تنہائی کے ایک سو سال: جادوئی حقیقت نگاری سے بھرپور ناول


گزشتہ سال کولمبیا کے نوبل انعام یافتہ ناول نگار گبریل گارشیا مارکیز کے بیٹوں نے نیٹ فلکس کو مصنف کے مشہور ناول ’تنہائی کے ایک سو سال‘ پر ویب سیریز بنانے کے حقوق دیے۔ خبر پڑھ کر پہلے توحیرت ہوئی کیوں کہ مارکیز نے خود سیکڑوں فلم سازوں کی اس درخواست کو رد کر دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس ناول پر فلم بننا ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ بیس برسوں کے دوران میں نے اس ناول کو سندھی، اردو اور انگریزی زبان میں بارہا پڑھنے کی کوشش کی۔ لیکن ہر مرتبہ کرداروں کی بہتات، ملتے جلتے نام اور کہانی کے واقعات میں الجھ کرناول ادھورا ہی چھوڑنا پڑا۔ یہ خبر پڑھ کر ایک بار پھر بیسویں صدی کے اس عظیم ناول کو پڑھنے کا شوق دوبارہ جاگ اٹھا۔

یہ ناول دراصل ایک ناول نہیں بلکہ ایک داستان، ایک دیو مالا ہے جسے ایک بار شروع کرنے کے بعد کتاب بند کرنے کا دل نہیں کرتا ہے۔ ناول کی کہانی حوزے آرکادیو بوئندیا کی بسائی ہوئی ایک فرضی بستی ’ماکوندو‘ پر محیط ہے۔ یہ بستی بوئندیا گھرانے کی چھہ نسلیں دیکھتی ہے۔

بوئندیا گھرانے کے بزرگ حوزے آرکادیو بوئندیا بستی کو جدید دنیا سے روابط بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی بیوی ارسلا اپنے بیٹے کی تلاش میں بستی ماکوندو سے باہر کی دنیا سے روابط قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ ماکوندو سے باہر کا راستہ ملنے کے بعد ماکوندو تنہائی میں بسی ہوئی ایک بستی نہیں رہتی بلکہ ریاست کا حصہ بن جاتی ہے۔ حکومتی عملدا اروں کی گاؤں تک رسائی ہو جاتی ہے اور اس طرح گاؤں پر ریاستی احکام لاگو ہونے لگتے ہیں۔ حکومتی اداروں کی بنیاد پڑنے کے بعد ریاستی انتخابات، انتخابات میں دھاندلی، ترقی اور تنزلی پسند سیاست کا جھگڑا اور ملک میں پھیلی ہوئی خانہ جنگی بھی ماکوندو میں داخل ہو جاتی ہے۔ اسی باعث ماکوندو میں انسومنیا کی وبا پھیل جاتی ہے۔

بوئندیا خاندان کی تیسری نسل جب ریل کی پٹڑی کی بنیاد ڈالتی ہے تو یہ پٹڑی ماکوندو کے لوگوں کے لیے ترقی کے بجائے اجنبیوں کے لیے راستے کھول دیتی ہے۔ ایک سال کے اندر ہی ماکوندو کی ڈیموگرافی یکسر تبدیل ہو جاتی ہے اور مقامی لوگ اپنے ہی شہر میں خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ نئے بسنے والے لوگ مقامی مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں اور حقوق مانگنے پر ان کے سینے چھلنی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

اس کے بعد کہانی اپنے اختتام کی جانب بڑھتی ہے۔ جس ناول کو قاری اتنے پیار سے پڑھنا شروع کرتا ہے اسی ناول کو بھیگی پلکوں سے ختم کرتا ہے۔ بوئندیا خاندان کی چھٹی نسل میں سے اورلیانو نامی نوجوان اپنے پردادا کے جپسی دوست ملکیادیس کے لکھے ہوئے مسودے پڑھتا ہے۔ ملکیا دیس کی ماکوندو اور بوئندیا خاندان کے بارے میں کی ہوئی پیشن گوئیاں پڑھ کر اورلیانو کے ساتھ ساتھ قاری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔

ناول کے اہم کرداروں میں بوئندیا خاندان کے ہی افراد ہیں۔ میری اس رائے سے ہر قاری کو اختلاف رکھنے کا بھرپور حق حاصل ہے لیکن میرے خیال میں ناول کا سب سے زیادہ مضبوط کردارحوزے آرکادیو بوئندیا کی بیوی ارسلا کا ہے۔ جس کی کہانی پڑھ کر شاہ لطیف کی سورمیاں یاد آ جاتی ہیں۔ وہ نفسیاتی، سماجی، ثقافتی اور معاشی طور پر اپنے گھر اور اہل خانہ کا خیال کرتی ہے اور زمانے کی صعوبتوں کے آگے سر خم کرنے کے بجائے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرتی رہتی ہے۔

ان کے علاوہ ملکیا دیس نامی خانہ بدوش ہے جو کہ پوری دنیا کے متعدد چکر کاٹنے کے بعد اپنے دوست حوزے آرکادیو بوئندیا کے گھر بسیرا کرتا ہے اور تا حیات وہیں رہتا ہے۔ تاش کے پتوں کے ذریعے قسمت کا حال بتانے والی پیلار ٹرنرا جو بوئندیا خاندان کے دو بیٹوں کو جنم دیتی ہے۔ ڈیڑھ سو سال سے بھی زائد عمر پانے والی پیلار ٹرنرا کا انجام مصنف نے کمال کہارت سے کیا ہے۔

ناول کا سب سے اہم نقطہ تنہائی ہے جس کے گرد تمام ناول گردش کرتا نظر آتا ہے۔ بوئندیا خاندان کا ہر فرد چاہے وہ عورت ہو یا مرد تنہائی کا شکار نظر آتا ہے۔ حوزے آرکادیو بوئندیا سائنسی کھوجناؤں کے پیچھے اپنے آپ کو تنہائی کا شکار بنا لیتا ہے۔ ملکیا دیس کے لیے موت میں بسی تنہائی نا قابل برداشت ہوتی ہے۔ انسان تو انسان ناول میں بیان کی گئی بے جان اشیاء بھی تنہائی سے ماورا نہیں ہیں۔ بوئندیا ہاؤس، ماکوندو کے راستے حتیٰ کہ اسپینی جنگی جہاز بھی تنہائی کا شکار نظر آتا ہے۔

ناول کی تھیمز میں انسو منیا کی وبا، فراموشی، غیر مقامی باشندوں کی آمد اور ان کے مقامی لوگوں پر اثرات، ڈیمو گرافک تغیرات، خانہ جنگی، آبادیوں کا بسنا، ان کا عروج و زوال، جنگ کی لا یعنیت، ملکی سیاست، سیاسی نعروں اور وعدوں کی بنیادوں پرعوام کا استحصال کرنا شامل ہے۔

لوگوں کا سائنس کی جانب رجحان بھی پڑھنے کو ملے گا۔ مثلاً کہانی کے آغاز میں ملکیا دیس کا قبیلہ ہر بار ماکوندو کے باسیوں کو نئی سائنسی کھوجناؤں سے متعارف کرواتا ہے۔ جبکہ اس کے بعد آنے والے خانہ بدوشوں کے لیے اڑتے قالین فقط تفریح کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

مصنف نے مافوق الفطرت عناصر کو انتہائی خوبصورتی سے حقیقت سے ملا کر عالمی ادب میں جادوئی حقیقت نگاری کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ ناول آج بھی جادوئی حقیقت نگاری کے کلیدی کاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ پیلی تتلیوں کا کرداروں کے اوپر منڈلانا، خوبصورت ریمیڈیوس کا آسمانوں کی جانب اڑ جانا، کرداروں کے ایک دوسرے کے خواب دیکھنا وغیرہ۔ ان کے علاوہ بھی مصنف نے کئی دلچسپ واقعات قلم بند کیے ہیں جن کا تعلق جادوئی حقیقت نگاری سے ہے۔

ناول کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی تشریح مختلف معنوں سے کی جا سکتی ہے۔ کچھ افراد کی رائے ہے کہ یہ ناول قدرتی ذخیروں سے مالا مال ماکوندو پر جدیدیت کے اثرات پر روشنی ڈالتا ہے۔ جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ ناول لاطینی امریکہ کی خون خوار تاریخ پر مبنی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس ناول کو سمجھنے کے لیے ’اوپن وینز آف لیٹن امریکہ‘ کتاب کو پڑھنا لازمی ہے۔

ناول کی زبان کمال کی ہے اور مترجم نے بھی مصنف کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے قاری ندی میں تیر رہا ہے۔ کہانی پر مصنف کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ قاری کو کہیں بھی کہانی میں جھول محسوس نہیں ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ کہانی چھہ نسلوں کی متعدد کرداروں پر مشتمل ہے لیکن کہیں بھی کرداروں کے اعمال یا نفسیات میں یکسانیت نظر نہیں آتی۔ ہر کردار ایک منفرد نفسیاتی پہلو لیے ہوئے نظر آتا ہے۔ مصنف کے قلم میں وہ جادو سمایا ہوا ہے کہ پڑھتے وقت قاری کو کہانی کے کردار آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ ایک ہی کہانی میں اتنے سارے کرداروں سے انصاف کرنا ایک آرٹسٹ کے لیے ایک غیر معمولی کام ہے لیکن گیبو اس چیلینج کو بھی مہارت سے منہ دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

ماکوندو کو آپ ایک بستی، ایک گاؤں، ایک شہر، ایک ملک یا پھر ایک تہذیب سمجھیں۔ یہ اسی کے عروج و زوال کی کہانی ہے۔ کسی نے مجھے بالکل بجا کہا تھا کہ ’تنہائی کے ایک سو سال‘ پڑھنے کے بعدگیبو سے پیار ہو جاتا ہے۔ واقعی دنیا میں ایسے ناول بہت ہی کم لکھے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments