کرونا مارتا ہے یا کرونا کا خوف


خوف ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور یہ شک سے شروع ہو کر یقین میں بدل جاتی ہے۔ جب کرونا وائرس سے چائنہ میں ہلاکتیں ہوئیں تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ امریکہ کی گیم ہے اور کچھ کا کہنا تھا کہ یہ چائنہ کی لیبارٹری میں تیار گیا گیا ہے اور پاکستانی عوام اِس کو مذاق سمجھتے رہے لیکن جب پاکستان میں پہلا کیس سامنے آیا تو عوام کا کہنا تھا حکومت یہ سب کچھ امداد کے لیے کر رہی ہے۔ علماء کرام کی طرف سے اشارہ تھا کہ اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا عذاب ہے۔ پاکستانی حکومت نے اس وائرس سے بچنے کے لئے عوام کو گھروں تک محدود رہنے کی تاکید کی اور مختلف ہسپتالوں میں قرنطینہ سنٹرز بھی بنا دیے گئے۔

ٹی وی چینلز پر اِس حوالے سے مختلف پروگرامز نشر کیے گئے اور احتیاطی تدابیر عوام تک پہنچاتے ہوئے کہا گیا کہ اِس سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔ سوشل میڈیا پر اِس وائرس سے مرنے والوں کی وڈیوز بھی دیکھنے کو ملیں اور اِن وڈیوز کا مقصد عوام میں خوف و ہراس پھیلانا تھا یا صرف عوام کو گھروں تک محدود کیے جانے کا طریقہ لیکن کمزور دل لوگ ہمت ہار بیٹھے اور ہر جگہ کرونا وائرس کے علاج کے ٹوٹکے تلاش کرنے لگے۔

دنیا بھر کی طرح اِس وائرس نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جس طرح لوگوں کی مثبت رپورٹس آتی رہیں کچھ کو گھروں میں آئیسولیٹ کیا اور کچھ مریضوں کو مختلف ہسپتالوں میں بنائے گئے قرنطینہ سنٹرز میں منتقل کر دیا گیا۔ قرنطینہ سینڑز سے کرونا کے مریضوں کی مختلف ویڈیوز دیکھنے کو ملی جن ویڈیوز میں بتایا جا رہا ہے کہ ہمیں کھانا نہیں مل رہا یا مناسب دیکھ بھال نہیں کی جارہی۔ اِس وائرس کا علاج ابھی تک پوری دنیا میں نہیں ہے۔ علاج صرف یہی ہے کہ خود کو دوسروں سے الگ رکھنا ہے تا کہ اِس بیماری پر قابو پایا جا سکے۔ عوام کے اندر اِس کا خوف اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ٹیسٹ کروانے سے ڈر رہے ہیں۔

کرونا کا ڈر بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے جو لوگ پہلے سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں جیسا کہ شوگر، بلڈ پریشر اور عارضہ قلب سمیت دیگر موزی امراض اِس وائرس کے نام سے بھی ڈرنے لگ گئے ہیں اور علامات ظاہر ہونے پر بھی ٹیسٹ کروانے پر آمادہ نہیں ہوتے اگر ٹیسٹ مثبت آئے تو کرونا کے خوف سے دو سے تین دن میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

کرونا پروٹوکول کے تحت میت کی تدفین کا طریقہ کار بھی اتنا خوفناک اور آخری رسومات کی معاشرتی روایات کے خلاف ہے کہ چند سرکاری اہلکار تابوت کو رسیوں سے باندھ کر لحد میں اتارتے ہی بنا سل یا تختے کے مٹی ڈال کر چلتے بنتے ہیں۔ ہماری معاشرتی روایات کے مطابق ایسی تدفین کو بے حرمتی سمجھا جاتا ہے اور تدفین کے یہ مناظر دیکھ کر ہر مسلمان کرونا سے مزید خوف زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی موت کے ڈر سے علامات ظاہر ہونے پر بھی ٹیسٹ کروانے سے کتراتا ہے۔

سختی کے باوجود عوام حکومتی ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہو رہے اور نہ ہی ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ رہیں ہیں۔ اس موقع پر علماء کرام داد کے مستحق ہیں کہ مساجد میں حکومتی اعلامیہ کے مطابق احتیاطی تدابیر پر عمل کروا رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کرونا وائرس کے مریض کی شہادت کے بعد تدفین کی وڈیوز شیئر کرنے پر پابندی عائد کی جائے تا کہ مزید خوف و ہراس نہ پھیلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments