بھارت، طالبان اور امریکی ثالثی


29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہوئے معاہدے سے تقریباً دوہفتے قبل بھارتی فضائیہ کے ایک طیارہ نے کابل ایر پورٹ پر لینڈ کیا۔ اس طیارہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک دست راست صدر اشرف غنی کے لئے ایک خصوصی پیغام لے کر آئے تھے۔ اسی رات واپس دہلی پہنچ کر افسر اعلیٰ نے وزیر اعظم کو مشن کی کامیابی کی اطلا ع دید ی۔ امریکہ و یورپ سمیت پڑوسی ممالک نیز افغانستان کی سیاستی جماعتیں توقع کر رہی تھیں کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کے طے ہونے تک افغانستان کا الیکشن کمیشن انتخابات کے نتائج کا اعلان نہیں کرے گا۔

اس کو بھی ایک طرح سے پس پردہ ڈیل کا حصہ مانا جا رہا تھا، تاکہ معاہدہ کے بعد افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے میں مدد مل سکے۔ حکومتی حلقوں کو نئی دہلی میں خدشہ تھا کہ دوحہ معاہدے کے بعد امریکہ اور دیگر طاقتیں، یا تو افغانستان میں ا ز سر نو انتخابات کروانے پر زور ڈالیں گی یا طالبان کو وسیع البنیاد حکومت میں حصہ لینے پر آمادہ کروالیں گی۔ لہذا اس کو سبو تاژ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ موجودہ صدر اشرف غنی کو قانونی اور آئینی حثیت حاصل ہو۔

کیونکہ آثار و قرائن بتا رہے تھے کہ دوحہ ایگریمنٹ کے بعد کابل انتظامیہ کسی قانونی اور آئینی حیثیت کے بنا عضو معطل بن کر رہ جائے گی۔ مذکورہ بھارتی افسر کے کابل دورہ کے اگلے ہی دن یعنی 18 فروری کو افغانستان کے الیکشن کمیشن نے پانچ ماہ کے التوا کے بعد اشرف غنی کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کا اعلان کر دیا۔ ستمبر میں ہوئے ا ن انتخابات میں غنی نے 50.64 فیصد ووٹ حاصل کرکے دوسری بات صدر کے عہدے پر قبضہ کر لیا۔

ان انتخابات کے حوالے سے بھارت کے ایک اور معتمد حامد کرزئی تک نے خبردار کیا تھا کہ ان کے نتائج افغانستان کے لئے مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔ افغانستان کی 35 ملین آباد ی میں 9.6 ملین افراد نے اپنے آپ کو بطور ووٹر رجسٹر کروالیا تھا۔ جس میں تقریباً ڈھائی ملین افراد نے ووٹنگ میں حصہ کیا۔ ان میں صرف 1.8 ملین ووٹ ہی گنے گئے، جبکہ باقی کالعدم قرار دیے گئے۔ اشرف غنی کو 9.2 لاکھ ووٹ ملے جبکہ ان کے قریبی حریف عبداللہ عبداللہ کو 7.2 لاکھ ووٹ ملے۔

ایک طرح سے اشرف غنی کو رجسٹرڈ ووٹروں میں سے محض 9.6 فیصد ووٹ ملے۔ افغانستان کی 35 ملین آبادی میں ان کو صرف 2.6 فیصد عوام کی پذیرائی حاصل ہے۔ یہ وہی حسا ب ہے جس کی رو سے 1996 کے بعد سے جموں و کشمیر میں حکومتیں معرض وجود میں آکر عوام کے سینوں پر مونگ دلتی رہی ہیں۔ خیر کابل میں سکھ گوردوارہ میں بم دھماکہ، تشدد کے واقعات اور کابل انتظامیہ کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی میں لیت و لعل کرنے سے امریکہ کو احساس ہوگیا ہے کہ افغانستان میں بھارتی مفادات کا ادراک کیے بغیر امن کی بحالی تقریباً ناممکن ہے۔

بھارت اس وقت اشرف غنی کی حکومت اور اس کی اینٹلی جنس ایجنسی کے پیچھے چٹان کی طرح کھڑ ا ہے۔ بھارت نے ابھی تک بظاہر افغانستان کے سکیورٹی معاملات سے الگ رہ کر تعمیر و ترقی و مالی امداد پر توجہ مرکوز کی ہے، تاکہ افغان عوام کی پذیرائی حاصل کرکے طالبان کو اقتدار سے دور رکھا جائے۔ 2001 سے لے کر اب تک بھارت نے اس ملک میں تقریباً تین بلین ڈالر کی رقم صرف کی ہے۔ رواں مالی سال میں بھی بھارتی بجٹ میں افغانستان کے لئے چار بلین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

لہذا یہ تقریباً ناممکن تھا کہ بھارتی ادارے اتنی جلدی کابل حکومت کو طالبان یا کسی بھی پاکستان دوست حکومت کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ کر ہاتھوں پر ہاتھ دہرے بیٹھ جاتے۔ ان سبھی ایشوز کو لے کر امریکہ کو بھی تشوش لاحق ہے۔ اسی لئے اس وقت جب پوری دنیا لاک ڈاؤن کی زد میں ہے اور بین الاقوامی پروازیں معطل ہیں کہ ایک خصوصی امریکی چارٹرڈجہاز کے ذریعے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایلچی زلمے خلیل زاد دہلی آن پہنچے۔ جہاں انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال سے ملاقاتیں کیں۔

بتایا جاتا ہے کہ امریکی ایلچی نے بھارت کو باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ طالبان کے تئیں اپنے رویہ میں نرمی لائیں اور بتایا کہ طالبان افغانستان کی ایک حقیقت ہے اور ان سے بیزاری اور ان کو زبردستی کابل اقتدار سے دور رکھنادانشمندی نہیں ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق خلیل زاد نے مشورہ دیا کہ پڑوسی ممالک روس، چین، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کی طرح بھارت بھی طالبا ن کے ساتھ براہ راست تعلقات استوار کرکے اپنے خدشات براہ راست ان کی لیڈرشپ کے گوش گزار کرالے۔

ایک طرح سے خیل زاد نے طالبان اور بھارت کے مابین ثالثی اور ان کے درمیان سلسلہ جنبانی شروع کرنے کی کوشش کی ہے۔ نئی دہلی میں امریکی سفارت خانہ نے کثیر الاشاعت روزنامہ دی ہندو کے ساتھ خلیل زاد کے ایک انٹرویوکا بھی بندوبست کیا تھا۔ جس میں انہوں نے طالبان کے ساتھ معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کا کوئی متبادل نہیں تھا۔ بھارت کو خدشہ ہے کہ دوحہ ایگریمنٹ کی وجہ سے خطے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا وقار بحال ہوا ہے۔

پچھلے پانچ سالوں سے پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی سفارتی کوششوں کو بھاری دھچکا لگا ہے۔ علاوہ ازیں بھارت ہمیشہ افغانستان کے معاملات کو کشمیر میں جاری جدوجہد کے ساتھ منسلک کرتا آیا ہے۔ نئی دہلی میں افسران کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جب بھی پاکستان کے تئیں نرم گوشہ رکھنے والی حکومت مسند اقتدار پر برا جماں ہوئی ہے، تو کشمیر میں اس کا براہ راست اثر دیکھنے کو ملا ہے۔ کشمیر کے ایک سابق گورنر جگ موہن 1989 میں برپا عوامی بغاوت اور بعد میں عسکری جدوجہد کے آغاز کو افغانستان میں سوویت افواج کی شکست سے منسلک کرتے آئے ہیں۔

اسی طرح 1996 سے 2001 کے درمیان طالبان حکومت کے دوران کشمیر میں عسکری کارروائیوں میں تیزی آ گئی تھی اور اسی دوران کرگل جنگ بھی برپا ہوگئی۔ ذرائع کے مطابق ان سبھی خدشات کو لے کر ہی بھار ت کی خارجی خفیہ ایجنسی را کے سربراہ سامنت گوئل نے پچھلے سال 5 جولائی کو وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقا ت کی اور ان کو مشورہ دیا کہ امریکہ۔ طالبان معاہدے کے ظہور میں آنے سے قبل ہی جموں و کشمیر کے سلسلے میں سخت فیصلہ کرلیں۔

اس کے ایک ماہ بعد ہی بھارتی پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نہ صرف اس کی آئینی خصوصی حثیت ہی ختم کردی، بلکہ ریاست کو ہی تحلیل کرنے اس کو مرکزی انتظام والا علاقہ بنادیا۔ ان ذرائع کے مطابق را کے سربراہ نے دلیل دی تھی کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد کشمیر میں حالات کنٹرول سے باہر ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ڈیل کے بعد بطور انعام امریکہ، پاکستان کی اقتصادی اور ملٹری امداد بحال کرے گا۔ اس وقت امید تھی کہ دوحہ مذاکرات ستمبر 2019 کو ہی مکمل ہو جائیں گے۔ (جاری ہے )
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments