھلونے بک رہے ہوتے۔

ہر چیز بکتی تھی۔ خریدار کی جیب بھاری ہونی چاہیے، سب کچھ مل جاتا۔ داتا کے مجاور ہر کام اور چیز میں اپنا حصہ ڈھونڈنے میں طاق تھے۔ آج بھی ان کے گھروں میں ایسی رنگ برنگی نشانیا ں مل جاتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو غربت اپنے گھ رسے نکال کرداتا کے دربار پر لے آتی اوروہ مجاوروں سے بھیک میں لنگر لیتے لیتے جسم کو لنگر خانہ بنا کر رہ جاتے۔

عرس میں طرح طرح کے لوگ، بھانت بھانت کے چہرے، بھانت بھانت کے لباس نظر آتے۔ کیسے کیسے لوگ اس ملک میں بستے ہیں۔ ان کے چہرے مہرے جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے، حلیہ تو بدلہ جا سکتا تھا۔ لیکن یہ سب اپنا ا پنا حلیہ بھی نہیں بدلتے تھے اور عادات واطوار کا بدلنا تو ناممکن ہے۔ وہاں جگہ جگہ کے لوگوں کو ایک ساتھ گھومتے دیکھ کر یہ شک ہونے لگتا کہ یہ ایک ہی دیس کے لوگ ہیں؟ ملک نہ ہوا بھان متی کا کنبہ ہو گیا۔

یہی کنبہ بازاروں میں بھی نظر آتا۔ آنے جانے والوں کی نشانیاں بھی۔ فروشندہ زر ثمن لے کر رخصت ہو جاتا اور مال خرید کر بازار سجا لئے جاتے۔ اندرون شہر ٹبی گلی، بازار شیخوپوریاں، شاہی محلہ سب کو تازہ مال ہر سال دو مرتبہ مل جاتا۔ کسی کا دو چوٹیوں میں سے ایک کو آگے ڈال کر جسم سکیڑ کر چلنا، چغلی کھاتا تھا کہ مال نیا نیا آیا ہے اور ملک کے کسی دور دراز کے علاقے سے منگوایا گیا ہے۔ سپاٹ چہرہ، بنجر لیکن مضبوط جسم بتاتا تھا کہ کوہستانی پودا ایک دن ضرور پنپنے گا۔

بازار شیخوپوریاں کئی داستانیں وابستہ ہیں اس سے۔ نکڑ پر میڈم زاہدہ کا خوبصورت حویلی نما گھر۔ سریلی آواز او رسُر کی ملکہ، جس کا کبھی ایک زمانہ دیوانہ ہوتا تھا۔ لیکن جب وہ سندھی ہیرو کو بھا گئی تو پھر اس نے اپنے کوٹھے کے دروازے سب کے لئے بند کر دیے۔ سانول سائیں جب بھی لاہور آتا اس کی گاڑی استاد دامن کے حجرے کے پاس سے گزر کر نیچا چیت رام روڈ پر سازندوں کو لینے بھی آتی۔ وہی اونچا اور نیچا چیت رام سڑکیں اور بازار جو کبھی موسیقی کی یو نیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔

ادبی ذوق کی حامل، سائیں اختر کی شاگرد میڈم، گاتی تو صرف اپنے سندھی سانول کے لئے۔ اس کی آواز گونجتی تو فلیٹیز کی صرف ایک خواب گاہ کی دیواروں تک محدود رہتی۔ اُس کے پہلو کے سمن اور گلاب صرف اُس کے لئے کِھلتے۔

اس کی حویلی کے ساتھ، لکھنو سے آئی گل بہشت کی حویلی تھی۔ گل بہشت کی ماں، ملکہ جان، جو کبھی حور کی صورت اور نور کی مورت تھی، لکھنو کے کئی نواب اس کی آنکھوں کے نشتروں سے اپنے کلیجے زخمی کیے تڑپتے مر گئے تھے۔ ملک تقسیم ہوا تووہ لاہور آ گئی۔ گل بہشت میں نوابوں والے شوق موجود تھے۔ وہ ایک ڈیرہ دار طوائف تھی۔ لمبا عرصہ اس نے دلوں پر حکومت کی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ دام جمالہا و کمالہا۔ لیکن اس بازار میں کون سی ساری باتیں سچ ہوتی ہیں؟

وہ بوڑھی ہو چکی تھی۔ اس کے کمال تو حویلی کی چار دیواری کے اندر مجسم نظر آتے تھے لیکن جمال اب نیا بت ڈھونڈتا تھا۔ اس بار اسے کوہستانی کلی ملی تھی۔ جو اس نے ایک مجاور سے منہ مانگے داموں خریدی تھی۔ دو چوٹیوں میں گندھے بال، عام طوائفوں کی طرح نتھلی کی بجائے ناک کے بیچوں بیچ، بانسے میں سونے کی بلاق موجود تھی۔ جس میں اصلی موتی ہلتا ہوا دیکھ کر عاشقوں کا دم ناک میں آ جاتا۔ گل بہشت نے اس بنجر سے جسم پر بہت محنت کی تھی۔ اب اس میں جست آگئی تھی۔ چلتی تو انگڑائی کے انداز میں جسم محراب بن جاتا۔

”عمدہ جان! تم بے حجابانہ نہ پھرا کرو۔ یہ لاہور کے باسی حور جلوہ فروش کے حسن کی تاب نہیں لاسکتے۔ “ گل بہشت اس کے واری صدقے جاتی۔

”خانم! کیا میڈم زاہدہ کا حسن بازار میں سب سے زیادہ ہے۔ “ عمدہ جان نے اچھلتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں۔ لیکن اس کے نصیب بہت اچھے ہیں۔ اور پھر یہ جو گل کھلے ہیں، برسوں کی ریاضت کا ثمر ہیں۔ “ خانم نے اسے پیار سے سمجھایا۔

”ہاں، ہاں! ہم بھی اپنی بیٹی کی نتھ اتروائی کی رسم پر زاہدہ بی بی کی قسمت کچھ دنوں کے لئے ادھار مانگیں گے۔ “ لکھنو کے نوابوں کے دلوں کوتاراج کرنے والی گل بہشت کی والدہ ملکہ جان اس کی بلائیں لیتی ہوئی بولی۔

”ماسٹر جی! ہماری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے۔ اس کے گلے میں وہ سُر بھر دیں۔ جن کی لے سن کرپیر و توانا سب شوریدہ سَر ہوجائیں۔ “ ملکہ جان خالصتاً لکھنوی لہجے میں آداب بجا لائی۔

ماسٹر کی آنکھوں کی چمک اور بے قراری دید نی تھی۔

”میں اسے ہیرا بنا دوں گا۔ اپنی تمام عمر کی صلاحیتیں اس پر نچھاور کر کے اسے ایسا سجاؤں گا کہ حیران چشم عاشق اس دمکتے ہیر ے کو دیکھ کر ہوش بھول جائیں گے۔ میرے بڑھاپے کو بھی سہارا مل جائے گا۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments