کرونا کے بعد کی دنیا: چند خیالات


نوع انسانی اس وقت ایک عالمی بحران میں سے گزر رہی ہے، ایک ایسا بحران جو اس سے پہلے ہمارے اباواجداد نے کبھی نہ دیکھا۔ انسانی تاریخ جنگ وجدال سے بھری پڑی ہے جن میں بڑی آبادیاں مٹ گیں۔ مگر دوسرے علاقے بچ گیے۔ وباؤں میں انسان نے چیچک، طاعون، ہیضہ جیسی امراض کو کنڑول کر لیا، جن سے ماضی میں مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی کوششوں سے زیادہ تر متعددی امراض پر قابو پالیا گیا ہے اگرچہ چند ممالک، جن میں وطن عزیز بھی شامل ہے، اپنی کوتاہیوں کی بنا پر ابھی بھی پولیو جیسی بیماری کے زیر عتاب ہیں۔

لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ تقریباً تمام آبادیاں بیک وقت اس وبا کا شکار ہوئی ہیں جس کی بڑی وجہ سفر کی سہولتوں کا موجود ہونا ہے جو باقی شعوبوں کی طرح انسانی ترقی کی ایک علامت بن چکا ہے۔ یہ بحران ابھی ختم نہیں ہوا لیکن امید ہے کہ واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ ووہان (چین) جہاں سے شروع ہوا تھا وہاں اس پر قابو پا لیا گیا اور زندگی آہستہ آہستہ نارمل ہونا شروع ہو گی ہے مختلف ممالک اس عمل کے مختلف ادوار میں سے گزر رہے ہیں پاکستان بھی اس عمل کا ایک حصہ ہے۔

ہمارے سیاستدان اور ذمہ داران حکومت اس سلسلے میں جواصطلاح استعمال کر رہے ہیں وہ ”جنگ“ کی ہے جو وہ کرونا کی وبا کے خلاف کر رہے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس طرح عام عوام پوری سنجیدگی سے حکومتی اقدامات کو سپورٹ کر سکیں لیکن یہ مماثلت بس یہیں تک محدود رہے کیونکہ عام جنگ میں انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ طرفین کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچتا ہے اور عموماً کمزور فریق کا انفراسٹرکچر یعنی اس کا زمینی نظام، گھر، فیکٹریاں، ریلوے، سڑکیں، ہسپتال، اسکول یونیورسٹیاں، میوزیم، پانی، بجلی اور گیس کی ترسیل کی تنصیبات بالکل تباہ و برباد کر دی جاتی ہیں۔ بچ جانے والے ان جنگوں کے بعد اپنے ملکوں کو ملیامیٹ حالت میں پاتے ہیں اور زندگی کو دوبارہ نارمل حالت میں لانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں حالانکہ نارمل تو تباہ ہو چکا۔

اس بحران سے نبٹنے، مقامی آبادیوں کو اس سے بچانے اور سوسائٹی کو دوبارہ چلانے کے سلسلے میں، آئندہ چند ہفتوں میں لوگ اور حکومتیں جو فیصلے کریں گی ان کے دور رس نتائج ممکنہ طور پر ایک نئی دنیا کو جنم دیں گے۔ اور یہ فیصلے نہ صرف ہمارے نظام صحت بلکہ بلکہ سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی ساخت کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے نہ صرف ہمیں اپنے فیصلہ سازی کے عمل کو تیز تر کرنا بلکہ اس کو تذبذب سے بھی بچانا ہے۔

تیز تر فیصلہ سازی کے اس عمل میں متبادل آپشنز کو پرکھتے ہوئے جہاں ہمیں فوری خطرات سے بچنا ہے وہیں اس دنیا کا خیال بھی ذہن میں رکھنا ہوگا جو اس طوفان بیماری کے بعد معروف وجود میں آئے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ طوفان گزر جائے گا، انسانیت زندہ رہے گی اور ہم میں سے زیادہ تر لوگ بھی زندہ رہیں گے، ہمارا انفراسٹرکچر مکمل صیح حالت میں ہو گا، ہمارے ادارے مثلاً پارلیمنٹ، یونیورسٹیاں، ہمارے ہسپتال، ہمارے ریلوے اور ائرپورٹ، ہمارے پانی اور، بجلی اور گیس کا نظام، ہمارے گھر بچے رہیں گے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ ایک مختلف دنیا ہو گی۔

اس عرصے میں حکومتوں یا انفرادی سطح پر کیے جانے والے بہت سے ایمرجنسی اقدامات زندگی کے معمولات بن جائیں گے۔ آج تک تو ایسا ہی ہوتا آیا ہے جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا کے مختلف ملک میں جنگوں کے دوران بناے جانے والی ایمرجنسی قوانین اور اقدامات ختم ہونے میں بہت عرصہ لیتے ہیں۔ یہ زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسے اقدامات تاریخی عمل میں تیزی لے آتے ہیں۔ وہ فیصلے، جو عام حالات میں سوچ و بچار کے ایک طویل عمل میں سے گزرتے ہیں اور عموماً مہینوں یا سالوں کا وقت لیتے ہیں، چند گھنٹوں میں کر لیے جاتے ہیں اور آج کے دور میں جب نئی نئی ٹیکنالوجیز بنائی جاری ہیں اس بات کا حقیقی خطرہ موجود ہے کہ کسی خطرناک اور پوری سمجھ سے پہلے ہی، بنائی جانے والی ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر استعمال میں لے آیا جائے، کیونکہ فیصلہ سازوں کے نزدیک موجودہ حالات میں کچھ نہ کرنا زیادہ خطرناک ہے۔

اس طرح پورے پورے ملک سماجی عمل کی ایک تجربہ گاہ بن چکے ہیں۔ کیسا ہوگا اگر سب لوگ گھروں سے کام کریں اور تمام بات چیت اور معاملات دوری کی بنیاد پر ہوں؟ کیا ہو گا اگر تمام اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں انٹرنیٹ پر منتقل جا ئیں؟ عام حالات میں حکومتیں، کاروباری ادارے اور تعلیمی ادارے ایسے کسی تجربے پر بھی متفق نہ ہوتے لیکن ہم عام حالات میں نہیں رہ رہے۔

ان بحرانی حالات میں ہمیں چند ایسے ہی فیصلوں کے چناؤ کا سامنا ہے اور کوئی بھی کیا گیا فیصلہ ہماری مستقبل کی زندگی کا رخ متعین کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فیصلوں بارے اس چناؤ میں پہلے ترقی یافتہ اقوام کا نمبر آتا ہے اور پھر ترقی پذیر قوموں کا، لیکن فیصلہ سازی کے اس عمل کو صرف حکومتوں پر چھوڑنا ایک عام شہری کے لیے بہت مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس ابتدائی تمہید کے بعد آیئے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے فیصلے ہیں جو ہمارا انتظار کر رہے ہیں اور کیوں؟

پہلا یہ کہ ”مطلق العنانیت“ یا ”شہریوں کو با اختیار بنانا“ اور دوسرا چناؤ ”قومیاتی علیحدگی“ یا ”عالمی یکجہتی“ کے درمیان۔ امید ہے کہ اب ہمیں ان فیصلوں کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔ اگلے چند پیرا گرافز میں میں اس چناؤ کی اہمیت پر تھوڑی روشنی ڈالنا چاہتا ہوں

موجودہ وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام الناس حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر عمل کریں۔ ان ہدایات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کے پاس مختلف ذرائع ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ حکومت لوگوں کی نگرانی کرے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے۔ ہم نے مختلف ممالک میں اس بارے خبروں میں دیکھا اور پڑھا ہے مثلاً اٹلی میں ان قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے اور جیل تک کی سزائیں دی گئیں جبکہ ایشیائی اور افریقی ممالک میں پولیس کو لوگوں کو ذدوکوب کرتے دیکھا گیا اور یہ وڈ یوز سوشل میڈیا پر پھیل گیں۔

لیکن مروجہ طریقوں سے 24 گھنٹے لوگوں کی نگرانی تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن آج انسانی تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہر وقت تمام لوگوں کی نگرانی کی جاسکتی ہے اور حکومتوں کا پہلے کی طرح صرف انسانی جاسوسوں پر انحصار اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور اب ان کے پاس ہر جگہ موجود سینسرز اور طاقت ور الگورتھم کی موجودگی ہی کافی ہے۔ اور کرونا وائرس کی موجودہ وبا کا مقابلہ کرنے کیلے بہت سی حکومتوں نے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے اور کر رہی ہیں۔

اس کی قابل ذکر مثال چین کی ہے جہاں حکومت نے اس کے استعمال کے ذریعے نہ صرف کرونا کے ممکنہ مریضوں کی جلد شناخت بلکہ ان مریضوں کی نقل و حمل پر نگرانی کے ذریعے ان لوگوں تک بھی رسائی حاصل کی جو ان سے جسمانی رابطے میں تھے۔ اس ٹیکنالوجی میں سمارٹ فون کی نگرانی، پہلے سے موجودتنصیب شدہ لاکھوں چہرہ شناس کیمروں کے ذریعے پہچان اور لوگوں کو اپنا جسمانی ٹیمپریچر چیک کرنے اور خراب ہوتی جسمانی کیفیت کو رپورٹ کرنا شامل ہے۔ اس طرح سمارٹ فونز پر ایسے ایپ آ چکے ہیں جو آپ کے قریب کرونا کے ممکنہ مریض کی موجودگی کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔

اس قسم کی ٹیکنالوجی صرف چین تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ تقریباً تمام ممالک بلخصوص ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے اور ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں اس کو حاصل کر رہی ہیں۔ اس کی ایک مثال حالیہ دنوں میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ہے جنہوں نے ”ایمرجینسی فرمان“ کے ذریعے دہشتگردی کے توڑ میں استعمال ہونے والی نگرانی کے نظام کو کرونا کی وبا کیلے استعمال کرنے کی حکم دیا۔ اختیارات کے اس استعمال کی نوبت اس لیے آئی کیونکہ متعلقہ پارلیمینڑری کمیٹی نے اس اختیار کی اجازت نہیں دی تھی۔

آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ اس سارے میں نئی بات کیا ہے؟ حالیہ سالوں میں حکومتوں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز نے تیزی سے بدلتی جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کی نقل و حمل پر نگرانی اور ان کی رائے پر اثرانداز ہونا شروع کر دیا ہے۔ اس کی حالیہ مثالوں میں کیمبرج انالیٹیکا ( (cambridge Analytica کا 2016 میں امریکی انتخابات میں مبینہ کردار، اور پھر 2016 ہی میں برطانیہ کے ریفرنڈم میں بھی اسی کمپنی کے مبینہ کردار کا بڑی شدومد سے ذکر آیا ہے۔

یہ تو وہ مثالیں ہیں جن کے بارے میں میڈیا میں ذکر آ گیا۔ اس ضمن میں انسانی طرزعمل کے مشاہدے کی سائنس (behavioural sciences) ، ڈیٹا کا تجزیہ اور جدید اشتہاری ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا جو آج کی مقبول عام ”فیس بک“ سے حاصل کیا گیا۔ اسی طرح اشیاء کی خریدو فروخت میں انسانی رویوں کا مشاہدہ اور اس کا استعمال تو اب پرانی خبر ہی سمجھیں۔ اس تناظر میں اگر ہم یعنی عام شہری نے احتیاط نہ برتی تو کرونا کی وبا اس نگرانی کے عمل میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہو گی۔

اس لیے کہ وقتی نگرانی کے عمل اور اس سے متعلقہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو ایک ”معمول“ کا عمل بنا دیا جائے گا بلخصوص ان ممالک میں بھی جہاں ابھی راے عامہ اس کے خلاف ہے۔ اور اس طرح غیر محسوس پر روزمرہ کی زندگی کے تقریباً تمام ہی پہلو ریاستی نگرانی میں چلے جائیں گے جو کہ انسانی بنیادی حقوق کی حوالے سے ایک اہم مگر منفی پیش رفت ہو گی۔ اور جب آپ کی انگلیاں اپنے سمارٹ فون کی سکرین کو چھویں گی تو حکومت چاہے گی کہ وہ معلوم کرے کہ آپ کیا تلاش کر رہے تھے۔ اور آج کل تو کرونا کی وبا کے دنوں میں اس کی توجہ دوسری چیزوں سے ہٹ کر آپ کے جسمانی ٹیمپریچر اور بلڈ پریشر تک محدود ہے۔

ریاستی نگرانی کے بارے میں اپنی راے بنانے میں ایک عام آدمی کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسے یہ نہیں پتہ کہ اس کی نگرانی آخر ہو کیسے رہی ہے اور آنے والے مہینوں اور سالوں میں اس میں کس قسم کا اضافہ متوقع ہے، اس لیے کہ اس ٹیکنالوجی میں بہت تیز رفتاری سے ترقی ہو رہی ہے مثلاً وہ ٹیکنالوجی جو دس سال پہلے بہت اہم تصور کی جاتی تھی اس کی حیثیت ایک پرانی خبر سے زیادہ نہیں۔ چلیں ایک خیالی تجربہ کریں، سوچیں کہ ایک خیالی حکومت نے اپنے شہریوں سے ایک ایسی (biometric bracelet) ”بایومیٹرک کڑا“ پہننے کا مطالبہ کیا ہے جو 24 گھنٹے ان کے دل کی دھڑکن اور جسمانی ٹیمپریچر کی نگرانی کرے گا۔

حکومت اس ڈیٹا کو اکٹھا کرے گی اور الگوریدم کے ذریعے اس کا تجزیہ کرے گی۔ اس الگوریدم کو آپ سے پہلے آپ کی طبعیت کی خرابی کا پتہ لگ جائے گا اورا سے، آپ کی نقل وحرکت بشمول کس سے آپ ملیں ہے، کا مکمل علم بھی ہو گا۔ اس علم کی بنیاد پر وبائی مرض کے پھلنے کی صورت میں اس کو ابتدائی دنوں میں ہی روکنا ممکن ہو سکے گا۔ آپ کہیں گے کہ اگر یہ سب ممکن ہے تو کتنا اچھا ہو!

اس سارے نگرانی کے عمل کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس نئے نظام کو خودبخود قانونی حیثیت بھی حاصل ہو گیئی، موجودہ حالات میں کون ہو گا جو حکومتی نیت پر سوال اٹھانے کی کوشش بھی کرے۔ اگر آپ کو پتہ چلے کہ میں خبروں کے لیے کون سا چینل استعمال کرتا ہوں تو اس سے نہ صرف آپ کو میرے سیاسی رجحانات کے بارے میں بلکہ شاید میری شخصیت کے بارے میں جان کاری حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن جب میں کوئی وڈیو کلپ دیکھ رہا ہوں اور آپ کو میرے دل کی دھڑکن کی رفتار، جسمانی ٹیمپریچر اور بلڈ پریشر کے بارے میں معلومات ہوں اس کا مطلب ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ کون سی بات مجھے ہنسا سکتی ہے، کون سی بات مجھے اداس کر سکتی ہے یا رلا سکتی ہے اور کس بات پر مجھے غصہ آئے گا۔

یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج کے سائنسی دور میں محبت، خوشی، غصہ اور دوسرے جذبات کا جسمانی بنیاد پر سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی کو کھانسی یا بخار ہو۔ وہی ٹیکنالوجی جو کھانسی کی تشخیص کرتی ہے وہی آپ کی ہنسی کو بھی سمجھ اور پہچان سکتی ہے۔ آگر بڑی کارپوریشنز اور حکومتیں بڑے پیمانے پر اوپر بیان کردہ بایومیٹرک ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کر دیں تو وہ ہمیں (انفرادی سطح پر) ہم سے بہتر سمجھ سکتے ہیں اور وہ نہ صرف ہمارے احساسات و جذبات بارے ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کریں گے بلکہ وہ ہمیں کچھ بھی بیچ سکتے ہیں چاہے وہ سیاستدان ہو کیوں نہ ہوں۔

اس منظر نامے میں اور بیان کردہ کیمبرج اینالیٹیکا ( (Cambridge Analytica کی مثال تو ایسے ہی ہے جیسے پتھر کے زمانے کا ذکر ہو۔ سوچئے اگر کس ملک کا مطلق النعان حکمران ( ہم پاکستانی تو اس بارے میں کافی تجربہ رکھتے ہیں ) اگر یہ چاہے کہ ہر شہری 24 گھنٹے بایومیٹرک کڑا پہن کر رکھے تو وہ ہر شہری کی ہر سوچ اور جذبات سے آگاہ ہوگا۔ اس منظرنامے کی بقیہ تفصیل آپ خود سوچ سکتے ہیں۔ بے شک اس کرونا وبا کی ہنگامی حالات میں عارضی اقدام کے طور پر ٹیکنالوجی کے ایسے استعمال کا سوچ سکتے ہیں کہ ہنگامی حالات ختم ہونے پر یہ عارضی اقدام بھی ختم ہو جائے گا لیکن تاریخ کا سبق اس کے سوا ہے کیونکہ ہنگامی حالات کے قوانین/اقدامات کی ایک بری عادت یہ بھی ہے کہ وہ ان حالات کے ختم ہونے پر بھی نافذ رہتے ہیں، بلخصوص اگر افق پر نئے خطرات منڈلا رہے ہوں۔

دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور دور کیوں جائیں اپنے وطن عزیز پاکستان میں اب تک پانچ بار ہنگامی حالات اور قوانین کا نفاذ ہو چھا ہے۔ ( 1958 میں صدر اسکندر مرزا، 1969 میں جنرل یحیی، 1977 میں جنرل ضیا الحق، 1998 میں صدر محمد رفیق تارڑ اور سن 2017 میں صدر جنرل پرویز مشرف) اور ویسے بھی ہمارے ہاں قومی سلامتی عموماً خطرے میں ہی رہتی ہے اور ہماری سرحدیں غیرمحفوظ سمجھی جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں حالات نسبتاً مختلف ہیں لیکن ان کے بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگ سکتی اور حکومتوں ملٹی نیشنل کمپنیاں وہاں بھی چاہے گیں کہ آسان کے پاس شہریوں کی پسند/ناپسند بارے تمام معلومات ہوں تاکہ راے عامہ اپنے مفادات کے مطابق بنا ئی جا سکے۔

اگر موجودہ وبا میں انفیکشن کی شرح صفر ہی کیوں نہ ہوجائے، چند ڈیٹا ہنگری حکومتیں کہہ سکتی ہیں کہ ان کو نگرانی کا نیا نظام ابھی اور قائم رکھنا ہے کیونکہ کرونا وائرس کی دوسری لہر نہ آجائے یا افریقہ میں ”ایبولا“ وائرس کا نیا خطرہ ہو سکتا ہے یا کوی اور وجہ۔ کھڑی کی جا سکتی ہے، آپ میری بات سمجھ رہے ہیں نہ۔ حالیہ سالوں میں انفرادی رازداری کے بنیادی حق بارے ایک بڑی جدوجہد ابھی جاری ہے لیکن کرونا وائرس کی موجودہ وبا اس جدوجہد کا توازن خراب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

جب لوگوں سے صحت یا نجی رازداری میں سے ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جائے تو وہ عموماً صحت کو ترجیح دیں گے اور ایک سطح پر اس کی سمجھ بھی آتی ہے۔ لیکن اگر اس پر غور کریں تو انتخاب بارے سوال ہی اصل میں بنیادی طور پر غلط ہے۔ ہمارا اچھی صحت اور نجی رازداری دونوں پر ہی بنیادی حق کیوں نہیں؟ ہم اپنی صحت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ کرنا کی وبا کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں ایک مطلق النعان نگرانی جیسے اقدامات کی بجائے اپنے شہریوں کو زیادہ با اختیار بنانے کی ضرورت ہے اس کی مثال موجودہ وبا کے دنوں میں چند ممالک، مثلاً چین، جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور کے نافذ کردہ اقدامات ہیں۔ ان ممالک نے جہاں اس ٹریکنگ ٹیکنالوجی کا کامیاب استعمال یا وہیں انہوں نے اپنے باخبر شہریوں بھی انحصار کیا جنہوں نے ایمانتداری سے اپنی اپنی حکومت سے اس ٹیسٹنگ اور ریپورٹنگ بارے تعاون کیا۔

مرکزی نگرانی کے نظام اور سخت سزاؤں کے خوف سے ہم لوگوں کو حکومتی ہدایات پر عمل نہیں کروا سکتے۔ ہاں جب لوگوں کو سائنسی حقائق سادہ زبان میں بتاتے جایئں اور جب لوگ عوامی/سرکاری اداروں پر اعتماد کریں تو وہ خودبخود صیح فیصلے کریں گے چاہے کوئی ان کی نگرانی کر رہ ہو یا نہیں۔ ایک باخبر اور با اعتماد عوام زیادہ طاقتور اور موثر ہوتی ہے بنسبت ایک جاہل اور ہمہ وقت زیر نگرانی رہنے والی قوم کے۔

مثلاً ہاتھوں کو صابن سے دھونا۔ بظاہر ایک سادہ سا عمل لیکن ہر سال لاکھوں لوگوں کو زندگیاں اس سے بچتی ہیں اور ہمارے ہاں تو اس کا رواج اور بھی زیادہ ہے اگرچہ مذہبی معنوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ مغربی دنیا میں، جہاں ہر چیز سائنسی بنیادوں پر جانچی جا تی ہے، اس کی دریافت ابھی انیسویں صدی کے شروع ہی میں ہوئی۔ آج لاکھوں کروڑوں لوگ اس لیے ہاتھ نہیں دھوتے کہ ان کو ریاستی نگرانی کا ڈر ہے بلکہ وہ اس عمل کی آفادیت سے آگاہ ہیں۔ میں ہاتھ اس لیے دھوتا ہوں کہ آج میں وائرس اور بیکٹیریا کی موجودگی سے واقف ہو اور جانتا ہوں کہ یہ بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں اور یہ کہ صابن کا استعمال ان کو ختم کر سکتا ہے علاوہ ازیں ہمارے مذہب میں تو اس پر بڑا زور دیا گیا ہے۔

عوامی سطح پر اس طرح کے تعاون کے لیے اعتماد کا ہونا ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ لوگ سائنس پر اعتبار کریں، حکومتی اداروں پر اور پھر میڈیا پر اعتماد کریں۔ پچھلے چند سالوں میں دنیا میں عموماً مگر ترقی یافتہ ممالک میں بلخصوص غیر ذمہ دار سیاستدانوں نے جان بوجھ کرسائنس پر، حکومتی اداروں پر اور میڈیا پر لوگوں کے اعتماد کو کمزور کیا اور اب یہی سیاستدان ممکنہ طور پر مطلق العنانیت کی طرف اس دلیل کے ساتھ بڑھ رہے ہیں کہ وہ عوام پر اعتماد نہیں کر سکتے کہ وہ صیح فیصلہ کریں گے۔ وطن عزیز میں تو حکومتوں کا عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والا رویہ اس سے کئی گنا زیادہ خراب ہے جہاں لوگوں میں شرح خواندگی خطرناک حد تک کم ہے اور افواہوں پر اور سنی سنائی بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سالوں پر پھیلی بے اعتمادی ایک دن میں ختم نہیں ہو سکتی مگر آج کل حالات بھی تو نارمل نہیں ہیں۔ ہنگامی حالت میں لوگوں کا ذہن بدلا جا سکتا ہے، بس بات اتنی ہے کہ حکومتیں اور فیصلہ ساز ذرا مختلف انداز میں سوچیں۔ آخر کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ پوشیدہ نگرانی کے نئے نئے نظام بنانے پر خرچ ہونے والی توانائی، لوگوں کا سائنس اور حقائق کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں اور میڈیا پر اعتماد بحال کرنے پر خرچ ہو؟

ابھی اتنی بھی دیر نہیں ہوئی۔ ہمیں نئی ٹیکنالوجی کو ضرور استعمال کرنا چاہیے، لیکن ان کے ذریعے لوگوں کو حوصلہ اور طاقت دیں۔ آپ لوگوں کا جسمانی درج حرارت اور بلڈ پریشرپر ضرور چیک رکھیں لیکن اس ڈیٹا کا مقصد لوگوں کے علم میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں انفرادی سطح پر بہتر می فیصلہ سازی ہو نہ کہ ایک انتہائی طاقت ور مرکزی حکومت۔

اگر بایومیٹرک کڑا (biometric bracelet) پہننے سے میں اپنی جسمانی صحت پر 24 گھنٹے نظر رکھ سکتا تو یہ میرے لیے یہ کتنا آسان ہوتا کہ مجھے اس کا علم ہو کہ میں کہیں دوسروں کی صحت کے لیے ضرررساں تو نہیں اوریہ کہ میری کون سی عادات مضر صحت ہو سکتی ہیں؟ اور میں کرونا وبا کے پھیلاؤ بارے ڈیاٹا اور اس کا صیح تجزیہ کر سکتا۔ اس طرح مجھے اس کی بھی سمجھ آجاتی کہ حکومت عوام کو سچ بتا رہی ہے اور اس وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے صیح فیصلے کر رہی ہے۔ جب ہم نگرانی کے نظام بارے بات کریں تو ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ جس نظام کے ذریعے حکومت لوگوں پر نظر رکھتی ہے، اس کے ذریعے عام لوگ بھی حکومتی کار کردگی کو نگرانی کر سکتے ہیں اور اس طرح دوطرفہ معلومات کے تبادلے کے نتیجے میں باخبر اور ذمہ دار سوسائٹی کا قیام ممکن ہو سکے گا۔

اس طرح کرونا وائرس کی موجودہ وبا شہریوں کی صحت کے علاوہ ان کے لیے ایک بڑا امتحان بھی بن گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں ہم میں سے ہر ایک کو افواہوں، سازشی نظریات اور خود غرض سیاستدانوں کی بجائے سائنسی حقائق اور ماہرین صحت پر بھروسا کرنا ہو گا۔ اگر ہم اس موقع پر صیح فیصلہ نہ کر سکے تواس بات کا شدید خطرہ ہے کِہ ہم اپنی سب سے قیمتی شخصی آزادی کا سودا یہ سمجھ کر کر بیٹھیں کہ اپنی صحت کو بچانے کا صرف یہی ایک راستہ تھا۔

کرونا کی اس وبا میں ہمارے لیے دوسرا چیلنج یہ فیصلہ ہے کہ ہم نے اپنے فیصلے ”قومیاتی علیحدگی“ کی بنیاد پر کرنے ہیں یہ ”عالمی یکجہتی“ پر۔ یہ وبا بذات خود اور اس سے پیدا شدہ اقتصادی بحران قومی اور جغرافیائی سرحدوں سے ماوراء ہے اس لیے ان کا حل بھی بینالاقوامی تعاون کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اس وائرس کو شکست دینے کے لیے سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ سرحدوں پار معلومات کا بر وقت تبادلہ ہو۔ بحیثیت انسان یہ ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ووہان کے کرونا وائرس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ نیویارک میں موجود کرونا وائرس کو مشورہ دے سکے کہ انسانوں کو کیسے بیمار کرنا ہے لیکن چین اور امریکہ ایک دوسرے سے بات چیت کے ذریعے ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح مختلف ممالک میں حکومتی فیصلہ ساز، ماہرین صحت ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کے ذریعے مقامی سطح پر بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔

لیکن اس کو ممکن بنانے کے لیے ہمیں بین الاقوامی تعاون اور اعتماد کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ممکن ہو، جس کے امکانات زیادہ ہیں، تو ہمیں معلومات کے تبادلہ سمیت تمام دوسرے شعبوں کو بھی دیکھنا ہو گا جن میں طبی آلات کی تیاری، اور ان کی بر وقت ترسیل اس جگہ جہاں ان کی ضرورت ہو نہ کہ ہر ملک اس سامان کی ذخیرہ اندازی کرنا شروع کر دے۔ اس سلسلے میں ترقی یافتہ امیر ممالک پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس وقت ان ممالک کو سامان بھجوانے میں تذبذب کا شکار نہ ہوں کیونکہ ایک چیز جو کرونا وائرس نے بالکل واضح کر دی ہے کہ یہ رنگ، نسل، مذہب، جنس یا امارت میں کوئی تمیز نہیں کرتا اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہا ہے۔ اس وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی اور غصے کے اظہار سے مشکلات میں اضافہ تو ہو سکتا ہے، فائدہ کوئی نہیں سوائے وقتی سیاسی فائدے کے۔

تعاون کے اس ضمن میں سرحدوں کے پار طبئی عملے کی نقل وحرکت، اس وبا کے پھیلاؤ کے حساب سے ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں یہ تعاون اقتصادی محاذ پر بھی اتنا ہی اہم ہے۔ موجودہ عالمی نظام برائے ترسیل اشیاء جو ایک عرصے سے قائم ہے اور اس میں طلب و رسد کے حساب سے کافی لچک موجد ہے اس میں زیادہ بین الاقوامی تعاون کی زیادہ ضرورت ہے وگرنہ حکومتوں کے یک طرفہ فیصلوں کی وجہ سے بحران میں شدت آسکتی ہے۔ اس لیے ایک مربوط علمی پلان کی ضرورت ہے اور وقت کی کمی کا سامنا ہے۔

اس طرح سفر کی سہولیات کے سلسلہ میں بھی عالمی معاہدے کی ضرورت ہے اس لیے کہ تیز رفتار سفر اب ایک ضرورت بن چکا ہے اور تادیر اس کو بند رکھنے سے نہ صرف معاشی مشکلات بلکہ کرونا کے خلاف اقدامات میں بھی کوششوں کو زک پہنچ سکتی ہے۔ تمام ممالک نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس طرح لازمی سروسز کے تحت کام کرنے والے افراد مثلاً سائنسدان، ڈاکٹرز، صحافی اور حکومتی ذمہ داران ایک ملک سے دوسرے تک باآسانی سفر کر سکتے ہیں؟ کس طرح سفر سے پہلے کیے گیے ٹیسٹ صحت بارے اندیشوں کو رفع کر سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے اس وقت شاید ہی کوئی ملک ہو جو یہ اقدامات کر رہا ہو۔ ابھی تو زور اپنے اپنے ملک کی سرحدیں بند کرنے پر ہے مگر یہ صورت حال زیادہ دیر تک قاہم رکھنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ اس وقت تو ایسا لگتا ہے کہ بین الاقومی برادری ایک اجتماعی فالج کا شکار ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہفتوں پہلے عالمی لیڈر اکٹھے ہو کر ایک لائحہ عمل کا اعلان کرتے لیکن ابھی اس طرح لگتا ہے کہ اپنی اپنی پڑی ہے اور سیاسی لیڈر اپنی ساکھ بچانے کے لیے الزامات کا سہارا لے رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) اپنی کوشش تو کر رہا ہے لیکن وہ خود الزامات کی زد میں اچکا ہے۔ الزامات بھی کسی اور نے نہیں بلکہ امریکی قیادت نے لگاے ہیں جس نے اس کی ساکھ پر سوال اٹھا دیے لیکن ابھی بھی عالمی صحت بلخصوص کرونا وبا بارے راہنمائی اس کے پاس ہے۔ اگر ہم ماضی قریب کے واقعات و دیکھیں چاہے وہ 2008 کا معاشی بحران ہو یا 2014 کا ایبولا کی وبا۔ ان دونوں میں امریکہ نے عالمی قیادت کا بار اٹھایا لیکن اس بار لگتا ہے کہ اس نے عالمی قیادت سے دست کشی کر لی ہے۔

اس کی قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ اس کے نزدیک امریکی مفادات پہلے ہیں چاہے باقی انسانیت بھاڑ میں جائے۔ امریکی قیادت نے پہلی بار اپنے قریبی حلیفوں کو بھی چھوڑ دیا ہے۔ اس نے یورپ سے صلاح مشورہ تو کیا کرنا تھا، بغیر وارننگ کہ سفر پر پابندیاں لگا دیں۔ ایک جرمن ادویات کی کمپنی کو ویکسین پر اجارہ داری کے لیے مبینہ طور پر ایک ارب ڈالر کی پیشکش جیسے اقدامات سے جرمن حکومت سے تعلقات بھی متاثر ہونے کا خطرہ مول لیا ہے۔ اگر امریکی قیادت اپنی ترجیہات کو تبدیل بھی کر لیتی ہے اورایک پلان بھی بنا لیتی ہے پھر بھی اندیشہ ہے کہ صرف چند لوگ ہی ایسے لیڈر کی قیادت کو قبول کریں گے جسے سوائے اپنے مفاد کے کسی بھی اور کا خیال نہ ہو۔ جو اچھے نتائج کے موقع پر تو آگے ہو اور مصیبت کے وقت ذمہ داری دوسروں پر ڈال دے۔

اگر انسانیت کو در پیش موجودہ بحران کے موقع پر عالمی قیادت کے اس خلا کو بروقت نہ بھرا گیا تو نہ صرف موجودہ وبا کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گا بلکہ آنے والے وقت میں بین الاقوامی تعلقات پر اس کے اثرات ختم کرنا ایک مشکل امر ہو گا۔ لیکن جیسا کہ تجربہ بتاتا ہے کہ ہر بحران میں بہتری کے مواقع بھی چھپے ہوتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ موجودہ بحران میں بھی انسانیت عالمی نا اتفاقی کے خطرات سے اگاہ رہے گی اور وہ ان مواقع کو تلاش کر لے گی۔

اب یہ عالمی برادری اور فیصلہ سازوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا انتخاب کرتے ہیں؟ اپنے اپنے مفاد کی عینک پہن کر معاملات کرتے ہیں یا عالمی یکجہتی کے ساتھ اس کو سانجھی مشکل سمجھ کر اپنا اپنا کردار نبھاتے ہیں۔

”اپنی ڈفلی، اپنا راگ“ کی پالیسی کی قیمت بھی انسانیت کو ہی ادا کرنا ہو گی اور اکٹھے رہ کر جدوجہد کی صورت میں اکیسویں صدی میں آنے والے ایسے ہی اور بحرانوں سے نبٹنا آسان ہو جائے گا اس لیے کہ یقین رکھیں کہ یہ آخری وبا نہیں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments