شاہد الرحمن: حرمت قلم کا خاموش پاسبان


وہ لشکر صحافت کا خاموش سپہ سالار تھا نمودونمائش سے کوسوں دور، خاموشی سے خدمت کرنے پر ایمان رکھتاتھا ان کا عزم سنگلاخ چٹانوں کی طرح ناقابل شکست تھا۔

شاہد الرحمن۔ پاکستان کی صحافتی ٹریڈ یونین کا ایسا گوہر نایاب تھے جسے کسی عہدے کی کبھی کوئی خواہش نہیں رہی کبھی سرخ گلاب گلے میں ڈالے نہ دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا لیکن جب وہ اچانک سفرآخرت پر رخصت ہوئے توعظمت ٹوٹ ٹوٹ کر ان پر برس رہی تھی ان کی مرقد کو مہکتے سرخ گلابوں نے ڈھانپا ہوا تھا

کرونا کی ظالم رت کے عروج پر اسلام آباد کے دور دراز قبرستان میں شاہد الرحمن کے چاہنے والے دیوانہ وار سلام وداع کے لیے پہنچے ہوئے تھے اس کالم نگار کو اس روز حقیقی معنوں میں اندازہ ہوا کہ شاہدالرحمن صحافتی حلقوں میں کس قدر مقبول اورہردل عزیز تھے برادرم شاہدالرحمن کو مرحوم لکھنے پر دل آمادہ نہیں ہے وہ دھیمے لہجے دل آویز مسکراہٹ نچھاور کرنے والے سنجیدہ مزاج ”نوجوان بزرگ“ تھے ساری زندگی تین سے چار اداروں میں گزاری اعلے پایے کی تین شاندار کتابیں لکھ کر سفر آخرت کو روانہ ہوئے۔

کہتے ہیں کہ صحافتی سفر کا آغاز کراچی کے انگریزی اخبار Evening Special سے کیا تھا جو مدتوں پہلے مرحوم ہوچکا تھا پھر نجی شعبے میں کام کرنے والی پہلی نیوزایجنسی پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) سے وابستہ ہوگئے۔ اور جاپان کی کیوڈو نیوز ایجنسی سے ایسا دل لگایا کہ پھر سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھنا تک گوارا نہ کیا

”شاہد نے شاید پاکستان ٹائمزمیں بھی کام کیا ہوگا“ ان کے ہم دم دیرینہ اورآبروئے صحافت ایم ضیا الدین بتارہے تھے کہ شاہد الرحمن، مرحوم برکی صاحب کے حوالے سے کبھی کبھار باتیں کیا کرتے تھے ایم ضیا الدین سلف اسلاف کے دورکی پر شکوہ یادگار ہیں انگریزی صحافت کا مینار نور، دونوں بڑے انگریزی اخبارات دی نیوز اور ڈان کے ایڈیٹررہے اپنے دوست شاہد الرحمن کا نقش جمیل ہیں کم گو اور دھیمے لہجے میں بات کرنے والے سنجیدہ مزاج ماہر معیشت ایسے کہ پیچیدہ گتھیاں چٹکیوں میں حل کردیتے ہیں. ضیا صاحب اورشاہد الرحمن مرحوم نے ایک غیررسمی مجلس بزرگان کے تحت ہفتہ وار خطبات کاسلسلہ شروع کررکھا تھا نیشنل پریس کلب کی لائبریری میں چوٹی کے ماہرین کو مدعوکیا جاتا ہے یہ ہفتہ وار لیکچرز کسی طور پر بھی خطبات بہاولپور سے معیارمیں کم نہیں ہیں۔

شاہد الرحمن تواچانک چلے گئے لیکن پیچھے یادوں کی کہکشاں چھوڑ گئے وہ ایسے نفیس طبع اور سلیقہ شعار تھے کہ لکھنوی تہذیب کا رکھ رکھاو ان میں مجسم دکھائی دیتا تھا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ پٹیالہ کے جنگجو وریاہ راجپوتوں کے چشم وچراغ ہوں گے اس کالم نگار کا خیال بھی یہی تھا کہ وہ شاید راجپوتی خون کا جاہ وجلال بھول بھال چکے تھے نمازجنازہ اورتدفین کے مراحل کے دوران برادرم نسیم الرحمن نے یہ انکشاف کرکے ششدرکردیا کہ بھائی شاہدالرحمن ہمیشہ انہیں ’ملک‘ صاحب کہہ کر پکارا کرتے تھے کہ انہیں سب کچھ یاد تھا اپنے نسیم الرحمن، وزیراعظم عمران خان کے غریبوں کے لئے منفرد پناہ گاہ منصوبے کے نگران اور رابطہ کار ہیں۔ جناب شاہد الرحمن تلونڈی ملک ریاست پٹیالہ کے اپنے عظیم آبا و واجداد بھلا نہیں پائے تھے جنہیں ملک کا خطاب ملا تھا شاہد الرحمن نے اعلی پائے کی تین کتابیں ورثے میں چھوڑی ہیں جن میں سے ایک ‏Long Road to Chaghai پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خطرناک موضوع کامکمل احاطہ کرتی ہے یہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر شائع ہونے والی واحد مستند کتاب ہے وہ بابائے ایٹم بم محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخاں کے بہت قریب تھے

دوسری کتاب ‏Who Owns Pakistan پاکستان کے اصل مالک 22 خاندانوں کی وارداتوں اورسرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اورآخری کتاب، نوحہ ہے ‏Pakistan Sovereignty Lost پاکستان کی شان وشوکت سے محرومی کا، قرضوں کے عوض اپنی خود مختاری کو رہن رکھنے کی کہانی ہے وہ سفارتی وقائع نگاروں کی ایسوسی ایشن کے بانی اورگزشتہ ایک دہائی سے اس کے سرپرست تھے۔

مدتوں پہلے اس کالم نگار کو شاہد الرحمن جیسے نفیس آدمی سے جڑی اپنی Blood Line ‎کا علم ہوچکا تھا لیکن بات رسمی تعلقات سے آگے صرف اس لیے نہ بڑھ سکی کہ کہاں خاکسارایک کندہ ناتراشیدہ ’کھردرے دیہی مزاج کا حامل ایسا اخبارنویس جو آج بھی پنجابی بولنے کوترجیح دیتاہے اس لیے حجاب مانع رہا کہاں اردو ادب اور شاعری کہاں عارف کھڑی شریف میاں محمد بخشؒ کی سیف الملکوک پر فریفتہ و شیدائی اس کالم نگار نے ایک دور میں اپنی متنوع مہم جوئیوں کا مرکز امرتسر، پٹیالہ اورنئی دہلی کو بنالیا تھا فرصت ملتے ہی موقع پاکر نئی دہلی کے یوتھ ہاسٹل میں جا ڈیرے لگاتا جہاں مسلسل 10 روز ٹھہرنے کی گنجائش ہوتی ہے وہاں جناب رائے ریاض حسین کی شاہانہ نوازشات سے لطف اندوز ہوتاجوان دنوں نئی دہلی ہائی کمیشن میں پریس منسٹر ہوتے تھے چانکیہ پوری کے سفارتی علاقے میں یوتھ ہاسٹل کے باہر رائے صاحب کی سفارتی نمبر پلیٹ والی گاڑی مع ڈرائیور سارا دن میری منتظر ہوتی تھی ایک دوپہر کالم نگار وہاں کے معروف ریسٹورنٹ پہنچا تو دیکھا شاہد الرحمن دودرجن رپوٹروں کے ہمراہ ظہرانے سے الجھے ہوئے تھے مجھے غیر متوقع طورپر وہاں دیکھ سب ساتھیوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی بھائی شاہد الرحمن نے استفسار کیا‘ کہاں گھوم رہے ہو، کیا ہو رہا ہے؟

چشم زدن میں نے فیصلہ کرلیا کہ راجپوتی خون کا کنکشن بے نقاب کر دیا جائے۔ انہیں بتایاکہ پٹیالہ گیا تھا، پوچھا وہاں کیا کرنے گئے بتایا ایک گاؤں تلونڈی ملک دیکھنے گیا تھا اپنے آبائی گاؤں کانام سنتے ہی انہیں احساس ہو گیا معاملہ کچھ ایسا سادہ بھی نہیں ہے اور پھر عظیم وریاہ راجپوت سورماؤں کی داستان شجاعت کے ساتھ ساتھ تلونڈی ملک کی ان کے جد امجد سے منسوب روایات نے اجنبیت کی تمام دیواریں پلک جھپکنے میں مسمارکردیں لیکن طبعیتوں اور مزاج کے بعد الطرفین نے تعلق خاطر میں گرم جوشی اور بے ساختگی نہ پیدا ہونے دی.

‎لیکن جماعت الدعوۃ کے امیر اور اب امریکہ کے اسیر حافظ سعید کے ایک پیغام نے کھیل کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا، زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، شاہد الرحمن کا براہ راست اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا ہوا کچھ یوں کہ حافظ صاحب کا ایک معاون اپنے کسی ساتھی کی مدد کا پیغام لے کر آیا جو قبضہ گروپوں کی چیرہ دستیوں کا شکار تھا. بعدازاں علم ہوا کہ رانا عبدالشکور خاں ہمارے علاقے کی مشہور ومعروف لندن بیکرز کے مالک ہوتے ہیں، موصوف پی ڈبلیو ڈی ہاؤسنگ کالونی سوسائٹی کے مسلسل 12 سال سے فنانس سیکریٹری منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں حافظ سعید نے قبضہ گروپوں کے حوالے سے ان کی مدد کرنے کو کہا تھا رانا صاحب نے بتایا کہ وہ میڈیا ٹاؤن سوسائٹی کے عہدیداروں سے بھی گہرے مراسم رکھتے ہیں وہیں معلوم ہوا کہ رانا عبدالشکور خان ہمارے برادرمحترم شاہد الرحمن کے سمدھی ہیں یہ عجیب اتفاق تھا.

‎اسی اثناء میں میڈیا ٹاؤن سوسائٹی کے سالانہ اجلاس عام اے جی ایم کے موقع پر راناعبدالشکور خان اپنے دوستوں سے ملنے آئے تھے کہ چند بچوں کے تنازعے میں ککی گینگ نے اس کالم نگار پر بے بنیاد مقدمات درج کرا دیئے اور رانا عبدالشکور خان کو الجھانے کی کوشش کی اس حادثے نے شاہد بھائی کو یک دم اس کالم نگار کے ”عنقریب“ کر دیا جبکہ ککی قصائی کی اس حوالے سے نیشنل پریس کلب میں بے سروپا تقریر نے رہی سہی کسر پوری کردی جس کے بعد شاہد الرحمن سے فون پر گفتگو معمول بن گئی انتقال سے دودن پہلے سرشام ان کی کال آئی بڑے خوشگوار موڈ میں تھے پوچھا کرونا کہاں گزار رہے ہو بتایا گنگا ہل سٹیشن پر ہوں اور میڈیا ٹاؤن کے اے بلاک میں ان کے ہم دم دیرینہ جناب ضیا الدین گھرسے چند قدم کے فاصلے پر پرانے اخبارنویس ساتھی اور اب ریاست آزاد جموں کشمیر کے وزیر اطلاعات مشتاق منہاس کے زیرتعمیر مکان گنگا ہاؤس کے پچھواڑے لوئی بھیر جنگل میں وسیع و عریض مٹی کے ایک ٹیلے کو گنگا ہل سٹیشن کا نام دے رکھا ہے بہت خوش ہوئے اور یہاں دورہ کرنے کی خوش خبری سنائی اور ایک رات کے وقفے کے بعد دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسے سفر پر روانہ ہو گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹا۔

آخری دنوں میں اس کالم نگار کا اصرارتھا کہ ان حساس معلومات پر تینوں کتب کا اردو رواں ترجمہ کیاجائے جس کے لیے جناب شاہد الرحمن آمادہ و تیارتھے جو اب مجھ پر قرض بن چکا ہے. وہ مدتوں پہلے اجنبیوں کی طرح ملے تھے جب رخصت ہوئے تو ملک شاہد الرحمن خان تھے پٹیالہ کے وریاہ راجپوتوں کاروشن اورمہذب چہرہ جس کے ذکر بھی ان سے کبھی نہ سنا تھا.

الوداع شاہد الرحمن الوداع

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments