بے جی (مدر ڈے کے موقع پر)۔


عام مشاہدے میں ہے کہ اکثر ساس بہو کی نوک جھونک لگی رہتی ہے۔ یہ سرد جنگ ازل سے ہے اور شاید ابد تک جاری رہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ عورت کو اکثر عدم تحفظ کا احساس رہتا ہے۔ آنکھ کھولتی ہے تو اس کی محبتوں اور شفقتوں کا محور اس کا باپ ہوتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس کی شادی ہو جاتی ہے، وہی لڑکی اپنے خاوند اور گھر کو کل کائنات کا درجہ دیتی ہے، اپنے خاوند سے توقع رکھتی ہے کہ وہ ہر حال میں اس کی عزت کا خیال رکھے گا اسے گھر میں ایک ملکہ کا درجہ دے گا۔

کچھ عرصے بعد اس کا یہ خیالی محل اس وقت زمین بوس ہو جاتا ہے جب خاوند کی آنکھوں سے خیالی دنیا کی عینک اترتی ہے اور وہ حقیقی دنیا سے نظریں ملاتا ہے۔ جہاں کئی مسائل اژدہے کی طرح منہ کھولے استقبال کر رہے ہوتے ہیں اور وہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے جت جاتا ہے ایسی حالت میں وہ جب وہ اپنے خاوند سے اس کا رویہ بدل جانے کی شکایت کرتی ہے تو بعض اوقات اسے جواب میں اپنے مجازی خدا کی طرف سے جلی کٹی سننا پڑتی ہیں۔ بات بڑھ بھی جاتی ہے، اختلافات جنم لیتے ہیں اور وہ قدرے مایوس ہوجاتی ہے۔ پھر اس کی تمام امیدیں اپنے بیٹے سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔ وہ اسے بڑی حسرتوں سے پروان چڑھاتی ہے۔ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو بھول کر اپنی تمام خواہشات اس پر قربان کر دیتی ہے۔

ماں اپنے بچے کی رگوں میں اپنے وجود کا عرق منتقل کرتی ہے۔ سرد راتوں میں اسے وفا کی لوریاں سناتی ہے۔ انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے۔ باپ کے غضب سے بچاتی ہے۔ خود برا بھلا سہتی ہے۔ پوری رات ٹریفک کے شورو غل میں بے فکر سوتی ہے لیکن بچے کی ذرا سی تکلیف پر اٹھ بیٹھتی ہے۔ خود بچے کی گیلی جگہ پر سوتی ہے اور اسے خشک جگہ پر سلاتی ہے۔ اسے وہ ایک طرح سے اپنی کل کائنات سمجھتی ہے۔ وہی بچہ جب اس کی نظروں کے سامنے ایک کونپل سے تناور درخت کا روپ دھارتا ہے تو اس کی شادی ہو جاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی کوکھ سے جنم لینے والا شاہکار کسی اور کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتا ہے، اس وقت اس کا جذبۂ رقابت جوش مارتا ہے تو پھر ساس بہو کی عالمگیر سرد جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔

میں دنیا کے ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جن کی ماں اور بیگم میں کبھی کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ بچپن میں ہی میری بیگم کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا تھا۔ اس نے میری ماں کو اپنی ماں کے روپ میں دیکھا اور شادی کے بعد اس کا یہ احساس محرومی رفع ہو گیا۔ دونوں میں حقیقی اور انمٹ محبت پروان چڑھی۔ مجھے ان کے اس جذبے پر رشک آتا۔ میری والدہ نے اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر میری بیگم کو پیار دیا۔ مجھے تب احساس ہوا کہ اصل بیٹیاں تو یہی ہوتی ہیں اپنی تو پرائی ہو جاتی ہیں۔

تعالیٰ نے انہیں طویل عمر دی اور متعدد امراض سے محفوظ رکھا لیکن اس کے باوجود دوائیاں شوق سے کھاتی تھیں۔ ان کے نزدیک وہی ڈاکٹر اچھا اور قابل ہوتا جو زیادہ سے زیادہ دوائیاں نسخے میں لکھتا۔

بے جی نے گھر کے ہر فرد کے لیے اپنا آرام قربان کیا ہوا تھا۔ انہیں کبھی کسی کی محتاجی کا سامنا نہیں رہا۔ پڑوس میں یا رشتہ داروں میں اگر کوئی کسی تکلیف میں ہوتا تو بے جی بہت بے چین ہو جاتیں یوں محسوس ہوتا جیسے یہ تکلیف ان کے وجود پر بیت رہی ہے۔ ہمارا گھر کنٹرول لائن سے نزدیکی فاصلے پر ہونے کی وجہ سے بعض اوقات رات کے وقت شدید فائرنگ ہوتی تو بے جی بہت پریشان ہو جاتیں، وہ کنٹرول لائن کے دونوں طرف موجود ماؤں کے بچوں کے لیے سلامتی کی دعائیں مانگا کرتی تھیں ان کا خیال تھا کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر دونوں طرف ہمارے بچوں کا خون بہا رہی ہیں، ہم بیوقوف ان کا آلۂ کار بن کر اپنی نسل کشی کروا رہے ہیں، جب تک فائرنگ بند نہ ہوجاتی انہیں چین نہیں آتا تھا تب مجھے احساس ہوتا کہ مائیں سب کی ایک جیسی ہی ہوتی ہیں نہ جانے ہم اپنے سینوں میں کیوں دشمنیاں پالتے رہتے ہیں۔

”یہی بات ہم سمجھے کبھی نہ
اپنی ہی گولی اپنا ہی سینہ ”

بے جی بہت حلیم الطبع تھیں انہیں غصہ بالکل نہیں آتا تھا اگر آتا بھی تو اس کا اظہار کرنا نہیں آتا تھا، ایک روز مجھے کسی وجہ سے ڈانٹنے لگیں ان کی ڈانٹ میں بھی اتنی معصومیت اور پیار تھا کہ مجھے بے ساختہ ہنسی نکل آئی میں نے انہیں اداکاری کر کے دکھایا کہ اولاد کو اس طرح ڈانٹتے ہیں تاکہ اس پر کچھ اثر ہو، میری اس اداکاری پر کھلکھلا کر ہنس دیں اور فرط محبت سے مجھے گلے لگا کر کہنے لگیں اس طرح تم اپنی اولاد کو ڈانٹا مجھ سے ایسی بدتمیزی نہیں ہوتی۔

میں نے کبھی ان کو اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا اگر ان کے سامنے کوئی اونچی آواز میں بات کرتا تو ہمیشہ در گزر کرتیں۔ میں آج تک یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہا کہ بے جی کو اولاد میں سب سے زیادہ پیار کس سے تھا ہر ایک پر جان چھڑکتی تھیں، جب بھی کوئی گھر سے نکلتا تو اس کی جیب، میں ٹافیاں یا خشک میوہ جات ڈال دیتی کہ یہ کھاتے ہو جانا ہم بھی بخوشی رکھ لیتے اور ان کی محبت کی یہ خوشبو ہمیں دیر تک ان کا احساس دلاتی رہتی۔

بے جی کو بہت سی کہانیاں ازبر تھیں۔ وہ ہمیں بچپن میں پاس بٹھا کر باقاعدہ کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ جن میں بلند ہمتی، پاکیزہ خیالی، آگے بڑھنے کا جذبہ اور اخلاقی تربیت ہوتی۔ آج بدقسمتی سے ہماری پہلی درس گاہ ویران ہو گئی ہے۔ ہم اپنی اولادوں کو دادی اماں اور نانی اماں سے دور کر کے مصنوعی روحانی غذا کے لیے، موٹیویشنل اسپیکرز کا سہارا لے رہے ہیں جس سے معاشرے سے سدھار تو کجا احساس کے رشتوں کے ساتھ ساتھ خونی رشتوں کا بھی خون سفید ہو رہا ہے۔ ہماری نئی نسل اسپائیڈر مین، سپر مین، اور بیٹ مین سے تو خوب واقف ہے لیکن رومی، سعدی اور اقبالؒ کے ناموں اور تعلیمات سے نا آشنا ہوتی جا رہی ہے۔ یہ نصاب پڑھانے والی پہلی یونیورسٹی ماں کی گود ہوا کرتی تھی۔

سردیوں کا موسم آتا تو بے جی اس کا پہلے سے اہتمام کر لیتی تھیں۔ دیسی مرغ کا سوپ، خشک میوہ جات جن میں خشک کیے ہوئے سیب، ناشپاتی، آلو بخارا، اخروٹ، بھنی ہوئی سوکھی مکئی، موٹھے سب کچھ شامل ہوتا۔ برف باری ہوتی رہتی اور ہم گھر میں ایک الاؤ کے پاس جمع ہو کر جگالی کرتے رہتے جس سے جسم کا درجہ حرارت برقرار رہتا اور سردی سے بھی لطف اندوز ہوتے رہتے۔ گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہوتی، اگر نکلتے بھی تو دور سے ایک آواز آتی۔

ٹوپی اور مفلر لے لو۔ ہم لے تو لیتے مگر باہر جا کر اکثر ٹوپی اتار دیتے۔ ٹوپی سے میری کبھی نہیں بن سکی۔ جب برف باری کے بعد سورج نکلتا تو دھوپ میں بیٹھ کر بے جی سلائی کڑھائی شروع کر دیتیں۔ نظر کی کمزوری کی وجہ سے خود ناخن نہیں تراشتی تھیں بلکہ یہ کام میرے ذمہ ہوتا تھا ”ناخن تراش“ لے کر میں بڑی محبت سے ناخن تراشتا اور اسی بہانے قدم بوسی کا موقع بھی ہاتھ آجاتا۔

بے جی کو پھلوں میں آلو بخارے اور خربوزے بہت پسند تھے لیکن اس کے علاوہ آم، سیب اور خوبانی بھی شوق سے کھاتی تھیں۔ بیماری کے دوران بڑی صابرہ رہتی تھیں۔ نزلے، زکام کا علاج تو وہ دیسی مکئی کے بھنے ہوئے دانوں کے کاڑھے سے ہی کر لیتی تھیں البتہ مرض زیادہ ہوتا تو ایلوپیتھی دوائیوں کا بھی استعمال کرتیں۔ سردیوں میں اکثر چولہے پر دیسی مرغ کی یخنی اور کاڑھا چڑھے رہتے اور ہر کسی کے لیے لازمی تھا کہ وہ رات کو سونے سے پہلے یہ مشروبات ضرور پیے گا۔

والد گرامی کی وفات کے بعد بے جی تنہائی کا شکار ہو گئیں۔ دونوں کی طبیعتوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ والد صاحب جلالی طبیعت کے مالک تھے جبکہ والدہ بہت متین اور صابرہ تھیں۔ میرے نزدیک یہ ایک بہترین جوڑا تھا۔ مرد کا واسطہ باہر کے معاملات سے زیادہ پڑتا ہے اس لیے اسے قدرے سخت گیر ہونا چاہیے ورنہ لوگ اسے موم کی ناک کی طرح اپنی طرز پر ڈھال لیں گے۔ اسی طرح اگر گھر میں ماں سخت گیر ہوگی تو بچے اپنے معاملات اسے نہیں بتائیں گے جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے جائیں گے۔

والدین کی طبیعتوں میں سختی اور نرمی کا امتزاج اولاد کے رویوں اور تربیت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ والد کی وفات کے بعد انہوں نے تمام معاملات اپنے سر لے لیے تھے اور ہمیں ہر طرح کی پریشانی سے دور رکھا۔ خوشی غمی میں شرکت، اقرباء کے معاملات، زمینوں کی نگرانی اور دیگر امور بہت خوش اسلوبی سے نبھائے اور ہمیں کبھی یتیمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔

بے جی برف باری سے پریشان ہو جایا کرتی تھیں۔ 23۔ جنوری 2019 ء کو صبح سے ہی برف باری کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ گھر پر تھیں۔ اپنے کمرے سے باورچی خانے میں آئیں، چائے کا ایک کپ طلب کیا اور اپنے بستر پر جا کر آرام سے ابدی نیند سو گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد دیکھا تو چہرے پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔

مجھے اطلاع ملی، موسم انتہائی خراب تھا پورا ملک دھند کی لپیٹ میں تھا ایسی صورتحال میں مسافت بھی طویل ہو جایا کرتی ہے۔ آخر بڑی مشکل کے بعد ہمت کر کے گھر پہنچا نماز جنازہ کا وقت ہو رہا تھا۔ پورے گھر پر ایک الم طاری تھا۔ افسردگی در و دیوار سے ٹپک رہی تھی۔ چہرے کا دیدار کیا تو مسکراہٹ رقصاں تھی۔ آج انہوں نے اپنا پسندیدہ آسمانی رنگ بھی نہیں پہنا ہوا تھا اس وجہ سے تھوڑی سی اجنبیت محسوس ہو رہی تھی، نہ ہی اپنے سر کی چادر کی پگڑی بنائی ہوئی تھی بلکہ سفید لباس میں ملبوس تھیں۔

سفید ہی دوپٹہ کسی نے بڑے قرینے سے چہرے کے گرد لپیٹ دیا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ شاید مخاطب ہوں لیکن خام خیالی تھی۔ میری پیشانی استقبالیہ بوسے کے لیے تڑپ رہی تھی وہ بوسہ جس کے پیشانی پر ثبت ہوتے ہی سارے سفر کی تھکان اور زمانے بھر کے اندیشے فرو ہو جاتے تھے۔ ایک عجیب بے حسی طاری تھی۔ ہونٹ مقفل تھے آس پاس سارا گھرانہ رو رہا تھا آج انہوں نے پہلی بار مجھے میرے نام سے مخاطب نہیں کیا تھا۔ میں بے بسی اور مکمل یتیمی کے احساس کے ساتھ سامنے بے بس بیٹھا رہا۔

نماز جنازہ کی تیاریاں شروع تھیں۔ وضو کے لیے اٹھا تو پنجرے میں ان کے پالے ہوئے پرندے اور بلیاں بھی افسردہ تھے۔ نماز جنازہ کے لیے جب گھر سے میت کو اٹھانے لگے تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کی آنکھ سے ایک موٹا سا آنسو نکلا اور ان کے گال کو چھوتا ہوا دم توڑ گیا یہ وہی گھر تھا جہاں وہ ڈولی میں بیٹھ کر آئی تھیں اسے اپنی محنت سے گل و گلزار بنایا تھا ایک خاندان کی بنیاد رکھی تھی چھوٹی چھوٹی کونپلوں کو پنپتے اور پھولتے پھلتے دیکھا تھا آج اسی گھر سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہی تھیں انھیں اپنے آخری سفر کا احساس ہو گیا تھا مجھے اس وقت احساس ہوا کہ روح پرواز کرنے کے کئی گھنٹے بعد بھی انسانی دماغ کام کرتا رہتا ہے۔

میری زندگی کے وہ مشکل ترین لمحات تھے جب میں نے جنازے کو کندھا دے کر قبر تک پہنچایا اس مختصر سے سفر کی ایک ایک سانس کرب ناک تھی۔ انہیں والد گرامی کی قبر کے ساتھ دفن کیا گیا۔ میرا دماغ ابھی تک ان کی جدائی کو قبول نہیں کر سکا۔ مجھے ابھی تک احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے کمرے میں موجود ہیں جاؤں گا تو ملاقات ہوگی لیکن کبھی کبھی اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اب مجھے دعائے نیم شب میں ہاتھ اٹھا کر یاد کرنے والا کوئی نہیں رہا۔

خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا۔
(اقبالؒ)
اللہ تعالیٰ بے جی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ (آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments