ماں جیسی کو بھی ماں کا دن مبارک


آج ماؤں کے عالمی دن پر جہاں میں اپنی والدہ کی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے نہ صرف میری تعلیم اور تربیت میں ایک اہم کردار ادا کیا بلکہ مجھے ایک اچھا انسان بنانے میں بھی میری مدد کی۔ وہیں مجھے ان تمام دیگر خواتین کا خیال بھی آیا جو کہ زندگی کے مختلف ادوار میں میری رہنمائی ایک ماں کی طرح ہی کرتیں رہیں اور میں ان کو ماں جیسا قابل احترام ہی سمجھتی ہوں۔ لیکن آج سے پہلے مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ مجھے ان کو بھی مدرز ڈے پر وش کرنا چاہیے۔

اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسی بہت سی خواتین دکھائی دیں گی جو ہماری حیاتیاتی مائیں نہیں ہیں لیکن ہماری جسمانی، ذہنی اور جذباتی نشوونما میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن کیا ہم بحثیت معاشرہ ان کو وہی مقام دے پاتے ہیں جس کی وہ واقعی حقدار ہوتی ہیں؟ میرا اپنا خیال ہے ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ ارتقائی طور پر اس مقام پر نہیں پہنچا جہاں انسانوں کو رشتوں کے تناظر سے ہٹ کر دیکھا جاتا ہو۔

میں اپنی ایک کولیگ کو جانتی ہوں جو بے اولاد ہیں۔ ان کی نند کے معاشی حالات کمزور تھے اور وہ گاؤں میں رہتی تھیں لہذا انھوں نے اپنے نند کے بچوں کو اپنے پاس رکھ کر ان کو پڑھایا لکھایا اور ان پر خرچ کیا۔ لیکن ان کے اس احسن قدم کو خاندان والوں نے سراہنے کی بجائے یہ کہہ کر نظر انداز کیا کہ اس کے کون سا بال بچوں کے خرچے تھے یا اس نے پیسا بچا کر کیا کرنا تھا اچھا کیا ثواب کما لیا۔ اب وہ بچے شادی شدہ ہیں اور اچھے عہدوں پر ہیں۔

ان کے والدین ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں لیکن ماموں اور ممانی کے لئے ان کے پاس نہ وقت ہے اور شاید نہ ہی شکر گزاری کیونکہ ان کے ماموں اور ممانی کو یہی کرنا تھا۔ معاشرے نے انھیں یہی سکھایا۔ یقیناً ان کو بھی بچوں سے کوئی امیدیں نہیں ہوں گی کیونکہ انھوں نے یہ سب بنا لالچ کے کیا لیکن کیا وہ اس کے بدلے ستائش اور محبت ڈیزرو نہیں کرتیں؟

اسی طرح میری ایک اور کولیگ ہیں جن کے بھائی اور بھابھی شادی کے کچھ عرصے بعد علیحدہ ہو گئے۔ والدہ چلی گئیں تو والد نے اپنے بیٹے کو بہن کے حوالے کر دیا کیونکہ ان کے لیے چھوٹے سے بچے کو سنبھالنا مشکل تھا۔ انھوں نے اس کو محبت سے پال پوس کر بڑا کیا لیکن ان کی شادی ہونے کے بعد سسرال والوں اور شوہر کے اعتراضات شروع ہو گئے کہ ”تم کون سا اس کی سگی ماں ہو“ وغیرہ۔ یعنی کہ کیا ماں ہونے کے لئے سگا ہونا ضروری ہے؟ اور جو اکشر سگی ماؤں کے اولاد پر ظلم و ستم کے قصے سننے میں آتے ہیں تو ان کو کیا یہ لائسنس صرف اس لئے مل جاتا ہے کیونکہ وہ سگی ماں ہیں؟

یہ وہ عمومی رویے ہیں جو بظاہر معمولی ہیں لیکن یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم احسان، محبت اور شفقت کے رویوں کا خیر مقدم نہیں کرتے اور نہ ہی ان کو اہم سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ بڑھتا ہے۔ بعض اوقات اسی وجہ سے رشتوں کا استحصال بھی کیا جاتا ہے اور ”جنت ماں کے قدموں میں ہے“ یا ”دودھ نہیں بخشوں گی“ جیسے جملے بطور ہتھیار بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ مامتا کا مطلب ایک بچے کی پیدائش اور پرورش نہیں ہے بلکہ مامتا ایک ایسا احساس ہے جس کے لیے حیاتیاتی ماں ہونے کی شق لگانا ضروری نہیں ہے۔ معاشرے میں موجود کتنی ہی بے اولاد مائیں مامتا کے احساس سے لبریز ہوتی ہیں اوران کے آس پاس کے بچے فیض یاب ہوتے ہیں۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ ماں جیسی خصوصیات رکھنے والی باقی سب ماؤں کا بھی خیال رکھا جائے۔ بلا شبہ لفظی طور پر اپنی حیاتیاتی ماں کا شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ ہمارے وجود کو دنیا میں لانے کا سبب بنتی ہے لیکن باقی سب مأٰوں کا کیا۔ وہ مائیں جو ہمیں سکولوں میں پڑھاتی ہیں اور ہم ان سے سیکھتے ہیں، یا پھر وہ مائیں جو کسی شعبے میں ہماری مدد گار ہوتی ہیں اور ہمیں ترقی کرنا سکھاتی ہیں یقیناً ہمیں ان کا بھی شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی دن منانا چاہیے یا نہیں نیک تمناؤں اور خلوص بھرے جذبات کو ظاہر کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اس سے خوشیاں اور تمناؤں بڑھتی ہیں۔ آپ بھی اپنا حصہ ڈالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments