جاوید جبار بلوچستان کے معاشی مفاد کا تحفظ نہیں کر سکتے


عجب تماشہ ہے ملک میں کرونا کی روز بروز پھیلتی وبا کے موثر تدارک کے لیے پارلیمنٹ کے ذریعے وسیع تر اتفاق رائے سے متفقہ فیصلے کرنے کے لیے اجلاس جاری ہے۔ جس میں جناب وزیراعظم تشریف نہیں لائے۔ خیر اس عمل سے ان کی انائیت پسندی اور تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت کے فقدان کا اظہار ہوتا ہے۔۔ لیکن 13 مئی کو نماز ظہر سے پہلے جب سابق وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی انتہائی منجھے ہوئے پارلیمانی لب و لہجے اور معقول دلائل کے ساتھ خطاب کر رہے تھے تو میڈیا پر خبر چل گئی کہ مرکزی حکومت نے لاک ڈاؤن میں مزید نرمی لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر قومی اسمبلی کو پالیسی سازی یا فیصلے کا موقع ہی نہیں دینا تھا تو اس کے لیے بے مقصد اجلاس طلب کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ حکومت کے طرز عمل سے ایک بار پھر یہ سوال موضوع بحث بنتا ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوری طرز حکمرانی چل رہی ہے یا اس نام پر ایک بونا پارٹ ازم مسلط ہے؟ (جسے میں ایک سال سے آذریت کہہ رہا ہوں۔)

منگل کی شب ایک چینل پر جناب علی نواز اعوان صاحب جو پی ٹی آئی کے ایم این اے ہیں اور بے تکان آئیں بائیں شائیں والے الزاماتی بھاشن دینے میں خوب ملکہ رکھتے ہیں۔ تسلیم کر گئے کہ حکومت نے کبھی بھی کرونا سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن پالیسی کی حمایت نہیں کی تھی۔ اپنی ترنگ میں جو کچھ فرما گئے وہ حیران کن حد تک تلخ حقیقت۔۔۔ مگر تشویشناک بات تھی۔ جناب علی نواز اعوان نے حکومت کے حلقے کی داخلی ذہنی کیفیت کو افشا کیا ہے۔ آپ اسے ہزار بار بچگانہ طرز فکر قرار دیں مگر یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جو جناب عمران خان کا اصلی ویژن ہے۔ تاہم علی اعوان صاحب بھول گئے کہ جب حکومت لاک ڈاؤن کرنے پر کبھی متفق رہی نہیں تو پھر پنجاب بلوچستان اور کے پی میں کس کے ایما، اصرار یا ”حکم” پر لاک ڈاؤن نافذ ہوا تھا؟ وہ بھی وزیراعظم کے فیصلہ کن خطاب کے فوری بعد! ان کے اقرار کے بعد ثانوی طور پر یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کے بصیرت افروز فیصلوں کے نتیجے میں لاک ڈاؤن نافذ ہوا ہی نہیں تو پھر گذشتہ ایک ہفتہ سے مرکزی حکومت کس لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کا اعزاز لے رہی ہے؟ وہ جو کبھی نافذ نہیں ہوا؟ یا وہ جس کی وجہ سے ملک میں کرونا تیزی سے پھیل نہیں سکا؟

پہلے سوال کا جواب تو جناب وزیراعظم خود ارشاد فرما چکے ہیں کہ ”بغیر سوچے سمجھے اشرافیہ نے لاک ڈاؤن نافذ کرا دیا۔” یہ اعتراف بذات خود ملک چلانے میں وزیراعظم کے کردار کی نفی کرتا تھا۔ مگر میرے بہت ہی عزیز جناب شبلی فراز کا اب بھی اصرار ہے کہ وزیراعظم ملک چلا رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ ”چلا” کی بجائے ”جلا“ کہنا چاہ رہے ہوں مگر اپنے عظیم والد کی وضع دارانہ روایت کی پیروی میں لحاظ خاطر کا اہتمام کر گئے ہوں۔۔کہ ” محاصرہ” کے اثرات مرتب تو ہوتے ہیں داخلی یا خارجی طور۔۔۔ فراز بتا گئے ہیں

تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمان ِہنر کے نجوم سامنے ہیں

مرکزی مقتدرہ روز اول سے 18 ویں آئینی ترمیم سے ناخوش چلی آرہی ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ بحث محدود رکھتے ہوئے میں این ایف سی ایوارڈ کا حوالہ دوں گا جسے نام لیے بغیر نشانے پہ رکھا جا چکا ہے۔ گزشتہ دنوں صدر مملکت نے نیا این ایف سی ایوارڈ تشکیل دیا ہے خیال ہے کہ نوشکیل شدہ قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے حکومت مرکز اور صوبوں کے درمیان قابل ٍ تقسیم پول کے مالی وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں من پسند تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائے گی! کیونکہ اس کمیشن میں اسے عددی برتری حاصل ہے۔۔ وزیراعظم (جو وزیر خزانہ بھی ہیں) کمیشن کے سربراہ ہوں گے اور وہ پنجاب، بلوچستان اور کے پی میں اپنی حکومتوں کے ذریعے مرکزی وسائل کا حصہ بڑھا لینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ سندھ حکومت کی مزاحمت آئینی تو ہوگی لیکن رائے شماری میں کمزور۔

خدشہ ہے کہ اس بار بلوچستان حکومت کا موقف بھی ماضی کے برعکس مرکزی مقتددہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔ خدشات کا آغاز کمیشن میں بلوچستان کی طرف سے غیر سرکاری رکن کے لیے محترم جاوید جبار صاحب کو نامزد کیے جانے سے شروع ہوا ہے۔

نئے کمیشن کی تشکیل کا عندیہ ملا تو مارچ میں جناب جاوید جبار کا نام باضابطہ طور پر وزیر اعلیٰ نے گورنر بلوچستان کو بجھوایا تھا تاکہ وہ آئینی طور یہ نام مرکزی حکومت کو ارسال کر دیں۔ اس اطلاع کے عام ہونے پر صوبے کے سیاسی، صحافتی اور دانشور حلقوں میں اضطراب پایا گیا۔ احتجاج سامنے آیا تو خبر چھپی کہ جناب جاوید جبار کا نام حکومت نے واپس لے لیا ہے لیکن اب جب کمیشن کا اعلان ہوا تو جناب جاوید جبار کا نام بلوچستان کے غیر سرکاری رکن کے طور پر منظر عام پر آیا ہے

جناب جاوید جبار بہت اچھے انسان، مہذب، تعلیم یافتہ، ادیب و صحافی ہیں۔ وہ ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ کامیاب تاجر ہیں ان کی قابلیت سلیقہ شعاری سے بات کرنے اور سننے کے زمرے میں مسلمہ ہے کیا وہ معاشیات کے بھی ماہر ہیں؟ میں نہیں جانتا البتہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ جناب جاوید جبار بلوچستان کے جغرافیہ اور بلوچستان کی مخصوص سیاسی ثقافت (جو قوم دوست یا صوبائی خودمختاری کی شناخت و شہرت رکھتی ہے) سے کوئی نسبت و تعلق نہیں رکھتے۔ اگر بدگمانی شمار نہ ہو تو شاید وہ صوبے کے سیاسی ماضی اور عوامی امنگوں سے ہمدردانہ وابستگی کا کوئی تاریخی حوالہ نہیں رکھتے۔ پھر یہ کہ ان کا بلوچستان میں کوئی سیاسی اسٹیک بھی نہیں کہ جسے محفوظ رکھنے کیلیے وہ ایسا رویہ اپنائیں جسے بلوچستان میں تو عوامی پذیرائی ملے مگر مرکزی مقتدرہ خفا ہوجائے۔ جناب جاوید جبار کا نام ملک بھر میں احترام بھرے جذبے سے سنا و پکارا جاتا ہے میں امید کرتا ہوں کہ وہ از خود اپنی نامزدگی سے معذرت کرلیں گے تاکہ امکانی طور پر ناخوشگوار فیصلوں کا بوجھ ان پر نہ آئے۔ خود کو تنازعات میں الجھانا شاید ان کے شایان شان بھی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments