دیریلس ارطغرل پر ہی اعتراض کیوں؟


میں نے وہ دوردیکھا ہے جب بزرگ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے کہ ان کے بچے ٹی وی سے دور رہیں لیکن ٹی وی نے اپنی دھاک بٹھانی تھی بٹھادی۔ وی سی آر کا زمانہ آیا تو ایسا محسوس ہونے لگا جیسے قیامت آ گئی ہو۔ بچے اور نوجوان اس لت کے اسیر بننا شروع ہوئے تو بزرگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور ایک لفظ کا استعمال شروع ہونے لگا جو آج تک ہم سنتے آرہے ہیں ”مغربی تہذیب“ ۔

جس دور میں ہم بڑے ہورہے تھے ہم اکثر اس لفظ کو لے کر جذباتی ہو جاتے کہ کیوں نہ پوری دنیا کے مسلمان ایک ہو کر کفر کا نام و نشان مٹادیں۔ رگوں میں شباب کا خون تھا ہم ایسا سوچتے اور خود کو انقلابی ثابت کرنے کی کوشش کرتے لیکن انقلاب کا یہ سحر ہمیشہ بالی ووڈ کے سحر کے آگے لیٹ جاتا۔ مجھے اب بھی یاد ہے میں دوسروں کو منع کیا کرتا تھا لیکن خود کو روکنا میرے بس میں نہ تھا۔ اندر کی موٹیویشن ہمیشہ فلموں اور گانوں کے ساتھ منسلک رہی بلکہ اس دور کا سب سے بڑا ظلم ہی یہ تھا کہ خود کو تروتازہ رکھنے کے لئے ہندوستانی گانوں پر گزارا کیا جاتا اور جو نہ سنتا اس کو قدیم دور کا ایک پست سوچ رکھنے والا انسان قرار دیا جاتا اور اس کے ساتھ فاصلہ بھی رکھا جاتا شاید یہی وجہ تھی کہ خود کو جدید دور کا سپاہی ثابت کرنے کے لئے ہر کوئی اس نام نہاد تہذیب کے طوفان میں بہہ جاتا۔

سی ڈی کا دور آیا تو نوجوان خوشی سے پاگل ہو گئے۔ ان کے لئے سب کچھ آسان ہوتا جا رہا تھا اور دوسری طرف بزرگوں نے سی ڈی کو دجال کا فتنہ قرار دیا۔ سننے والوں نے سنا لیکن رکا کوئی نہیں اور ہر گھر کے اندر سی ڈی کا سحر داخل ہوا۔ نوجوانوں میں نام نہاد عشق کے جراثیم اسی دور میں داخل ہوئے۔ اپنے لئے ایک دوست رکھنا جس کو اس بدلتے دور میں گرل فرینڈ کہا جانے لگا تھا لازمی تھا۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے جس کی گرل فرینڈ نہ ہوتی اس کا مذاق اڑایا جاتا۔

آپ پچھلے بیس سالوں میں نوجوانوں کے مسائل پر تحقیق کیجیئے آپ حیران ہوں گے سب سے زیادہ مسائل انہی بیس برسوں میں پیدا ہوئے۔ گھروں سے لڑکیوں کا بھاگنا، جنسی خواہشات کا عروج پانا، والدین کے ساتھ اولاد کی لڑائیاں، بہن بھائیوں کے درمیان چپقلش اور غیرت کے نام پر قتل یہ وہ انعامات ہیں جو انہی بیس برسوں میں ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور پشتو انڈسٹری کے نام نہاد اداکاروں نے اس معاشرے کو دیے ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ جتنی مخالفت اور مزاحمت دیکھنے کو ملتی رہی جذبہ اور بھی بڑھتا رہا اور شاید ہی کوئی ایسی فلم بالی ووڈ کی ہو جو ہم نے نہ دیکھی ہو۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جب آیا تو پھر اس طوفان کے سامنے کوئی بھی نہ ٹھہر سکا اور یہ تاریخ ہے کہ پچھلے بیس برسوں میں جتنے بھی لوگ جوان ہوئے ہیں ان کے فیورٹ یہی اداکار رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان لوگوں کو نہ خلافت راشدہ کا علم رہا اور نہ اس کے بعد آج تک کی تاریخ کا۔

وقت گزرتا رہا اور پھر ترکی نے دیریلس ارطغرل نام کا ایک شاہکار ڈرامہ بنایا جس میں ترکی نے اپنا شاندار ماضی دکھایا۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ دجال جب آئے گا تو اس کے پاس سب سے بڑی طاقت ٹیکنالوجی کی ہوگی اور ٹیکنالوجی اور میڈیا ہی کا سہارا لے کر وہ فتح حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ بات کہتے ہوئے سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی کہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں نوجوان نسل کو ورغلانے کے لئے بنتی ہیں۔ دیریلس ارطغرل جب آیا تو ہر طرف چھائے ہوئے سحر کے بادل چھٹ گئے اور غیروں کی تہذیب میں پھلنے والے نوجوان ششدر ہوکر یہ سوال پوچھنے لگے کیا مسلمان ایسے بھی تھے۔ اس سوال کا جواب خود سے تلاش کرنے کے لئے ان نوجوانوں نے انٹرنیٹ کا سہارا لینا شروع کیا اور پھر ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ مسلمان تو پوری دنیا پر حکومت کر چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت سارے نوجوان کتاب کی طرف مائل ہونا شروع ہوئے۔

میں نے خود ایسے ایسے لوگ دیکھے جو بات بات پر غیروں کی تہذیب کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ یہ حوالہ دیتے وقت ان سب لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا اور لائف سٹائل بھی اس تہذیب کے دلدادگان والا رہا۔ اب جب کہ تھوڑی سی تبدیلی رونما ہو رہی ہے تو بہت ساروں سے یہ بھی برداشت نہیں ہو پا رہی۔ دیریلس ارطغرل صرف ایک ڈرامہ نہیں بلکہ وہ کمال ہے جس کی وجہ سے معصوم بچے بھی ابن العربی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ منگولوں اور عیسائیوں کے ان تمام مظالم کا کسی کو پتا تک نہ تھا جو انہوں نے مسلمانوں پر کیے ہیں۔ اس ڈرامے کے بعد تیرویں صدی کے ان تمام بحرانوں کا نوجوان نسل کو پتا لگ گیا ہے جن کا مسلمانوں نے سامنا کیا اور یہی وجہ ہے کہ بریو ہارٹ ( Braveheart) جیسی فلموں کا طلسم ٹوٹ گیا۔

دیریلس ارطغرل میں اسلام اور مجاہدین کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ جدوجہد ہماری فتح اللہ کی جیسے فلک شگاف نعروں سے کفر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کیا جاتا ہے اور پھر فتح کے بعد ایک بہترین نظام قائم کرنے کی کوشش اور بھی تیز کی جاتی ہے۔ ہم اگر موجودہ زمانے میں میڈیا وار کو اہمیت دیتے ہیں تو ہمیں دیریلس ارطغرل جیسے شاہکار ڈراموں کو اہمیت دینی ہوگی۔

لوگ اگر مسلمان ہیروز کو تلاش کرنے لگے ہیں تو یہ خیر کی خبر ہے۔ لوگ اگر گھوڑے پر سوار ہاتھ میں تلوار لینا پسند کرنے لگے ہیں تو اس اعتراض کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ یہ تیر تلوار کا دور ہے ہی نہیں۔ ہماری نئی نسل اگر فتنوں کے اس دور میں کتابوں کی طرف راغب ہونے لگی ہے تو ہمیں اس پر خوش ہونا چاہیے۔ اوغوز ترکوں کی جدوجہد نے تین براعظموں پر اسلام کا پرچم لہرایا۔ ترکی نے بلا شبہ احسان ہی کیا ہے جو اتنا شاہکار ڈرامہ بنایا ہے۔ اچھی کاوش ہے تھی تو نیویارک ٹائمز میں اس پر شدید اعتراض کیا گیا۔

مغربی تہذیب نے اگر نقصان کیا ہے تو یاد رکھیئے دیریلس ارطغرل نے بے تحاشا فائدے دیے ہیں۔ اس پر غیر ضروری تنقید کی بجائے معاشرے کے دوسرے ناسور اگر زیر غور لائے جائیں تو وہ خود ایک کمال ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments