کورونا پر اچانک ابھرتی سازشی کہانیاں


جانے ہم کیوں بھول چکے ہیں کہ شہباز شریف صاحب کی قیادت میں اپنا وجود برقرار رکھنے کی فکر میں مبتلا پاکستان مسلم لیگ نے 2018کے انتخابات مکمل ہوجانے کے فوری بعد ’’نیک چال چلن‘‘ کی ضمانتیں دینا شروع کردی تھیں۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والے بیانیے پر ڈٹ گئی ہوتی تو مذکورہ انتخابات کے تحت قائم ہوئی اسمبلیوں میں اس کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین حلف اُٹھاکر بیٹھنے سے انکار کر دیتے۔ نئے انتخابات کے لئے ویسی ہی تحریک چلانے کی کوشش کرتے جو نو جماعتوں پر مشتمل ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ نے جولائی 1977 میں منعقد ہوئے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے برپا کی تھی۔

ہمارے ملک میں ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘ سیاست دانوں کی اکثریت اس حقیقت کو مگر بھول نہیں پائی کہ ’’نئے انتخابات‘‘ کے لئے چلائی وہ تحریک جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لاء کا باعث ہوئی تھی۔ سیاست اس مارشل لاء کی وجہ سے شجرممنوعہ ہوگئی۔ آٹھ برس تک پھیلے مکمل کنٹرول کے بعد بالآخر 1985میں انتخابات کی اجازت دی گئی۔ یہ انتخابات اگرچہ ’’غیر جماعتی بنیادوں‘‘ پر ہوئے۔ ان کی بدولت وزیر اعظم نامزد ہوئے محمد خان جونیجو مرحوم نے بالآخر مسلم لیگ کو بحال کیا۔ اس بحالی کے طفیل دیگر سیاسی جماعتیں بھی انگڑائی لے کر بیدار ہوگئیں۔ ماضی کے ان تلخ تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہماری سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے جبلی طورپر ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کرنے کا فیصلہ کررکھا ہے۔ احتجاجی تحریک چلانے سے یہ گھبراتے ہیں۔ اسمبلیوں میں عاجزی سے بیٹھے ہوئے ’’اچھے دنوں‘‘ کا انتظار کرتے ہیں۔

ہمارے سیاستدانوں کی جبلت میں موجود اس خوف کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں شہباز شریف صاحب کی جانب سے اپنائے Pragmatismکی بابت کبھی حیران نہیں ہوا۔ ان کی معاونت کو بے چین ’’سنجیدہ اور تجربہ کار‘‘مسلم لیگی رہ نما بچ بچاکر ڈنگ ٹپانے کی کوشش کریں تو پھکڑپن کو جی نہیں چاہتا۔ فیض احمد فیض کے ’’شہر میں دستِ قاتل کے شایاں‘‘ نایاب ہوگئے تھے۔ نیب کی بدولت ہر دوسرے دن یہ خبر بھی مل جاتی ہے کہ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں ’’باصفا‘‘ لوگ موجود نہیں رہے۔ تحریک انصاف اس حوالے سے خوش نصیب ہے۔ چینی کے مبینہ بحران کی تحقیقات منظرِ عام پرآئیں تو فقط جہانگیر خان ترین ہی راندہ درگاہ قرار پائے۔ مخدوم خسرو بختیار کو مگر وزارتِ اقتصادی امور جیسا تگڑا محکمہ مل گیا۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحب کے خلاف مبینہ بدعنوانیوں کا ذکر چھڑتا ہے تو نیب کے بجائے وزیر اعظم صاحب کے سیکرٹری اعظم خان صاحب انہیں طلب کرے استعفیٰ دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ انکار کردیتی ہیں تو ڈی نوٹی فائی ہوکر گھر چلی جاتی ہیں۔

چند ہی ماہ قبل عمران حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کی بھرپور معاونت کے ساتھ 12منٹ کی تاریخی عجلت میں پارلیمان سے ایک ’’تاریخ ساز‘‘ قانون دوتہائی اکثریت سے منظور کروایا تھا۔ ’’قومی اتفاق رائے‘‘ کے اس شاندار مظاہرے کے بعد میں ہرگز حیران نہیں ہوں گا اگر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اب وفاق کو مبینہ طورپر ’’کنگال‘‘ ہونے سے بچانے کے لئے آئین کی اٹھارویں ترمیم کی نظرثانی پر بھی آمادہ ہوجاتیں۔ اس امکان کی بابت ریگولر اور سوشل میڈیا پر لگی رونق مجھ بے وقوف کو محض یاوہ گوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس کالم کے ذریعے اس میں حصہ ڈالنے کو جی نہیں چاہتا۔

اٹھارویں ترمیم میں جو ’’مثبت تبدیلیاں‘‘ ہماری حکمران اشرافیہ لانے کو بے چین ہے انہیں جون کے اختتام تک منظرِ عام پر آجانا چاہیے۔ جولائی سے ہمارا نیا مالیاتی سال شروع ہونا ہے۔ کرونا کے بعد تیزی سے سنگین تر ہوتے معاشی بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے لازمی ہوگا کہ قومی وسائل پر وفاق کا اجارہ یقینی بنایا جائے۔ صحت عامہ کے نظام کو مؤثر تر بنانے اور معاشی بحران کی وجہ سے خطِ غربت کی طرف تیزی سے پھسلتے کروڑوں پاکستانیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے ریاستِ پاکستان کو خاطر خواہ رقوم ملنے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے بہت شدت سے یہ چاہیں گے کہ ان کی جانب سے فراہم کردہ رقوم One Windowکے ذریعے پاکستانی عوام کی ’’حقیقی‘‘ بھلائی کے لئے خرچ ہوں۔ اس ضمن میں وہ Command and Control والے نظام کو ترجیح دیں گے۔ پاکستان میں Top Down ماڈل دیکھنا چاہیں گے۔ صوبائی حکومتوں کی Capacity پر انہیں سو طرح کے اعتراضا ت ہیں۔

شہباز شریف اور اسحاق ڈار صاحب کو حکومتوں میں طویل تجربے کے باعث بخوبی علم ہے کہ IMF اور World Bank کو پاکستان جیسے ممالک میں گورننس کے حوالے سے کیسے Structure یا ڈھانچے درکار ہوتے ہیں۔ ڈار صاحب کو ہمارے ’’آزاد‘‘ ٹی وی کی سکرینوں پر رسائی میسر نہیں۔ یوٹیوب کے ذریعے اپنے خیالات ہم تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ شہباز صاحب ٹی وی انٹرویو کے لئے عموماََ رضامند نہیں ہوتے۔ گزشتہ ہفتے مگر ایک نہیں دوبار ون آن ون انٹرویوز کے لئے نمودار ہوئے۔ جزئیات سے قطع نظرشہباز صاحب اور جناب اسحاق ڈار تقریباََ یکسو ہوئے مرکز اور صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کو عملی اعتبار سے مؤثر بنانے کو کھلے دل سے تیار ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے فی الوقت اس ضمن میں دانستہ خاموشی اختیار ہوئی نظر آرہی ہے۔ نیب کی مہربانی سے نا ممکن نظر آتی چیزیں بھی لیکن بالآخر ممکن ہوجاتی ہیں۔ فی الحال اس ادارے کی توجہ شہباز صاحب پر مرکوز ہے۔ ان کا حساب سیدھا ہوگیا تو پیپلز پارٹی بھی ’’معقول‘‘ رویہ اپنالے گی۔ راولپنڈی کے بقراط عصر درست فرمارہے ہیں۔ عید گزرجانے کے بعد ’’ٹارزن‘‘ واپس آجائے گا۔ جون کا بجٹ پیش ہونے سے قبل ہی شاید اپوزیشن جماعتوں کے بھرپور تعاون سے اٹھارویں ترمیم کو مالیاتی اعتبار سے ’’وفاق‘‘ کو کمزور بناتی خامیوں سے پاک کردیا جائے گا۔

ہماری حکمران اشرافیہ کے مابین اختیارات اور وسائل کی تقسیم کے حوالے سے ہمیں بتائی مشکلات یقینا حل ہوجائیں گی۔ یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ اشرافیہ کے مابین باہمی تعاون سے طے ہوا معاہدہ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے روزمرہّ مسائل کے ازالے کی کیاصورت نکالے گا۔

اٹھارویں ترمیم کی مبینہ طورپر ’’وفاق دشمن‘‘ قباحتیں ریگولر اور سوشل میڈیا کی بدولت خوفناک حد تک مسلسل ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ کرونا کا وائرس مگر اب بھی متحرک ہے۔ اس سے مدافعت کی دوا ایجاد کرنے میں وقت درکار ہے۔ فی الحال تو اس کا مؤثر علاج بھی دریافت نہیں ہوا۔ لاک ڈائون اس سے بچنے کی واحد صورت رہ گئی ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملکوں میں مگر دیہاڑی دار اور کم آمدنی والے کروڑوں گھرانے سماجی دوری کی پابندیوں کے تحت اپنی بقاء یقینی بنانہیں سکتے۔ ہر سو آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ موت کا ایک دن معین ہے۔ کاروبار کھول دئیے جائیں۔ جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔

عمران خان صاحب کو عوام کی بے پناہ اکثریت کے دل ودماغ میں اُبھرے اس تصور کا بخوبی احساس ہے۔ کمال مہارت سے وہ ’’لاک ڈائون‘‘ کا ذمہ دار ’’اشرافیہ‘‘ کو ٹھہرائے ہوئے خود کو اس فیصلے سے لاتعلق بناتے نظر آرہے ہیں۔

لاک ڈائون کو بتدریج ختم کرتے ہوئے کاروبار زندگی کو بحال کرنے کی فضا بنانے کے لئے مگر ضروری ہے کہ ٹھوس اعدادوشمار کی مدد سے خلقِ خدا کو یہ دکھادیا جائے کہ کرونا وائرس کی زد میں آئے پاکستانیوں کی تعداد Peakکی جانب نہیں بڑھ رہی۔ اس کی وجہ سے ہوئی اموات کی شرح بھی دل دہلادینے والی نہیں ہے۔ ہم اٹلی جیسے مناظر سے محفوظ رہیں گے۔

گزشتہ تین روز میں نے کافی پاکستانیوں سے فون پر تفصیلی گفتگو میں خرچ کئے ہیں۔ ان کی اکثریت نام نہاد پڑھے لکھے افراد پر مشتمل تھی۔ چند ایک نے غیر ملکی یونیورسٹیوں سے تعلیم بھی حاصل کی ہے۔ کھلے ذہن سے ان کی گفتگو سنتے ہوئے مجھے ’’دریافت‘‘ ہوا ہے کہ امریکہ کی قیادت میں ’’یہودونصاری‘‘ کی بالادستی کو بضد سازشی ممالک کرونا وباء کی وجہ سے ہوئی اموات کو ’’بڑھاچڑھاکر ‘‘ پیش کررہے ہیں۔ عالمی میڈیا میں وباء کے حوالے سے ’’قیامت خیز‘‘ مناظر والی Fake Newsپھیلائی جارہی ہیں۔ مقصد اس خوف کو پھیلانے کا یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک اپنی اقتصادی ترقی پر توجہ نہ دیں۔ خوف سے گھروں میں دبک کر محصور ہوجائیں۔ ہمیں اقتصادی طورپر مفلوج رکھنا ہی ’’دشمنوں‘‘ کو مقصود نہیں۔ حتمی ہدف یہ بھی ہے کہ دواسازی کی عالمی اجارہ دار کمپنیاں جب کرونا کی مدافعت کو یقینی بنانے والی ویکسین ایجاد کرلیں تو اسے دُنیا میں پھیلاکر اربوں ڈالر کا منافع کمایا جائے۔

نہایت سنجیدگی اور ’’دلائل‘‘ کیساتھ سنائی سازشی کہانیوں نے بخدا میرا سرچکرادیا۔ اس تناظر میں سوشل میڈیا کی بدولت ہمارے بازاروں میں ’’اچانک‘‘ ابھرتی تھوڑی ’’رونق‘‘ پر غور کیا تو حتمی پیغام یہ ملا کہ ہمارے عوام کی اکثریت کرونا کے وجود سے منکر ہونے کو تیار بیٹھی ہے۔ شاید ان کے انکار کو مزید تقویت پہنچانے کے لئے اسلام آباد،کراچی،پشاور اور لاہور کے کئی ہسپتال اپنے ہاں آئے مریضوں کو یہ ’’مشورہ‘‘ دے رہے ہیں کہ اگر ان کا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے تو ہسپتال کی آئسولیشن وارڈ میں داخل ہونے کے بجائے وہ اپنے گھروں کو لوٹ کر سختی سے سماجی دوری اختیار کرتے ہوئے ازخود صحت یاب ہونے کا انتظار کریں۔ دیگر لوگوں کی روزمرہّ زندگی بحال ہونے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments