انجینئیر محمد علی مرزا اور مدارس


مدارس، اسلامی و دینی تعلیمات کا واحد ذریعہ ہیں۔ مشاہدے سے یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ جو بچہ گھر میں سب سے زیادہ کند ذہن ہوتا ہے اور جس کے بارے والدین اور اساتذہ کا خیال ہوتا ہے کہ ”یہ بچہ انگریزی، میتھ، فزکس اور دیگر مضامین نہیں پڑھ سکتا“ اس بچے کو والدین مدرسے میں بھیج دیتے ہیں، یہ مدارس کا کمال ہے کہ وہی کند ذہن بچہ دو سال میں حافظ قرآن بن جاتا ہے اور مزید دس سال لگا کر عالم دین بن جاتا ہے۔ اکثریت کے ساتھ ایسے کند ذہن بچوں کو مدارس میں تعلیم بھی دی جاتی ہے اور ان کی بہترین تربیت بھی کی جاتی ہے۔

نامور علما دین جنہوں نے مغربیت، لبرل ازم اور سیکولر ازم اور دیگر گمراہ کن عقائد و نظریات کا رد کیا اور عوام الناس کو گمراہی سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا، مدارس ہی کی پیداوار ہیں۔ سالانہ مدارس سے لاکھوں حفاظ کرام، علما کرام اور ہزاروں مفتیان عظام تیار ہو کر نکلتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے میں اپنا اہم کردار ادا کرنے لگتے ہیں۔

ان مدارس میں کسی بچے سے کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی بلکہ طلبا کے علاج معالجہ، لباس اور خوراک کا انتظام بھی مدارس خود ہی کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے انہیں (مدارس کو) کوئی فنڈ دیا جاتا ہے نہ ہی ان کی ترقی کے واسطے اقدامات کیے جاتے ہیں بلکہ ہر آنے والی حکومت مدارس کو مزید مشکلات سے دوچار کرتی ہے، مگر مدارس کا نظام کبھی تعطل کا شکار ہوتا ہے نہ ہی مدارس کو چلانے والے علما کی زبان پر کبھی کسی قسم کا کوئی شکوہ ہوتا ہے۔

مختصر یہ کہ مذہبی و دینی تعلیمات کا رجحان اگر باقی ہے اور دین کی تبلیغ اور امت کے لئے ہدایت کا سامان اگر موجود ہے تو ان دینی مدارس ہی کی وجہ سے ہے۔ یہ ہی وہ واحد وجہ ہے کہ اسلام دشمن عناصر کو مدارس اور مولوی کے نام سے چڑ ہے اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ معاشرے سے مولوی اور مدرسہ کا وجود مٹا دیا جائے۔ چونکہ مولوی اور مدرسہ کا مٹانا ان لوگوں کے بس کی بات نہیں لہذا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، بلکہ منظم سازش کے تحت مدارس کو بدنام کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

اس مقصد (مدارس اور مولوی کو بدنام کرنے ) کے لئے ان اسلام دشمنوں نے دو نمبر مولوی تک ایجاد کر لئے ہیں۔ پروپیگنڈا کیے جا رہے ہیں اور ہر زیادتی کیس کو مدرسہ اور مولوی کے ساتھ نتھی کر کے عام عوام کو مدارس اور مولویت سے متنفر کر رہے ہیں۔ بلکہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بچوں کو مدارس اور مولوی سے دور رکھنے کی کھلے عام تلقین بھی کرتے ہیں۔ سازشی منصوبے کی ایک کڑی یہ ہے کہ دو نمبر مولویوں کے ذریعے دو نمبر مدارس کونوں کھدروں میں کھولے جاتے ہیں اور پھر ان مولوی نما حیوانوں سے گمبھیر منصوبے کے تحت بچوں پر جنسی تشدد کروایا جاتا ہے، الٹا لٹکوایا جاتا ہے اور ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کر دی جاتی ہیں، تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ مدارس اور مولویت سے نفرت کرنے لگیں۔

اس منظم سازش اور گمبھیر منصوبے کی دوسری کڑی ”محمد علی مرزا“ جیسے خود ساختہ علما دین ہیں، جو خود کو عالم دین بھی کہلواتے ہیں اور اسلامی معتبر شخصیات، اسلامی کتب، اسلامی نظریات و عقائد اور مدارس و مکاتب فکر کے خلاف نفرتوں کو ہوا بھی دیتے ہیں۔

”انجینئیر محمد علی مرزا“ کے ہی نظریات کو دیکھا جائے تو شیشہ منہ آگے آتا ہے اور حقیقت کھلتی ہے کہ مذکورہ نام نہاد عالم دین تمام مسالک و مکاتب فکر کو ٹچ کرتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ اب میرا کوئی مسلک نہیں اور مدارس کے خلاف واہیات باتیں کرتا ہے، کتب احادیث کو جھٹلاتا ہے اور صحابہ کے بارے عجیب نظریہ رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ: ”صحابہ مغفور نہیں ہو سکتے“ ۔

علاوہ ازیں مرزا محمد علی جیسے لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے علم کسی دینی درسگاہ سے حاصل نہیں کیا۔ انہوں نے جب علم دینی درسگاہوں سے حاصل نہیں کیا، تو کیسے ممکن ہے کہ یہ فسادی لوگ دینی درسگاہوں اور مولویوں سے اس قدر واقف ہو گئے کہ ان کے بقول:۔ ”مدارس میں بچوں کے ساتھ منہ کالا کیا جاتا ہے“ ۔ بہر حال سوشل میڈیا پر متحرک اس طرح کے خود ساختہ، نام نہاد اور دو نمبر علما سے خود کو محفوظ رکھنے واسطے علمائے حق، اہل سنت والجماعت سے جڑے رہنا چاہیے تاکہ گمراہ کن پراپیگنڈوں کے ناقابل تلافی نقصانات سے بچا اور دوسروں کو بچایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments