ٹوکیو کا ہاچیکو نامی کتا اور مقامی غار کے سگان آستاں


سیکوسن نے اچانک کہا کہ اگلے سٹیشن کی بجائے ہم شبوئیا سٹیشن پر اتر جاتے ہیں میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ٹوکیو کا یہ بھی ایک اہم زیر زمین سٹیشن ہے میں آپ کو ایک یادگار چیز دکھانا چاہتی ہوں ہم اتر پڑے۔ سٹیشن پر خوب چہل پہل تھی چلتے چلتے ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں کافی رش تھا سامنے ایک کتے کا مجسمہ تھا جس کے گرد سیاحوں اور مقامی نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ہجوم تھا کتے کے مجسمے کے گرد اتنے لوگوں کا موجود ہونا میرے لئے اچنبھے کی بات تھی

سیکوسن میری کلاس میٹ تھی ہم ٹوکیو میں ٹریننگ لے رہے تھے جس میں مجرم سے نفرت کی بجائے جرم سے نفرت اور مجرم کو دوبارہ معاشرے کا مفید شہری بنانا مقصود تھا اس میں ایشیا اور یورپ بشمول جاپان کے پولیس اور پرزن افسران اور جج صاحبان حصہ لے رہے تھے سیکوسن جاپانی خاتون تھی چند روز قبل جو ادارے میں مجھے ذہنی پریشانی اٹھانی پڑی تھی اس کی تسکین کے لئے وہ مجھے ٹوکیو شہر کی سیر و تفریح کے لیے لے آئی تھی ڈاکٹر چٹر راج جو انڈیا سے آئے تھے اور دادا رحمن بنگلہ دیش سے وہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔

تین روز قبل اقوام متحدہ کے مسٹر راجرز ہمیں دنیا بھر میں منشیات کے پھیلاؤ پر لیکچر دینے آئے اور آتے ہی سوال کیا کہ اس کلاس میں کوئی پاکستانی ہے میں نے فخر سے ہاتھ بلند کیا کیونکہ تین ماہ سے کسی نے بھی انڈیا بنگلہ دیش اور پاکستان کا نام نہیں لیا تھا اور نہ ہی کسی اخبار میں ہمارے کسی ملک کی خبر شائع ہوئی تھی میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں چٹرراج اور رحمن کو پیغام دیا کہ دیکھتے جاؤ لیکن اتنے میں مسٹر راجرز کی آواز گونجی ”یہ وہ ملک ہے جو پچھتر فیصد ہیروئن دنیا کو سمگل کرتا ہے“ میرا ہاتھ دھڑام سے نیچے گرا اور ساتھ ہی گردن جھک گئی ساری کلاس حیران تھی کہ یہ تو بہترین انسان ہے جو الکوحل کے قریب نہیں جاتا سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگاتا حتی کہ کوئی بیوریج اور چائے تک نہیں پیتا اس کو تو فیمیلیز دیکھنے آتی ہیں کہ کیسا شخص ہے کہ کوئی بھی ڈرنک نہیں پیتا۔ لیکن مسٹر راجرز نے کہا تم پاکستانیوں کی معصوم شکلوں پر نہ جاؤ ان کی کارستانیوں پر نظر رکھو اور پھر دو دن اس نے اپنے لیکچرز اورفلموں سے ثابت کیا کہ ہم نے مغربی سرحد پر کس طرح ہیروئن کی بے شمارفیکٹریاں قائم کی ہوئی ہیں اور کس طرح سمگلنگ کا جال بچھایا ہوا ہے

شرمساری سے دو راتیں میں بستر پر کروٹیں لیتا رہا اور زیادہ تر میرا وقت لائبریری میں گزرا جہاں میں امریکی فوج کی جنوبی امریکہ میں کوکین اور افغانستان میں ہیروئن کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کی اقوام متحدہ کی رپورٹس تلاش کرنے میں کامیاب ہوا۔ جب تیسرے روز میری باری آئی تو میں نے امریکی افواج کے منشیات میں ملوث ہونے پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی بتایا کی یورپی استعماری طاقتیں کس طرح ظلم اور تشدد سے اور لالچ دے کر ایشیا اور افریقہ میں اپنے تسلط کے جھنڈے گاڑتی رہی ہیں اور کس طرح ہمیشہ ہمارے علماء اور مذہبی طبقے کو استعمال کرکے ان ملکوں میں وہ اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوئیں اور ہمارے مذہبی طبقہ نے کس طرح ہمیشہ نو آبادیاتی نظام کے قیام کے لئے ان کے ہراول دستے کا کام کیا اور ہمیشہ طالع آزماؤں کا ساتھ دیا اس سلسلے میں میں نے ایڈورڈ سعید کی مشہور تصنیف Orientalism کا بھی حوالہ دیا میری رپورٹ اور حوالوں سے بہرحال مسٹر راجرز کا کافی علاج ہو گیا۔

میری اس اذیت اور ذہنی کوفت کو بھلانے کے لئے سیکوسن نے آج مجھے انسٹیٹیوٹ سے نکال کر مجسمے کے آگے لاکھڑا کیا۔ ٹوکیو میں زیرزمین سٹیشن ایک دلکش جگہ کا نقشہ پیش کرتے ہیں چکا چوند روشنی میں دکانیں سٹور، پارلر اور ریسٹورنٹ، ضرورت کی ہر چیز کی فراوانی اور لوگوں کی رونق۔ مجسمے کے گرد کافی لوگ جمع تھے میں نے مجسمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیکوسن سے مذاق کیا کہ کیا اس سے میرا دل بہل جائے گا؟

مسٹر لعلوانی اس کو پتھرکا صرف مجسمہ نہ سمجھو اس کے پیچھے محبت کی ایک بے مثال کہانی ہے جس کو سامنے رکھ کر ہم انسان اپنی اپنی محبتوں کی گہرائی کا اندازہ کرتے ہیں۔ یہ ایک انمٹ محبت کی داستان ہے یہ کسی انسان یا جانور کی کہانی نہیں بلکہ اس بے پایاں جذبے کی کہانی ہے جس کے تلاطم میں کتا، کتا نہیں رہتا اور جس سے اگر انسان محروم ہو جائے تو انسان، انسان نہیں رہتا۔

اس کا نام ہاچیکو تھا یہ ایک پروفیسر کا کتا تھا جب وہ روزانہ صبح یونیورسٹی جانے کے لئے سٹیشن روانہ ہوتاتو ہاچیکو بھی ساتھ ہو لیتا پروفیسر گاڑی میں سوار ہو کر دوسرے شہر چلے جاتیاور یہ سٹیشن کے باہر ان کے انتظار میں بیٹھا رہتا شام کو جب ان کی واپسی ہوتی تو ان کے ساتھ گھر چلا آتا یہ اس کی روٹین تھی جنگ عظیم کا زمانہ تھا ایک روز پروفیسر اتحادی افواج کی بمباری کا نشانہ بن گیا اور وہ پھر کبھی واپس نہ آ سکالیکن ہاچیکو ہر روز صبح سٹیشن پر جاتا اور شام تک انتظار کرکے نا امید واپس آ جاتا آخر دس سال کے طویل انتظار کے بعد اسٹیشن کے باہر جان دے دی علاقے کے لوگوں کو ہاچیکو کی وفاداری حیران کر گئی ویسے بھی جاپانی جذبات اور احساسات کے معاملے میں ایک اعلی قوم ہیں انہوں نے ہاچیکو کا مجسمہ بنا کر سٹیشن پر ایستادہ کر دیا آج میں اس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے حاضر تھا۔

اور یہ وہ زمانہ تھا جب تمام دنیا جنگ کی لپیٹ میں تھی انسان انسان کے خون کا پیاسا تھا لیکن ایک نجس جانور ایک انسان کی محبت میں کئی ماہ و سال اور گرمیوں سردیوں کی شدت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی جان دے رہا تھا میں حیران تھا اس نے کہاں سے اخلاقیات کا سبق پڑھا تھا اور کن صحیفوں کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ہوگی کون سی سورگ کون سی جنت حاصل کرنے کے لئے اتنی بڑی قربانی دینے کو تیار ہوا ہوگا یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا میں نے سیکوسن سے کہا میں کچھ دیر کے لئے اس مجسمے کے سامنے بیٹھنا چاہتا ہوں اور معلوم نہیں کتنی دیر ان خیالات میں دم بخود بیٹھا رہا کہ اٹھنے کو دل نہیں کر رہا تھا

کافی عرصہ بعد آج جب میں اپنے پاک ملک میں ہوں اور کرونا وائرس کی وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن ہے تو موقع جان کر میں سیر و تفریح کے لئے شمالی علاقہ جات کی طرف نکل گیا وہاں کبھی کوئی پہاڑی سر کرتا کبھی ڈھلانوں کی طرف چلا جاتا کبھی ندی کے کنارے بیٹھ جاتا شفاف لہروں کو سکون سیبہتا دیکھتا کبھی ان میں پاؤں اور ٹانگیں ڈبو کر بیٹھ جاتا جس سے دل کو ٹھنڈک اور روح کو فرحت ملتی کوہ نوردی میں ایک روز مجھے دور پہاڑی میں ایک غار دکھائی دی وہاں پہنچا اور اندر نگاہ کی تو مجھے ایک نورانی صورت درویش دکھائی دیے ابھی ان سے تھوڑی بات ہی ہوئی تھی کہ مجھے کسی نے پیچھے سے دھکا دے کر گرا دیا میں ہڑبڑا کر اٹھا دیکھا تو دہل گیا میرے سامنے عجیب و غریب مخلوق تھی جن کی شکلیں تو کچھ کچھ انسانوں سے ملتی جلتی تھیں لیکن ان کے جسم تنومند جانوروں کے تھے ان کے چہروں اور پورے جسم پر بال تھے اور سر کے بال پیروں تک لٹکے ہوئے تھے ابھی میں دیکھنے اور سوچنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایک انسان نما جانور نے میرے سینے میں پنجے گاڑتے ہوئے کہا کہ غیر ممالک میں جاکر تم مقدس لوگوں پر بھونکتے رہے ہو اور پھر ادھر بھی بھونکنے سے باز نہیں آتے تم کتے ہو۔

ابھی سنبھلا نہیں تھا کہ دوسرا مجھ پر جھپٹا تم بکاؤ مال ہو تم غدار ابن غدار ہو کوئی ملک تمہیں ٹکٹ دیدے تم وہاں جاکر مذہبی طبقے کی آبروریزی کرنے پر تل جاتے ہو اور اپنی گندی زبان استعمال کرتے ہو چاروں طرف سے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں تم یزید ہو شمر ہو کتے ہو تم پیسے کے پجاری ہو جو ہمیں دین سکھاتے ہیں ان کے خلاف بولتے ہو تمہاری زبان کیوں نہ کاٹ دی جائے اور سر پھاڑ دیا جائے تم بھی جھوٹے میڈیا کی زبان بولتے ہو اور ملک کے دشمن ہو ان کا غصہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا اتنے میں ایک جوشیلے جانور نے آگے بڑھ کر میری پنڈلی کو اپنے تیز دھار دانتوں میں کچکچایا میں درد سے بلبلا اٹھا اور گر پڑا انہوں نے میرے اوپر کھڑے ہو کر مجھ پرگالیوں اور مغلظات کی بوچھاڑ تیز کردی اس جھمیلے میں پڑنے کی بجائے درویش صفت انسان سکون سے غار کے اندر اپنی عبادت میں مصروف رہے البتہ غار کے باہر سگان آستاں کی للکار اور یلغار جاری رہی

میں نیچے زخمی پڑا سوچ رہا تھا کہ اس مخلوق پر کسی صحیفے کی تعلیمات کا تو اثر نہیں ہوا اب ان کے لئے کون سا صحیفہ کہاں سے اترے گا؟ میں حیران تھا۔ حالانکہ میں نے تو استبدادی طاقتوں کو للکارا تھا اور طالع آزماؤں اور ان کے آلہ کار بننے والوں کی نشاندہی کی تھی اور قوم کو قصے کہانیاں سنا کر سلانے والوں اور آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنے والوں سے خبردار کیا تھا الٹا مجھ پر ملک دشمنی مذہب دشمنی اورجھوٹ کو فروغ دینے کا ذمہ وار قرار دیا جا رہا تھا میں درد سے پڑا سوچ رہا تھا کہ بھلے تم ہمیں کچھ سمجھتے ہو ہم انسان ہیں جانور ہیں یا کتے کاش ہم سب اپنے ملک اور اپنی قوم کے اتنے وفادار بن جائیں جتنا ہاچیکو اپنے مالک کا وفادار تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments