رمیش کی چپل


ابے کیا کر ریا یے یہاں کھڑا ہوکر، چل بھاگ یہاں سے اور دوبارہ یہاں نظر نہ آنا ورنہ ٹانگیں توڑ ڑالوں گا تیری سالے۔ ہری چند نے اپنی چپلوں کی دکان کے باہر کھڑے 9 سالہ رمیش کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔

اب تو یہ روز کا معمول بن چکا تھا، رمیش صبح صبح دکان کے باہر آ کھڑا ہوتا اور جب تک ہری چند اسے وہاں سے دھتکار نہ دیتا، مجال ہے کہ رمیش کا ایک بھی قدم وہاں سے پیچھے کو سرکتا۔ رمیش وہاں کھڑا ہو کر ٹکٹکی باندھے صرف ایک چپل کو ہی دیکھتا چلا جاتا۔ پتہ نہیں اس چپل میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ اسے دیکھتے ہی رمیش کے چہرے پر اک خاص مسکراہٹ سی آجاتی۔ بظاہر وہ اک عام سی چپل تھی، جس کی قیمت صرف 50 روپے تھی۔ مگر رمیش کے لئے اس میں اک خاص کشش تھی۔

رمیش کو رشتوں کی کوئی پہچان نہ تھی، نہ ہی اسے کبھی کسی نے اپنا کہا تھا اور نا ہی وہ پیار، محبت، اپنایت، اور خلوص جیسے مشکل الفاظ کی سمجھ رکھتا تھا۔ اس کے لیے تو شاید سارے رشتے ناتے صرف اور صرف اس ایک چپل کے ساتھ تھے۔

رمیش نے جب آنکھ کھولی تو اس کے ارد گرد صرف کچرا اور کوڑے کا ڑھیر تھا۔ پتہ نہیں کب اور کون اپنا گناہ چھپانے کی خاطر اسے اس گندگی میں پھینک کر جا چکا تھا۔

بظاہر دوسروں کے لے جو کچرے کا ڑھیر تھا، رمیش کے لیے وہ کل کائنات تھی۔ ۔ ۔ روٹی، کپڑا، کنگھی، لحاف، غرض جہاں بھر کی ضروریات زندگی کا ساماں ہمہ وقت دستیاب رہتا۔ مگر اس کی نگاہیں ہمیشہ سے صرف اک شے کی کھوج میں رہتیں اور وہ تھی اک ”چپل“ یوں محسوس ہوتا کہ جیسے شاید رمیش کے وجود کے سارے تانے بانے اسی اک چپل کے دم سے تھے۔ ہر نیا دن وہ اسی امید کے ساتھ شروع کرتا کہ آج اسے اپنی مطلوبہ چپل مل جائے گی۔

”بھاگو، جلدی کرو نکلو یہاں سے“ آج یہ الفاظ ہری چند کے نہ تھے بلکہ ان جان بچاتے لوگوں کے تھے جو سروں پر سفید ٹوپیاں پہنے ہوئے بے تحاشا دوڑے چلے جا رہے تھے، صرف اپنی جان بچانے کے لئے۔ ۔ ۔ ان کے پیچھے بہت سے بلوائی تھے۔ جن کے ہاتھوں میں، ٹوکے، چھریاں، بر چھے، تلواریں، غرض ہر قسم کی وہ چیز موجود تھی جو کسی کی جان لینے کے لیے کافی تھی۔ ۔ ۔

ابھی رمیش کا ذہن کچھ سمجھ ہی نہ پایا تھا کے اچانک خون کے کچھ چھینٹے اس پر آن پڑے، پھر جو اس کی آنکھوں نے دیکھا وہ تو شاید اس کچرے کے ڈھیر سے زیادہ بدبودار اور تعفن زدہ تھا۔ ہر جانب صرف ایک ہی رنگ نظر آ رہا تھا، خون کا لال رنگ۔ ۔ ۔

دھپ سے اک چپل اس کے سامنے آگری۔ ۔ ۔ اسے دیکھتے ہی رمیش کے چہرے پر اک فاتحانہ مسکراہٹ دوڑ گئی، رمیش 9 سال پہلے کی سوچوں میں گم ہوگیا اور وہی منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا جس میں کوئی اپنے گناہوں کا بوجھ کچرا کنڈی کے سپرد کر رہا تھا، جب رمیش نے زندگی میں پہلی بار آنکھ کھولی تو جس چیز پر اس گناہ گار، غلیظ، اور بدبودار وجود کی نظر پڑی تھی وہ اک ”چپل“ ہی تو تھی۔

رمیش نے اس نیلی چپل کو بھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا، اسے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے اک پر لطف احساس اس کے بدبودار اور غلیظ وجود کو پاک اور صاف کرتا چلا جا رہا ہو۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments