قدیم سنسکرت کی شعریات اور نظریۂ دھون


ہندوستان میں شاعری پر بحث و تمحیص کی روایت نہایت قدیم ہے۔ ویدوں کی رچائیں، منتر اور شلوک ہر چند تہذیب کے عہد طفلی کی کہانیاں ہیں، لیکن ان میں اظہار اور اسلوب کی پختگی بدرجہ اتم پائی گئی ہے۔ ویدوں کی تالیف کا عہد تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح ہے۔ ”ہسٹری اینڈ کلچر آف انڈین پیپل“ کے مصنف کے مطابق لسانیاتی بنیادوں پر قدیم ترین وید ”رگ وید“ کی زبان ایک ہزار سال قبل مسیح ہے، لیکن اس کا مواد اس سے کہیں زیادہ قدیم ہے۔ اے۔ ایل۔ ہاشم کے بقول دوسری ہزاری قبل مسیح میں جو لوگ ہندوستان میں داخل ہوئے ان میں ایک قبیلہ بھرت نامی تھا جو بعد میں برہما ورت سے معنون ہوا۔ برہما ورت کے پروہتوں کے گیتوں کو باقاعدہ ترتیب دے کر رگ وید تالیف ہوئی۔

رگ وید کی تفہیم و تعبیر کی روایت دراصل قدیم سنسکرت شعریات کی اساس ہے۔ یہ روایت آرنیکوں (دشتی ارشادات) اور اپنشدوں ( وہ علم جو علماء کی صحبت سے حاصل کیا گیا ہے ) کے ذریعے سینہ بہ سینہ تواتر سے چلتی رہی۔ سب سے پہلے یاشک نے نرکت کے نام سے ایک ضابطہ پیش کیا، جو ویدوں کی تفہیم و تعبیر کے اصولوں پر مبنی تھا۔ اس کے بعد پاننی نے ویدوں کی افہام و تفہیم کے اصولوں کو باقاعدہ تصنیف کی صورت میں مرتب کیا۔ بعدازاں بھرت منی نے اپنی مشہور تصنیف ناٹیہ شاستر میں ”رس“ کا نظریہ پیش کیا جو سنسکرت شعریات میں بہت مقبول ہوا۔ اس کے علاوہ النکار (صنائع بدائع) اور ریت (اسلوب) کے نظریات بھی سنسکرت شعریات کا موضوع رہے۔ ونڈی، آنند وردھن اور آبھنو گپت نے شاعری کی ساخت اور ترفع پر خاطر خواہ توجہ دی۔ ان تمام نظریات میں بھرت منی کا نظریہ رس اور آنند وردھن کا دھونی زیادہ مقبول ہوئے۔

رس سدھانت میں ڈرامائی شاعری، موسیقی اور رقص پر اساسی تنقیدی مباحث ملتے ہیں۔ رس بنیادی طور پر انبساط روح اور قلب کا نظریہ ہے مگر عقلی تخیلات کی لذت کے کو شامل نہیں کیا۔ وشنو ناتھ کے بقول وہ محرکات جن سے رس کے جذبے کو تحریک ملتی ہے اور جذبے کے ظاہری علائم ایک دوسرے میں زم ہو کر رس تخلیق کرتے ہیں۔ گویا رس ایک خالص جمالیاتی تجربہ ہے جو کلام اور قاری کے مابین تشکیل پاتا ہے۔ رس کا اطلاق رزمیوں ( Epics) پر تو بخوبی ہوتا ہے مگر مختصر اصناف شاعری پر اطلاق میں دقت پیش آنے کے باعث کئی خوب صورت اشعار رس کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے تھے۔

ان مسائل کے پیش نظر آنند وردھن نے اپنی مشہور تصنیف دھونیا لوک میں دھون کا نظریہ پیش کیا جو بھرت منی کے نظریۂ رس ہی کی توسیع ہے۔ بلاشبہ قدیم ہندوستانی فلسفہ میں لفظ کے استعاراتی استعمال اور رمزیہ اظہار کی قدروقیمت پر پہلے سے افکار خیالات موجود تھے۔ آنند وردھن نے ان خیالات کو مربوط اور منظم شکل میں پیش کیا۔ آنند وردھن کے نزدیک النکار اور ریت شاعری کے خارجی عناصر ہیں جبکہ رس شعر کے باطن کی نمایندگی کرتا ہے۔ رس میں تخیل اور عقل کا فقدان ہے لہذا دھون ہی شاعری کی روح ہو سکتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ آنند وردھن النکار، ریت اور رس کا انکار نہیں کرتا بلکہ انھیں دھون کے اجزائے ترکیبی قرار دیتا ہے۔

لفظ دھون ( دھونی باتصغیر یائے معروف) مضراب سے پیدا ہونے والی آواز کی اس گونج کو کہتے جو کانوں کو محظوظ کرتی ہے۔ اصطلاح میں دھون سے مراد اشاراتی مفہوم کے ابہام سے پیدا ہونے والی غالب معنویت جو لذت اور انبساط تخلیق کرتی ہے۔ یعنی استعاراتی معنی کے ساتھ دل آویزی اور رس لازم ہے۔ آنند وردھن کے نزدیک دل آویزی کے احساس سے پیدا ہونے والی باطنی نشاطیہ کیفیت کی موجودگی شاعری کے لیے لازم ہے۔ مطلب شاعری کی ساخت متناسب، دل آویز اور نشاط آفریں ہونی چاہیے اور داخلی و خارجی دونوں حوالوں سے حسن ہونا چاہیے۔

آنند کے نزدیک شاعری نہ داخلی ہے نہ خارجی بلکہ دونوں عناصر کا ایک آمیزہ ہے۔ دھون پر بحث کرتے ہوئے آنند نے لفظ اور معانی کے انسلاکات سے متناسب کلام کے وجود پر زور دیا ہے۔ دھونیا لوک کے پہلے باب میں آنند نے لفظ پر معانی کو فوقیت دی ہے۔ یعنی منشائے شاعر کے باطن میں پوشیدہ معنی کے اظہار کا وسیلہ لفظ ہے۔ لفظ اور معنی کی بحث میں آنند نے معنی کے تین تفاعل بتائے ہیں۔ اول ابھدھا یعنی لغوی معنویت، دویم گن ورت یعنی علامتی معنویت اور سویم ابدھا اور گن ورت کے تفاعل سے پیدا ہونے والے مجازی معنی ہیں۔

آنند نزدیک شاعری کی روح لفظ کی اس تیسری قوت سے عبارت ہے۔ یعنی شاعری میں دھون کا اظہار لغوی اور استعاراتی معانی کے تفاعل سے ہی ممکن ہے۔ اس سے نہ صرف باطنی نشاط جنم لیتا ہے بلکہ اہل ذوق کو نشاط آفریں کیفیت سے بھی دوچار کرتا ہے۔ ان کے نزدیک معانی کی عام لغت کے علاوہ جذبات اور احساسات کی لغت بھی ہوتی ہے جس کے تحت لفظ معنیاتی اعتبار سے نہایت وسیع ہے۔ انھوں معانی کی تیسری قوت کو گرفت میں لے کر شاعری پر بحث کی ہے اور کئی مثالیں بھی درج کی ہیں۔ مثلاً

مچانیں چیختی ہیں

آنند وردھن کہتا ہے مچانیں تو زندہ وجود نہیں ہیں پھر وہ کس طرح چیختی ہیں؟ وہ تو لکڑی اور رسی سے بنی بے جان چیزیں ہیں۔ دراصل مچانیں نہیں چیختی مچانوں پر بیٹھے رکھوالے جانوروں کو بھگانے کے لیے چیختے ہیں۔ گویا رکھوالوں کا چیخنا مچانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ آنند وردھن نے اور کئی زاویوں سے لفظ کے مجازی اور استعاراتی تفہیم پر بات کی ہے۔ والمیک رامائن میں جب ناردجی نے سارس کے ایک جوڑے کو جنسی عمل میں مصروف دیکھا تو اس جوڑے پر ایک تیر پھینکا۔ جس سے نر سارس زخمی ہو کر مر گیا۔ یہ منظر والمیک کو جھنجھوڑ گیا اور اس کے منہ سے بے ساختہ بددعا نکلی

” اے شکاری تجھے ہمیشہ کے لیے پرسکون نیند نہ ملے کیونکہ تو نے سارس کے جوڑے میں سے ایک کو جو محبت کے اظہار میں مصروف تھا، قتل کر دیا“

اس شعر میں نہ تو النکار ( صنائع بدائع) ہیں اور نہ ہی کوئی الفاظ کی سحر کاری ہے۔ مگر دونوں سارسوں کی تخلیق نے کرن رس پیدا کیا یعنی جو کیفیت شاعر پر گزری ہے وہی کیفیت کاری پر بھی بحر غم میں لے ڈوبی ہے۔ آنند وردھن معنی کی اس تیسری جہت اور قوت پر زور دیتے ہیں۔ جو شاعری میں دھون کو پیدا کرتی ہے۔ آنند وردھن کے نزدیک دھون سے تخلیق زیادہ موثر، لطیف ترین اور جمالیاتی عنصر سے مزید رہتی ہے۔

آنند وردھن نے ماسبق نظریات رس سدھانت، النکار اور ریت کی ہی توسیع کرتے ہوئے نہایت باریک بینی سے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ شاعری کی کیفیت کے حوالے سے دھون نظریہ دوسرے نظریات کی نسبت زیادہ وسعت کا حامل ہے۔ یہ نظریہ زمان و مکاں کے اعتبار سے ہمیشہ معتبر رہا ہے۔ دھون نظریہ کے مختلف عناصر اتنے اہم ہیں کہ جدید تنقیدی نظریات، علم شرح اور معنویات میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں اور صدیاں گزرنے کے باوجود ناقدین کی توجہ کا مرکز ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments