وحدت الوجود۔ ۔ ۔ فلسفہ، نظریہ یا مشاہدہ


ماننے سے جاننے کا عمل مشاہدہ ہے۔ صاحبان مشاہدہ۔ اولی الالباب۔ بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت رکھنے والے۔ سر کی آنکھوں کے علاوہ دل کی آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے رب نے کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی۔ اگر نگاہ حق سے دیکھا جائے تو کچھ بھی باطل نہیں۔ اگر خلق کی نگاہ سے دیکھیں تو حق و باطل کی آویزش دکھائی دیتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اہل مشاہدہ اس کائنات کو مخلوق کی نگاہ سے نہیں بلکہ خالق کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ بچہ بن کر دیکھیں، تو بھائی بہنوں میں اختلاف نظر آئے گا، کوئی شریف اور کوئی شرارتی دکھائی دے گا، شریف بمقابلہ شریر بحثیں ہوں گی، ماں کی نگاہ سے دیکھیں تو سب اسی کے ہیں، سارے ہی پیارے ہیں، ماں کی نگاہ رحمت و ربوبیت میں سب ہی راج دلارے ہیں۔ اس کی آنکھ کے تارے ہیں۔

کلمہ ایک عجب راز ہے، یہ کلمہ گو کے اندر ایسا شعور بیدار کر دیتا ہے، جسے غیر کلمہ گو نہیں پا سکتا۔ شعر و ادب کی دنیا میں اس کی مثال ایسے ہے، جیسے ایک شعری ذوق سے متصف شعور غالب و ذوق کا ہمنوا ہوجاتا ہے، لیکن کور ذوق، غالب کی غزل سرائی کو احمق کی بڑ تعبیر کرتا ہے۔ کلام مجید میں بتادیا گیا کہ شہید کو مردہ تصور نہ کرو، یہ زندہ ہیں مگر تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے۔ شہید شہادت سے ہے، شہادت مشاہدے سے ملتی ہے۔ عینی شاہد ہی شہادت دے سکتا ہے۔ سنی سنائی بات کرنے والا کبھی گواہ نہیں ٹھہرایا جاتا۔ جب تک کوئی عینی شاہد نہ ہو، مقدمہ قائم نہیں ہوتا۔ معرفت کا مقدمہ بھی عینی شاہدوں پر قائم ہے۔

مراد یہ کہ کسی بھی علم کا اعتبار مشاہدے کے ساتھ ہے، مشاہدے کے بغیر لائبریریوں سے اٹھایا گیا علم تنقید کی تلچھٹ تو دے سکتا ہے، تخلیق کا جوہر نہیں۔ تخلیق اوراس کے مشاہدے کے لئے تخلیق کار کا ہمنوا ہونا لازم ہے۔ اس لیے جو لوگ صاحبان مشاہدہ سے تمسک نہیں رکھتے، وہ وحدت الوجود کی حقیقت کے شاہد نہیں ہوسکتے۔

جس طرح ادیبوں کے کام اور کلام کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اوریجنل کام کو دیکھا جائے، محض نقادوں کے تبصرے پڑھ کر رائے قائم نہ کر لی جائے، اسی طرح وحدت الوجود کے متعلق جاننے کے لئے ضروری ہے کہ اہل معرفت سے براہ راست کلام کیا جائے، جن کا مشاہدہ ہے، انہی سے سنا جائے۔ صاحبان معرفت جب علم الیقین کی ریاضت اور عین الیقین کی عبادت سے گزر کر حق الیقین کی وادی میں متمکن ہوتے ہیں تو اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں۔ اہل معرفت پر یقین سے دور اور ان کے علم سے محروم لوگ اس کے سوا اور کوئی راہ نہیں پاتے کہ ان پر نقد کریں ا ور فتاوائے کفر صادر کر دیں۔

وحدت الوجود کے پے در پے مشاہدات کو تاریخ میں پہلی بار قلم بند کرنے کا شرف شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کو حا صل ہوا، وحدت الوجود کے درک کے لئے، یا کم ا ز کم اس کا علمی ذائقہ چکھنے کے لئے ہمیں شیخ اکبرؒ کے پاس جانا ہوگا، ناں کہ انہیں کافر اعظم کہنے والوں کے پاس! اپنے معلوم علم پراندھا دھند بھروسا کچھ دیر کے لئے چھوڑنا پڑتا ہے۔ کسی صاحب علم پر بھروسا کرنا پڑتا ہے۔ کسی نئے زاویۂ علم سے روشناس ہونے کے لئے! مشاہدے کے لئے لازم ہے کہ اس کی آنکھ میں دیکھا جائے یا اس کی آنکھ سے دیکھا جائے۔

خیر اور شر سے بلند ایک فصیل ہے، جسے مقام اعراف کہتے ہیں۔ اعرا ف پر متمکن عارفین نے دیکھا کہ دونوں طرف کی قوتیں ایک ہی ذات کے اذن سے مصروف عمل ہیں۔ یہ منظردیکھ کر انہوں نے دبے لفظوں میں کہا کہ دونوں فوجیں سرکاری ہیں۔ چت بھی اس کی پت اس کی۔ اس کا منصوبہ ہر حال میں مکمل ہے۔ کبھی وہ نور کو پردۂ غیب میں لے جاتا ہے اور ظلمت کو نمایاں ہونے کا موقع دیتا ہے، کبھی ظلمت کوسوئے عدم لے جاتا ہے اور نور کو مشہود کرتا ہے۔

بہرحال دن اور رات کی طرح انسانوں اور قوموں کے درمیان ایام کا الٹ پھیر اسی کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔ وہ ایک طرف شیر میں گوشت خوری کی سرشت پیدا کرتا ا ور دوسری طرف آہو کے گوشت پر پوست چڑھاتا ہے۔ وہ ایک ہے۔ اور دوئی سے پاک ہے۔ اس کے عارف کی نگاہ بھی دوئی سے پاک ہوتی ہے۔ دوئی سے پاک آنکھ خلق میں بھی دوئی نہیں دیکھتی۔ یکسوئی میں محوہونے کے سبب بسا اوقات اس سے نصا ب کے تقاضے فراموش ہو جاتے ہیں۔ نصاب کے پیمانوں میں تولنے والے اسے خسارے میں تولتے ہیں، وہ اس کے بیان کا تجزیہ کرتے ہیں، کہیں غلط گمان کرتے ہیں، کہیں اپنے گمان میں درست ہوتے ہیں۔

وحدت الوجود کا بیان جب بھی نشر ہوا، خیر والوں کی طرف سے ہوا، شر کے کیمپ میں پناہ گزیں، وحدت الوجود کے شعور کی سرحد سے کوسوں دور ہیں۔ اس لیے اہل نصاب خاطر جمع رکھیں، وحدت الوجود خیر و شر کو باہم خلط ملط نہیں کرنے کا۔ خالق اور مخلوق کہیں حلول نہیں کرتے۔ وحدت الوجود۔ بنیادی طور پر بیان توحید ہے۔ یہاں حلول، اشتمال، اتصال ا ور اشترا ک ایسے تصورات کا گزر نہیں۔ یہ سب شرک کی ذیل میں آتے ہیں۔ شیخ اکبرؒ آغاز ہی میں ایک بنیادی اصول طے کر دیتے ہیں کہ بندہ، بندہ رہے گا خواہ کتنا بھی عروج کرے، اور رب رب رہے گا، خواہ کتنا ہی نزول کرے۔

وحدت الوجود جزا اور سزا کے قانون کو معطل نہیں کرتا۔ اذن اور امر میں فرق ہے۔ شر کو اذن حاصل ہے کہ وہ اسباب کی دنیا میں خیر کو زیر کر سکتا ہے لیکن اس نے اپنے اولی الامر کے ذریعے انسان کو خیرکا راستہ اختیار کرنے کا امر دے رکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس کے امر کی تعمیل میں خود کو مصروف مجاہدہ کرتا ہے، اور کون کج بحث اپنی گمراہی کو اس کے اذن سے منسوب کرکے اطاعت سے راہ فرار اختیار کرتا ہے۔

بہرطور وحدت الوجود کوئی تعلیم نہیں، کوئی تعلیمی نصاب نہیں، ترتیب میں آنے والا بیان نہیں، بلکہ عشق حقیقی کے کیف میں ڈوبی ہوئی مشاہدے کی ایک داستان ہے۔ عشق کی طرح اس کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے، جو تن لاگے، سو تن جانے!

ڈاکٹر اظہر وحید
Latest posts by ڈاکٹر اظہر وحید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments