من چلے کا سودا


گزشتہ روز کچھ من چلے دوستوں نے سوشل میڈیا پر اسلام آباد کے تین بڑے ہوٹلوں میں شراب کی فراہمی کا ایک سرکاری اجازت نامہ بمعہ کاپی شیئر کیا۔ اب اس کے اصل یا نقل ہونے کے چکر میں پڑے بغیر بعض خودساختہ پارساؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسے موجودہ حکومت کے لئے باعث شرم قراردیا، کچھ اور لوگوں نے اپنے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہا کہ دیسی شراب پر تو کوئی پابندی نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ویسے آپ کا کیا خیال ہے کہ معاشرے میں ایسے منافق لوگ قابل نفرت نہیں جو شرافت کے لبادے کے پیچھے غلیظ ترین چہرے لیے پھرتے ہیں۔

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ پردے کے پیچھے کیا کچھ نہیں ہوتا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اعتکاف پر بیٹھے ایک نوعمر لڑکے کے ساتھ زیادتی کرنے کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے اور تحقیقات کے دوران زیادتی کرنے والا اس لڑکے کا دور پار سے رشتہ دار بھی بتایا جاتا ہے۔ ایسے کیسز آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ اس معاشرے کا گھناؤنا چہرہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ حقیقی بہن اور بیٹیوں کے ساتھ بھائی اور باپ کی زیادتی کے کیس درج ہو رہے ہیں۔

کیا فرسٹریشن نکالنے کے لئے یہی ذرائع رہ جاتے ہیں ان کے پاس؟ اور پھر آ جاتے ہیں سوشل میڈیا پر دوسروں کو بھاشن دینے۔ ویسے میں مدینے کی ریاست میں پاکستانی شراب کی سرعام فروخت کا حامی نہیں ہوں کیونکہ غیر مسلم کے نام پر جاری ہونے والے پرمٹ سے خریدی گئی شراب کے سب خریدار اسلامی شعائر کے داعی ہوتے ہیں کیونکہ جس کے نام پرمٹ بنا ہوتا ہے وہ تو مہنگی شراب پینا افورڈ ہی نہیں کرتا اور میں اس بات کا مخالف ہوں۔

اور کون نہیں جانتا کہ غیر ملکی سفارت کاروں کے نام پر جو شراب درآمد کی جاتی ہے وہ کون پیتا ہے اور اس میں دفترخارجہ کے اعلی افسران سے لے کر کسٹم اور ملک کے اشرافیہ کا ہاتھ ہوتا ہے، جو ہر روز عوام کو درس دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔ چند روز قبل مری بیوری کا مالک اسفندیار بھنڈارا ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ وہ حکومت کو سالانہ اربوں روپے ٹیکس کی مد میں دیتے ہیں مگر پھر بھی انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کئی سرکاری اور نجی محفلوں میں یہ سب کچھ آج بھی دستیاب ہوتی ہے مگر سب غیر قانونی۔ بلکہ باقاعدہ محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ گندہ ہے مگر دھندہ ہے۔ دوسری جانب اگر یہ کہا جائے کہ تھوڑی سی فراخدلی کا مظاہرہ کرو تو اسی کام سے حکومت کو سالانہ اربوں، کھربوں روپے کا ریونیو حاصل ہو سکتا ہے مگر نہیں، اس وقت بہت سے ٹھیکیدار سامنے آ جائیں گے (نہیں شراب حرام ہے مگر ہم نے پینی ضرور ہے)۔ جیسے کچھ عرصہ پہلے از خود نوٹس کے تحت مساج سنٹرز پر چھاپے مارکر سزائیں سنائی گئیں۔

اب آ جائیں دوسری جانب، شراب ہے تو شباب بھی ہوگا، کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی نے ایک پوسٹ شیئر کی جس میں کہا گیا کہ فطری جنسی رویوں پر پابندیوں کی وجہ سے قریبی رشتوں میں جنسی تعلقات اور رشتہ داروں کے ہاتھوں بچوں اور بچیوں کی جنسی زیادتی کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں، کوئی خوش قسمت خاندان ہی ہوگا جو اس وبا سے محفوظ ہو۔ ستم یہ ہے کہ ہم نے خاندان کے مرد اور عورتوں کو خاندان کے دائرے تک محدود کردی ہے اور فطری جذبات کے اظہار کے لئے مردوں اور عورتوں کو یہی رشتے دستیاب ہیں۔

معاشرے میں نہ کوئی اور ذرائع ہیں اور دائرے سے باہر تعلقات یا سوشلائزیشن کی اجازت ہے اوپر سے احساس گناہ اور شرمندگی کے احساسات سے سب سے زیادہ بچے خطرے میں ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے خاندان میں یہ سب کچھ نہیں ہورہا تو یا آپ ان چند خوش قسمت خاندانوں میں سے ہیں یا پھر حقیقت سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ اب ہم ٹھہرے مشرقی کلچر اور اسلامی معاشرے کے دعویدار اور حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہوئے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

اور مولوی کلچر معاشرے پر قابض ہے اور زبردستی اپنی مرضی منوانے پر بضد ہے، جس کے سامنے ریاست بے بس ہے۔ آپ میری باتوں سے اختلاف کر سکتے ہیں یا میرا سمجھانے کا طریقہ غلط ہو سکتا ہے مگر ایسی بہت سی ڈاکیومنٹریز موجود ہیں جس میں نامور لوگوں نے اپنی داستانیں سناتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بچپن یا لڑکپن میں وہ جنسی ہراسگی کا شکار ہوئے ہیں، مگر خاندانی پابندیوں، گھٹن یا شرم کی وجہ سے کسی پر ظاہر نہیں کیا جاتا۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ڈیوائس ہے جو 24 گھنٹے آپ کے ہاتھ میں ہے اور سب کچھ دستیاب ہے۔ یہ بھی انسان کی فطرت ہے کہ برائی کی جانب جلدی مائل ہوجاتا ہے۔ اور یہی انٹرٹینمنٹ کا واحد ذریعہ ہے کیونکہ کھیلوں کے میدانوں پر رئیل اسٹیٹ مافیا نے قبضہ کر لیا ہے۔ مجھے یاد ہے ہمارے زمانے میں سکولوں، کالجوں کی سطح پر کھیلوں کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ کلاسز میں ہفتہ وار بزم ادب ٹائپ پروگرام یا تقریری مقابلے ہوا کرتے تھے جس میں طلبا حصہ لیا کرتے تھے۔

اب غیر نصابی سرگرمیاں تقریباً بند ہوگئی ہیں۔ تھیٹر، فلم اور ڈراموں پر پابندیاں ہیں۔ نوجوانوں کے پاس انٹرٹینمنٹ کے ذرائع محدود ہیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ غیر نصابی سرگرمیوں کو بحال کریں اور فطرت کو قبول کرتے ہوئے معاشرے میں بے جا پابندیوں میں نرمی کی جائے اور جتنی جلدی ہو سکے ہمیں اپنی جنسی رویوں میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ اس بے انتہا گھٹن کا خاتمہ کرنا ہوگا، ورنہ آنے والی نسل شدید نفسیاتی اثرات کا شکار ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments