گجرات کی صحافت کا مشتاق ناصر رخصت ہو گیا


سابق صدر پریس کلب گجرات اور روزنامہ جنگ کے سابق نمائندہ خصوصی مشتاق ناصر طویل علالت کے باعث انگلینڈ میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 67 برس تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انکے فیملی ذرائع اور برادر نسبتی احمد شیراز نے تصدیق کی ہے کہ جگر اور سانس لینے میں دقت کے باعث ایک ہفتہ قبل انہیں بولٹن کے ایک مقامی ہسپتال میں ہنگامی طور پر داخل کروایا گیا تھا۔ جہاں زیر علاج رہنے کے بعد آج وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مشتاق ناصر نے پسماندگان میں بیوہ نسرین مشتاق، تین بیٹوں بازف جبران، فرگل فرقان اور نوفل خاقان سمیت ایک بیٹی ماہ نور مشتاق کو سوگوار چھوڑا ہے۔

جبکہ کنجاہ سے ان کی سابقہ اہلیہ جن کا چند سال قبل انتقال ہو چکا ہے سے بھی ایک بیٹی عاصمہ ہے جو کنجاہ میں ہی مقیم ہے۔ جن کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ جو کالج میں زیر تعلیم ہیں۔ سعودی عرب میں مقیم مشتاق ناصر کے بھتیجے یاسر الطاف کے مطابق مشتاق ناصر اپنے بہن بھائیوں میں بڑے تھے۔ ان کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ جو حیات ہیں۔

مشتاق ناصر 28 مارچ 1953 کو گجرات کے موضع سدوال کلاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری سکول سے حاصل کی۔ گورنمنٹ ہائی سکول ککرالی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ کچھ عرصہ کنجاہ میں بھی مقیم رہے۔ ابتدائی عمر سے ہی انہوں نے صحافت میں دلچسپی لینی شروع کر دی تھی۔ وہ کچھ عرصہ گجرات میں ایک وکیل کے ہاں بھی کام کرتے رہے۔ چند ایک پرچوں میں نمائندگی کے بعد انہیں 1980 ء کی دہائی میں روز نامہ جنگ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ جب ان کی چھپی ہوئی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ اور اس دوران انہوں نے اپنے آپ کو ایک منجھے ہوئے اخبار نویس کے طور پر منوایا۔

مشتاق ناصر مرحوم گجرات میں تقریباً 25 سال تک مسلسل ”روز نامہ جنگ“ کے نمائندہ خصوصی و ڈسٹرکٹ انچارج رہے۔ ان کا صحافتی کیرئیر لگ بھگ 40 برس پر محیط ہے۔ مختصر مگر جامع خبر نویسی میں مہارت ان کی خاص وجۂ شہرت تھی۔ انہیں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل رہا کہ وہ مختلف اوقات میں متفقہ طور پر تین دفعہ گجرات پریس کلب کے صدر اور ایک دفعہ جنرل سیکریٹری چنے گئے۔ ان کا شمار گجرات پریس کلب کے بانیوں صحافیوں میں ہوتا ہے۔ گجرات میں صحافیوں کے لیے رہائشی کالونی کے قیام میں خصوصی دلچسپی لی۔

شعر و ادب سے دلچسپی کے حامل مشتاق ناصر گجرات کی سیاسی و صحافتی تاریخ پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ 1990 ء کی دھائی میں مخاصمت کی بنا پر روز نامہ جنگ آفس گجرات میں بیٹھے ہوئے ان پر شدید فائرنگ کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔ جس میں وہ شدید زخمی ہونے کے باعث معجزانہ طور محفوظ رہے تھے۔

گجرات کی صحافت میں انہوں نے ایک بے باک اور نڈر اخبار نویس کے طور بھرپور کردار ادا کیا۔ ضلع گجرات کے تمام مکاتب فکر میں ایک وسیع حلقہ احباب کے مالک تھے۔ گجرات کی موجودہ صحافت میں شامل صحافیوں کی کثیر تعداد ان کی تربیت یافتہ یا بہت سوں کو وہ متعارف کرانے میں شامل تھے۔ ان سے عمر میں بڑے اور چھوٹے سبھی صحافی انہیں ”استاد جی“ کے لقب سے پکارتے تھے۔

مشتاق ناصر کئی شخصیت کئی حوالوں سے متنازعہ بھی رہی۔ مگر ایک بات طے ہے کہ وہ ایک روشن خیال، لبرل، کٹر جمہوریت پسند تھے۔ موجودہ سیاسی جماعت کے کٹر ناقدین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ اپنے فیس بک پیج پر سیاسی پوسٹس لگا کر خوب ”چیزہ“ لیتے رہتے۔ انتہائی بذلہ سنج اور شغلی شخصیت تھے۔

1990 ء کی دھائی میں امریکہ آنے سے قبل مجھ سمیت ان کے بہت سے بیرون ممالک مقیم صحافی دوستوں سے ان کی بہت خوشگوار اور کٹھی میٹھی یادیں وابستہ ہیں۔ جن میں امریکہ میں مقیم، چوہدری صدیق، ندیم منظور سلہری، محمد شہباز، محمد اسلام الرحمن، حنیف طاہر، سید زاہد شہباز اور حسام الدین کرامت شامل ہیں۔ جبکہ بلجیئم میں پرانے صحافی رفیق کا ملک اخلاق احمد اور مانچسٹر میں مقیم سینئر صحافی لیاقت علی شفقت شامل ہیں۔

1980 کی دہائی میں پریس کلب گجرات کے قیام کے لئے انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کے دیگر ہم عصر صحافیوں میں قربان طاہر، اصغر علی گھرال، راجہ طارق محمود، شاویز ملک کرامت اللہ کپور، شیخ محمد اقبال، مسعود سرور راٹھور، فضل الرحمن نعیم، راحت ملک، نیاز احمد نیازی، محبوب الہی بٹ، مقبول الہی بٹ، ایم زمان کھوکھر، ایس اے منشی، مسعود الرحمان بٹ، محمد صدیق ٹانڈہ، رمضان صائب، طفیل میر، یونس ساقی، کاوش بٹ، عثمان طیب، محمد شہباز، اسلام الرحمن اور شہباز چوہدری، حنیف طاہر، محمد انور شیخ، ظہیر سندھو شامل ہیں۔

مشتاق ناصر گزشتہ 12 سال سے فیملی کے ہمراہ انگلینڈ میں مقیم تھے۔ اس دوران اپنے تینوں بیٹوں اور بیٹی کی شادیوں کی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ ایک طویل عرصہ بیماری سے جنگ لڑنے کے بعد گزشتہ روز انگلینڈ کے رائل بولٹن ہسپتال میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی نماز جنازہ بولٹن کی مقامی مسجد مکہ میں ادا کی گئی۔ جہاں بعدازاں انہیں بولٹن ہی کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا۔ قبل ازیں مانچسٹر میں مقیم مشتاق ناصر مرحوم کے دیرینہ صحافی دوست لیاقت علی شفقت نے ان کے بیٹوں کے ہمراہ انہیں غسل دیا۔ اور تجہیز و تکفین میں شامل ہوئے۔

امریکہ میں مقیم مرحوم مشتاق ناصر کے صحافی دوستوں محمد شہباز، ندیم منظور سلہری، طاہر چوہدری، محمد صدیق ٹانڈہ، محمد اسلام الرحمن، سید زاہد شہباز اور حسام الدین کرامت نے ان کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام دے۔

مشتاق ناصر مرحوم کے فیس بک پیج پر ان کی آخری پوسٹ کا کسی کا یہ شعر رہ رہ کر یاد آ رہا ہے۔
نس نس سے واقف ہے رگ رگ جانتا ہے
ہمیں خود سے زیادہ ہمارا رب جانتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments