شاخ اشتہا کی چٹک


اسے قریب نظری کا شاخسانہ کہیے یا کچھ اور کہ بعض کہانیاں لکھنے والے کے آس پاس کلبلا رہی ہوتی ہیں مگروہ ان ہی جیسی کسی کہانی کو پالینے کے لیے ماضی کی دھول میں دفن ہو جانے والے قصوں کو کھوجنے میں جتا رہتا ہے۔ تو یوں ہے کہ جن دنوں مجھے پرانی کہانیوں کا ہوکا لگا ہوا تھا ’مارکیز کا ننھا منا نیا ناول میرے ہاتھ لگ گیا۔ پہلی بار نہیں‘ دوسری بار۔ اگرمیرے سامنے مارکیز کا یہ مختصر ناول دوسری بار نہ آتا تو شاید میں اپنے پاس مکر مار کر پڑی ہوئی اس جنس میں لتھڑی ہوئی کہانی کو یوں لکھنے نہ بیٹھ گیا ہوتا۔ مارکیز کے ناول کودوسری بار پڑھنے سے میری مراد میمن کے اس اردو ترجمے سے ہے جومجھے ترجمے کا معیار آنکنے کے لیے موصول ہوا تھا۔

یہ وہی ناول تھا جس کی خبر آنے کے بعد میں انگریزی کتابوں کی دکانوں کے کئی پھیرے لگا آیا تھا۔ پھر جوں ہی اس کتاب کا انگریزی نسخہ دستیاب ہوا تو میں نے اسے ایک ہی ہلے میں پڑھ ڈالا تھا۔ میں نے اپنے تئیں اس ناول کو پڑھ کر جو نتیجہ نکالا وہ مصنف کے حق میں جاتا تھا نہ اس کتاب کے حق میں۔ خدا لگتی کہوں گا میرا فیصلہ تھا ایک بڑے لکھنے والے نے بڑھاپے میں جنس کے سستے وسیلے سے اس ننھی منی کتاب میں جھک ماری تھی۔

ممکن ہے یہی سبب ہو کہ جب میمن کا ”اپنی سوگوار بیسواؤں کی یادیں“ کے عنوان سے چھپا ہوا ترجمہ ملا تو میں خود کو اسے فوری طور پر پڑھنے کے لیے تیار نہ کر پایا اور پیپر بیک میں چھپا یہ مختصر سا ناول کہیں رکھ کر بھول گیا۔ گذشتہ دنوں کسی اور کتاب کی تلاش میں ’جب کہ میں بہت زیادہ اکتا چکا تھا‘ یہ ناول اچانک سامنے آ گیا۔ میں نے اپنی مطلوبہ کتاب کی تلاش کو معطل کر کے اکتاہٹ کو پرے دھکیلنا چاہا۔ اسی ناول کو تھامے تھامے اپنے بیڈ تک پہنچا ’جسم کو پشت کے بل بستر پر دھپ سے گرنے دیا اور اسے یوں ہی یہاں وہاں سے دیکھنے لگا۔ جب میری نگاہ مارکیز کے ہاں بے باکی سے در آنے والے ان ننگے لفظوں پرپڑی جنہیں مترجم نے ایسے دلچسپ الفاظ میں ڈھال لیا تھا جو فوری طور پر فحش نہیں لگتے تھے‘ تو میں نے ناول کو ڈھنگ سے پڑھنا شروع کر دیا۔

ناول کو اس طرح پڑھنے کے دو غیر متوقع نتائج نکلے۔

ایک یہ کہ میں جسے مارکیز کے کھاتے میں جھک مارنا سمجھ بیٹھا تھا اس میں سے میرے لیے معنی کی ایک مختلف جہت نکل آئی اور دوسرا یہ کہ مجھے اپنا کنی کاٹ کر نکل جانے اور پھر بھول جانے والا ایک کردارشکیل رہ رہ کر یاد آنے لگا۔ ایک ناول جس کے مرکزی کردار نے اپنی نوے ویں سالگرہ کی رات ایک با کرہ کے ساتھ گزارنے کا اہتمام کیا، میرے لیے اس میں سے زندگی کے کیا معنی برآمد ہوئے ’میں ٹھیک ٹھیک بتانے سے قاصر ہوں۔ ہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ بار دِگر پڑھنے پر نہ صرف اس ناول کا جنس کا رسیا مرکزی کردار میرے لیے ایک سطح پر قابل اعتنا ہوا‘ میں اپنے ایک متروک کردار شکیل کے بارے میں بھی ڈھنگ سے سوچنے پر مجبور ہوا تھا۔

اور یہ بات بجائے خود کوئی کم اہم بات نہیں تھی۔

شکیل اور مارکیز کے ناول کے مرکزی کردار میں کوئی خاص مشابہت نہیں ہے۔ بتا چکا ہوں کہ وہ نوے برس کا ہے جب کہ میرا شکیل بھر پور جوانی لیے ہوئے ہے۔ وہ مرد مجرد اپنی مثالی بدصورتی کی وجہ سے خاکہ اڑانے والوں کا مرغوب، جب کہ جس شکیل کی میں بات کر رہا ہوں وہ محض نام کا شکیل نہیں ہے اور یہ شادی شدہ اور بال بچے دار ہے۔ تاہم ایک بات دونوں میں مشترک ہے کہ دونوں جنس زدہ ہیں اور شکیل تو اسی جنس زدگی کی وجہ سے دوستوں میں تضحیک کا سامان ہو گیا ہے۔ ایک مدت کے بعدشکیل جیسے کردار کی طرف لوٹنے کا سبب مارکیز کے ناول کے بوڑھے کی وہ جنسی خر مستیاں ہیں جنہیں ناول میں بہت سہولت سے لکھ لیا گیا ہے مگر ہمارے ہاں ایسی حرکتوں کو لکھنا چوں کہ فحاشی کے زمرہ میں آتا ہے لہٰذا مجھے شکیل کو لکھنے کے لیے بار بار مارکیز کی طرف دیکھنا پڑرہا ہے۔ ہاں تو میں مارکیز کے بوڑھے کی خرمستیوں کا ذکر کر رہا تھا اور بتانا چاہ رہا تھا کہ اس بوڑھے کی ہوس کاریوں کے باب میں جہاں اس کی اجڈ لانڈری والی ملازمہ کا ذکر آتا ہے، وہی عقب سے جانے کا، وہیں مجھے اس وقت کے شکیل کا، اس کرانہ اسٹور کے مالک کا شکار بننا یادآیا جس کے پاس اس شہر میں آ کر وہ پہلے پہل ملازم ہوا تھا۔ جہاں ناول کے مرکزی کردار نے اپنے پچاس سال کی عمر کو پہنچنے پران پانچ سو چودہ عورتوں کا ذکر کیا ہے جن سے اس کا جنسی تعلق قائم ہوا، اور اس گنتی میں وہ بعدازاں مسلسل اضافہ کیے جا رہا تھا ’تو میرے دھیان میں شکیل کی زندگی میں آنے والی وہ چٹپٹی لڑکیاں آ گئیں جن کی وجہ سے وہ شہر بھر میں جنسی بلے کے طور پر مشہور ہوا۔

تاہم جس لڑکی کی وجہ سے شکیل کو نظروں سے گرا ہوا اور بعد میں اسے شہر چھوڑتے ہوئے دکھایا جانا ہے وہ بظاہر ان چٹپٹی لڑکیوں جیسی نہ تھی۔

اوہ ٹھہریے صاحب! مارکیز کے بوڑھے بدصورت کردار کی طرح قابل قبول ہو جانے والے جواں سال شکیل کی کہانی کو یوں شروع نہیں ہوناچاہیے، جیساکہ میں اسے آغاز دے چکا ہوں۔ اس کردار کو عجلت میں یا یہاں وہاں سے ٹکڑوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اسے ڈھنگ سے لکھنے سے پہلے مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو میں اپنی اس خفت سے آگاہ کرتا چلوں جو مجھے کسی جنس مارے آدمی سے مل کر اور اس کی لذت میں لتھڑی ہوئی باتیں سن کر لاحق ہو جایا کرتی ہے۔ اسی خفت کا شاخسانہ ہے کہ مجھے اپنا حوالہ جنس مارے کرداروں سے بھی کھلنے لگتا ہے۔ شکیل جیسا کردار میری دسترس میں رہا مگر اسی خفت نے ہمارے درمیان بہت سے رخنے رکھ دیے تھے۔ حتی کہ میں نے یہ بھی بھلا دیا کہ شروع میں یہ کردار ایسا نہ تھا۔ یہ تو بہت بعد میں ہوا تھا کہ وہ نہ صرف لوگوں کی تضحیک کا سامان بنا، میری نظروں سے بھی گر گیا تھا۔

لیجیے اب مارکیز کے بوڑھے نے مجھے بہلا پھسلا کر اس مردود کہانی کے قریب کر ہی دیا ہے تو میں اسے شکیل سے اپنی پہلی ملاقات سے شروع کرناچا ہوں گا۔

شکیل سے میری پہلی ملاقات کسی تقریب میں ہوئی تھی۔ وہ وہاں دوسرے شاعروں کی طرح اپنی غزل سنانے آیا تھا۔ صاف اور گورا رنگ جو ناک کی پھنگی، کانوں کی لوؤں اور چمک لیے نرم نرم گالوں سے قدرے شہابی ہو گیا تھا۔ مجھے اس کا ٹھہر ٹھہر کر شعر پڑھنا اور پڑھے ہوئے مصرعے کو ایک اداسے دہرانا اچھا لگا تھا۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ پہاڑیا ہے تو اور بھی اچھا لگا کہ وہ اس کے باوجود نہ صرف ہر مصرع میں ٹھیک ٹھیک لفظ باندھنے کا اہتمام کر لایا تھا ان کی ادائیگی میں بھی کوئی غلطی نہیں کر رہا تھا۔ جو غزل اس نے وہاں سنائی اس نے خوب سلیقے سے کہی تھی۔ اس کی فنی مہارت کا میں یوں قائل ہو گیا تھا کہ ساری غزل ایک روندی ہوئی بحر میں، مگر بہت عمدگی سے کہی گئی تھی۔ ا س میں ایک دو غیر شاعرانہ اور کھدرے لفظوں کو اتنا ملائم بنا کر رواں مصروں میں پیوست کر دیا گیا تھا کہ اب وہ غزل کے ہی الفاظ لگتے تھے۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ وہ لگ بھگ ہر شعر کے مصرع اولی میں اپنے خیال کی کچھ اس طرح تجسیم کر رہا تھا کہ ہر بار لہجہ کے نئے پن کا احساس ہوتا اور ایک ایسامقدمہ بھی بنتا تھا جس کی طرف سننے والے کا متوجہ ہونا لازم ہو جاتا۔

جب وہ شعر مکمل کر کے سانس لیتا تو بات بھی مکمل ہو جاتی تھی۔

ذرا گماں باندھیے کہ ایک نوخیز شاعر ہے۔ آپ اس سے بالکل نئے لہجے کی غزل سن رہے ہیں۔ ایک ایسا لہجہ، جس میں عصر موجود کا تناظر اس کی اپنی لفظیات کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔ اس غزل میں اس کا اہتمام بھی ہے کہ کوئی لفظ فن پارے کے مجموعی مزاج میں اجنبی نہیں لگتا۔ سلیقہ ایسا کہ ہر لفظ کی ادائیگی کا مخرج ضرورت شعری کی وجہ سے کہیں بھی بدلا نہیں گیا۔ ہرلفظ ٹھیک اپنی نشست پر، اور وہ بھی یوں کہ ایک لفظ کی صوتیات اگلے لفظ کوٹہوکا دینے کی بجائے اس میں اتر کر اس کی اپنی صوتیات میں منقلب ہو جاتیں۔ سچ پوچھیے تو ایسی باریکی سے غزل کہنے والے کا گمان ہی باندھا جاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ میرے سامنے تھا اور پورے قرینے سے غزل کہہ رہا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments