وبا کے دنوں میں کچھ ہلکی پھلکی باتیں


صبح آنکھ کھلتے ہی عام طور پر پہلا خیال یہ آتا ہے کہ آج کا دن کسیے گذارا جائے۔ کیا جا کر بال کٹوا لیئے جائیں؟ ونڈو شوپنگ کی جائے؟ کسی دوست کو فون کر کے کسی کیفے میں ملنے کا کہا جائے؟ یہ سارے خیالات بس دو تین سیکینڈ میں آ کر گذر جاتے ہیں اور بس اگلے ہی لمحے یاد آجاتا ہے کہ نہیں بھئی ابھی بھی کرونا ہی چل رہا ہے۔ حقیقت کی دنیا میں آ جاؤ۔ فی الحال ایسا کچھ ممکن نہیں۔

کورونا کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اور سمجھدار لوگوں کو سمجھ بھی آ گئی ہے۔ اچھا چلو اب سمجھ آ گئی۔ اب آگے کیا کرنا ہے؟ دن کیسے گزاریں؟ زندگی کیسے کٹے گی؟ تم ہی کہو کیا کرنا ہے اب کیسے پار اترنا ہے؟

یہ بندشیں کب تک؟ سب نارمل کب ہوگا؟ ہو گا بھی یا نہیں؟ ایک بات تو طے ہے کہ اب ہاتھ ملانا متروک ہو جائے گا۔ یہ نئے وضع کی دنیا ہے یہاں اب فاصلوں سے ملنا ہو گا۔ جادو کی جپھیاں، پپیاں سب خیال و خواب ہو جایں گی۔ بہت لگاوٹ کی تو کہنی کہنی سے کہنی ملائی جائے گی۔ پہلے تفریح کے طور پر پاجامہ پارٹیز ہو کرتی تھیں اب اسی حلیہ میں شب و روز گذر رہے ہیں۔ نئے کپڑے اور بال بناوں یہ سب کس کے لیئے؟ کریں تو کیا کریں ؟اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹی محفلیں۔ تنوع کے لیئے ایسا کریں کہ کپڑے بدل لیں، ذرا بن ٹھن کر خود کو آیئنے میں دیکھیں۔ پہچانا؟

دن ہے کہ گذرتا ہی نہیں۔ نیٹ فلیکس کی فلمیں اور شوز دیکھ ڈالے۔ کتابیں بھی کچھ پڑھ لیں۔ کھانوں کی نئی ترکیبیں بھی آزما ڈالیں، بیکینگ کی، زیرے والے بسکٹس تک بنا ڈالے۔ فریج میں کیک پیسٹریوں کے ڈھیر لگ گئے کوئی کھانے والا نہیں۔ الماریاں ترتیب دے دیں، کچن کیبینٹس صاف کر ڈالے، فالتو آوٹ ڈیٹیڈ چیزیں کوڑے میں ڈالیں، دوستوں سے فون پر گپیں بھی لگا لیں۔ اب کیا کریں؟ نیا کچھ ہے ہی نہیں کہنے اور سننے کو۔ میاں سے جھڑپیں بھی چلتی رہیں۔ وہ مجھے اور میں انہیں ٹوکتے رہے۔ چاول ٹھیک سے دم نہیں ہوئے کا جواب میں نے اپنی کافی خود بناو کہہ کر دیا۔ پہلے تو تڑ تڑ جواب دینے میں مزا آرہا تھا اب ان اس سے بھی بور ہو گئے۔ انسان ہیں کچھ نیا چاہیئے۔ ہم نے ایک نیا کھیل ایجاد کیا۔ ہم دونوں اپنی کھڑکی سے لگ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور جو پڑوسی نظر آئے اس کے بارے میں اپنی طرف سے کہانی گھڑتے ہیں۔ گو کہ یہ نری غیبت ہے اور افواہ سازی کے زمرے میں آتا ہے لیکن کہانیاں بڑی زبردست بن رہی ہیں۔ ہمارا مقصد ان افواہوں کو پھیلانا ہرگز نہیں، یہ تو وقت گزاری ہے۔ کیا پتہ کوئی ہماری طرح چپکے چپکے ہمارے بارے میں بھی کہانی بنا رہا ہو۔

 ہم لمبی واک پر بھی جاتے ہیں۔ آتے جاتے لوگ ملتے ہیں اور دو میٹر کا فاصلہ برقرار رکھ کر گذر جاتے ہیں۔ لوگ پہلے ہی لیئے دیئے رہتے تھے اب بالکل ہی اجنبی ہو گئے۔ لوگ اپنے کتوں کو ٹہلانے نکلتے ہیں تو پاس سے گذرتے دوسرے لوگ کچھ دیر رک کر ان کتوں پر ضرور محبت بھرا ہاتھ پھیرتے ہیں۔ کتا بھی اپنے ناز اٹھواتا ہے۔ کتے کا مالک فاصلہ برقرار رکھے ہوئے یہ منظر دیکھتا ہے۔ انسان انسان سے اور بھی دور ہو گیا ۔

دم غنیمت ہے ٹرمپ صاحب کا کہ روز کچھ ایسی بات کر دیتے ہیں کہ تفریح کا سامان ہو جاتا تھا۔ لیکن اب یہ اتنا مضحکہ خیز نہیں رہا۔ یہ خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی ملیریا کی دوا کبھی جراثیم کش دوا کو انجیکٹ کرنے کو مشورہ۔ اور امریکیوں کی بڑی تعداد سچ مچ لاعلم ہے اور شاید اس پر عمل کر بیٹھے۔ آئین سٹائین کے قول پر پورا ایمان آجاتا ہے ہے کہ کائنات کی کوئی حد ہو سکتی ہے ہے لیکن حماقت لا محدود ہے۔ دنیا کے سب سے طاقتور انسان کو اس طرح کی باتیں کرتے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔

ساتھ ساتھ مولانا طارق جمیل کی کم ظرفی اور کم علمی دیکھ رہے ہیں۔ وہ حوروں کے تصور سے لذت اٹھایں اور چٹخارے لیں، ان کے سامعین کی رالیں بہہ رہی ہیں۔ میڈیا کو بےایمان اورخواتین (جو ملک کی نصف سے زیادہ آبادی ہیں) کو ملک کے وزیر اعظم کی موجودگی میں بے حیا قرار دے دیا، میڈیا سے تو معافی مانگ لی لیکن خواتین؟ ان سےمعافی نہیں بنتی کیا؟۔ عمران خان کو بھی نیم بے ہوشی میں حوریں دکھائی دیں تھیں۔ جو بعد میں ان پر آشکار ہوا کہ وہ نرسیں تھیں۔ وہی نرسیں آج جان ہتھیلی پر رکھے مریضوں کی خدمت کر رہی ہیں اور بالکل نظرانداز کی جا رہی ہیں۔ دنیا کورونا کی ویکسین ایجاد کرنے میں لگی ہوئی ہے اور ہم کندھے سے کندھا جوڑ کر نماز کے فوائد گن رہے ہیں۔ سارا زور رو رو کر دعائیں کرنے پر ہے۔ پر کیا کریں جب پوری کی پوری قوم بے حیائی اور بے ایمانی میں ڈوبی ہو تب ایک اکیلا ایماندار کیا کر سکتا ہے؟ اور انہی بے حیا اور بے ایمان لوگوں سے مدد کی اپیل بھی کی جا رہی ہے۔ جس میڈیا کو بکاؤ اور ایمان سے عاری کہا جا رہا تھا، وہی میڈیا ان کو کوریج دے رہا تھا۔ دل بھر چکا ہے ان سب منافقت بھری باتوں سے۔

یہاں لوگ اپنی اپنی بالکنیوں سے ایک ہی وقت میں تالیوں سے پیرا میڈیکل اسٹاف کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ پورا شہر گونج اٹھا۔ وطن عزیز میں ڈاکٹرز ہاتھ باندھے التجا کر رہے ہیں کہ خدارا احتیط کیجیئے۔ گھروں میں رہیئے اور ان کی التجاوں کوسیاسی ڈرامہ کہا جا رہا ہے۔ کیا بے وقعتی ہے۔

ایک چیز مثبت نکلی اس ساری منفیت سے وہ یہ کہ دھرتی نے ذرا سکھ کا سانس لیا۔ جہازوں کی آمد و رفت کم ہوئی، گاڑیاں پارک رہیں، کارخانے فیکٹریں بند ہیں۔ ٹرفیک کا دھواں کم ہوا۔ اب شاید آسمان پر ستارے نظر آنے لگیں۔ کہیں تتلیاں بھی پھولوں پر منڈلاتی دکھائی دینے لگیں۔ آلودگی پھیلانے والے تین بڑے ملک چین، امریکہ اور انڈیا لاک ڈاون میں رہے۔ شاید فضا میں تازگی بھر جائے۔ جس تیل پر جنگوں پر جنگیں ہوتی رہیں اس کا بازار میں اب خریدار نہیں ملتا۔ دنیا کیا سے کیا ہو گئی۔

ایک اور بات۔ ساری دنیا کی معشیت لڑکھڑا گئی ہے۔ ہوائی کمپنیاں، چین اسٹورز، سیاحت، ریئل اسٹیٹ، سب ہی دیوالیہ ہو چکے ہیں یا ہونے کو ہیں ۔ لیکن لوگوں کی ذاتی بچت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ جو آنے بہانے مالز کے چکر لگتے تھے اور بائے ون گیٹ ون فری کے چکر میں یا زبردست سیل لگی دیکھ کر چیزیں بلا ضرورت خرید لی جاتی تھیں۔ اور مال کا چکر ہے تو کیفے میں بھی بیٹھنا ہے۔ کسی کسی شام باہر کھانا کھانے کو بھی جی چاہتا تھا۔ وہ سب ایک طرف رہ گیا۔ پیسے بچ رہے ہیں۔ البتہ لوگوں کی ملازمتیں خطرے میں ہیں۔ ہر جگہ چھانٹی ہو رہی ہے۔

ہم ہفتے میں کم سے کم دو دفعہ جم جاتے تھے۔ کچھ ہل جل ہو جاتی تھی اور کچھ سماجی میل جول بھی۔ اب اس سے بھی گئے۔ گھر پر مراقبہ شروع کیا لیکن دل نہیں لگا۔ کسی نے کہا یہ نہایت مناسب وقت ہے ایک نئی زبان سیکھنے کا۔ فرنچ سے بہت رغبت رہی ہے۔ لہاذا آن لاین سیکھنا شروع کر دیا۔ درست تلفظ اور لب و لہجے سے سکھانے کا انتظام ہے۔

 سا وا بی این اور مرسی بوکو سے آگے دو جملے اور سیکھ لیئے۔ دیکھیئے اس میں کب تک دل لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments