بچھڑنا مقدر تھا


” بیٹا تم ایک بار پھر سوچ لو اس بارے میں۔“

”امی، جب مجھے اتنی جلدی شادی کرنی ہی نہیں ہے اور نہ ہی اتنی دور جانا ہے تو پھر آپ کیوں زور دے رہی ہیں؟“ اریبہ نے جھنجھلاتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

” جلدی تو نہیں ہے خیر صحیح عمر ہے بیٹا یہ۔ گریجویشن بھی مکمل ہو گیا ہے اور ماسٹرز تو تم شادی کے بعد بھی کر سکتی ہو۔ بلکہ جو بھی کرنا چاہو وہ کر سکتی ہو، وہ لوگ کوئی پابندی نہیں لگائیں گے تمہارے اوپر تمہاری تعلیم کے حوالے سے۔ اور دور کہاں بیٹا اسلام آباد اتنا بھی دور نہیں اور ویسے بھی اب تو آنا جانا بھی آسان ہے۔“ امی نے پیار سے سر سہلاتے ہوئے اریبہ کو سمجھایا تو وہ خاموشی سے ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی اور آنکھیں موند لیں۔

”یار یہ تم کہاں بیٹھے بیٹھے کھو جاتی ہو“

یاسر کی آواز پر چونک کے اریبہ نے اس کی طرف دیکھا اور ایک سرد آہ بھر کے پھیکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجا کے بولی، ”آپ کب آئے؟“ ۔

”جب آپ“ کسی ”کے خیالوں میں ڈوبی ہوئی تھیں“ یاسر نے ذرا شوخ لہجے میں اریبہ کو چڑایا۔ اور حسب سابق وہ چڑھ گئی تھی۔

”آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں ہے میری زندگی میں، نہ آپ سے پہلے کوئی تھا۔ پھر آپ یہ کیوں کہتے رہتے ہیں؟“ اس نے قدرے برا مان کر کہا۔

”ارے ارے ایک تو تم فوراً دل پہ لے لیتی ہو۔ میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ تم یقیناً اپنے میکہ والوں کو یاد کر رہی ہوگی“ یاسر نے آگے بڑھ کر اریبہ کے ہاتھ تھام کر کہا۔

پھر ہلکے پھلکے لہجے میں اسے چھیڑتے ہوئے کہنے لگا ”اور ویسے تم جتنا ان لوگوں کو یاد کرتی ہو سچی کبھی تو میں رشک کرتا ہوں اور کبھی بہت جیلس ہوجاتا ہوں۔ اتنے اچھے شوہر کے ہوتے ہوئے بھی تم ان لوگوں کو یاد کرتی رہتی ہو۔ مجھے ایسا لگنے لگتا ہے کہ میں بہت جلاد قسم کا شوہر ہوں۔“

”ایسی بات نہیں ہے یاسر آپ بہت اچھے ہیں لیکن آپ کی محبت اپنی جگہ اور میرے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی محبت اپنی جگہ۔ آپ کی محبت کا خانہ الگ ہے اور ان کی محبت کا خانہ الگ۔ میں بس ان لوگوں سے اتنی دور ہوں شاید اسی لیے ہر وقت یاد کرتی رہتی ہوں۔ آپ تو میرے پاس ہیں تو آپ کو یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے“ ۔

اریبہ نے رسان سے سمجھاتے ہوئے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ دل میں ایک دھڑکا بھی ہونے لگا کہ کہیں اس بات پہ یاسر کا موڈ خراب نہ ہو جائے پھر خود ہی بات سمیٹتے ہوئے بولی، ”چلیں آپ فریش ہو کر آئیں میں اچھی سی چائے بنا کر لاتی ہوں۔ ابھی تک آپ کے انتظار میں اماں ابا نے بھی چائے نہیں پی“ ۔

”چلو ٹھیک ہے تم بناؤ میں فریش ہو کر اماں ابا کے پاس جا رہا ہوں وہیں چائے لے آنا“ ۔ یاسر اس کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بولا۔

اریبہ حسن پانچ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھی۔ ایک بڑی آپا فریحہ، داؤد بھائی کے بعد اریبہ اور پھر عائشہ اور معاذ تھے۔ آپس میں مثالی محبت تو نہ تھی بلکہ اکژ اوقات تو بس لڑائی جھگڑا ہی ہوتا رہتا تھالیکن ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے تھے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ پاس رہا بھی نہ جائے اور دور جایا بھی نہ جائے کی عملی تفسیر تھے سب۔ د اؤد بھائی کا تو رعب تھا بہت حالانکہ اتنے بڑے نہیں تھے مگر بس کچھ بزرگوں والا رعب رکھنے کا شوق تھا انہیں۔ فریحہ آپا بھی یوں تو بہت کوشش کرتی تھیں بڑی آپا بننے کی مگر اریبہ، عائشہ اور معاذ ان کی ڈانٹ کو کسی گنتی میں شمار ہی نہیں کرتے اور بھولی سی آپا کو اکژ ہی اپنی خوشامدی باتوں میں لگا کر اپنی شرارتیں کرتے رہتے تھے۔

اریبہ فطرتاً سادہ اور حساس لڑکی تھی۔ بہت شوخ اور شرارتی تو نہیں البتہ اپنے چھوٹے بھائی بہن کے ساتھ ان کی شرارتوں میں شامل ضرور ہوتی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اپنا دامن بچا کے نکلنے کا بھی راستہ محفوظ رکھتی تھی۔ اور کبھی جب ڈانٹ کے ساتھ مار پڑنے کی توقع ہوتی تو صاف مکر جاتی کہ میں تو موجود ہی نہیں تھی یا پھر کبھی کہتی کہ میں تو خود ان لوگوں کو منع کر رہی تھی مگر یہ سن ہی نہیں رہے تھے۔ اور ایسے میں عائشہ اور معاذ اس کے میسنے پن پر دانت پیستے رہ جاتے اور آئندہ ساتھ نہ کھلانے کی دھمکی دیتے۔

”ہنستے کھیلتے، لڑتے جھگڑتے کب بچپن اور لڑکپن گزر گیا۔ آج سوچوں تو خواب سا لگتا ہے“ ۔ اریبہ نے بے ساختہ خود کلامی کی تو اس کی ساس نے جاتے جاتے پلٹ کر اس سے پوچھا، ”کیا بات ہے بیٹا؟ اداس ہو؟“

” نہیں نہیں اماں ایسی کوئی بات نہیں ہے“
”ارے بیٹا، جو بھی بات ہے تم مجھ سے بھی کہہ سکتی ہو، بتا سکتی ہو“ ۔ اماں نے مسکرا کر اریبہ سے کہا۔

اریبہ جو کچھ جھجک محسوس کر رہی تھی ان کی بات سن کر حوصلہ کر کے بولی، ”بس اماں، گھر والے یاد آرہے تھے، امی کے ہاں تو ماشا اللہ سے شوروغل رہتا تھا، یہاں پر خاموشی ہے شاید اسی لیے“ ۔

”لو بیٹا، یہ کیا بات کہی تم نے کیا ہم تمھارے گھر والے نہیں ہیں اور خاموشی کی کیا بات ہے؟ میں ہوں گھر میں، اسماء ہے، تم خود ہی منہ بنا کے یا اداسی کی تصویر بن کر گھومتی رہتی ہو۔ اسماء تم سے صحیح طرح سے بات نہیں کرتی یا پھر یاسر کا رویہ صحیح نہیں ہے تمھارے ساتھ؟“ اماں نے ایک دم ہی اس کے جواب میں کھری کھری سنا دیں تو وہ ہکا بکا ان کی شکل دیکھنے لگی۔

”اماں ایسا تو کچھ نہیں کہا میں نے، آپ سب بہت اچھے ہیں بس اسماء اپنی پڑھائی میں لگی رہتی ہے اور آپ بھی خاموش طبع ہیں تو بس۔ اور یاسر تو گھر میں ہوتے ہی نہیں ہیں“ ۔

”بیٹا برا مت ماننا خود کو گھر کا حصہ سمجھو گی تب ہی دل لگے گا تمھارا“ اماں نے ہاتھ اٹھا کے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔ ”مگر تم ماضی سے باہر نکلو تو کچھ ہو، ہر وقت جب ان کو ہی یاد کرتی رہو گی تو یہی ہوگا اور پھر فون پر بھی تو بات کرتی ہو، جب بھی دل نہیں بھرتا۔ خیر سے تین سال ہوگئے شادی کو بچے پر توجہ دو، گھر پر توجہ دو لیکن نہیں بھئی۔ ۔ ۔“ اماں اسے حیران پریشان اپنی سنا کر کچن سے چلی گئیں تھیں۔ اور وہ پلکیں جھپک جھپک کر آنکھوں میں آنسو پیچھے دکھیلنے کی کوشش کرنے لگی۔

یار تمہیں میں کیسے سمجھاؤں، کیوں اداس رہتی ہو تم ہر وقت؟ ”یاسر نے اس کا رخ اپنی طرف موڑ کر کچھ جھنجھلا کے کہاتو اریبہ، جو سونے کے لیے کروٹ بدل کر لیٹ گئی تھی، نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔“ اب پھر تم پر ڈپریشن کا دورہ پڑ گیا، جب دیکھو تب ہی اداس شکل بنی ہوئی ہوتی ہے۔ ”یاسر نے تپ کر کہا تو اریبہ کو بھی غصہ آ گیا۔“ آپ سے کس نے کہا ہے کے میں اداس ہوں بس آتے ہی مجھ پر شروع ہوگئے، اس لہجے میں بات کریں گے تو کیا رونا نہیں آئے گا مجھے؟ ”

”دیکھو اریبہ میں مانتا ہوں کہ تم اپنے ماں باپ سے بہت دور ہو، سال میں ہی آنا جانا ہو پاتا ہے کراچی اتنا قریب نہیں ہے پھر بھی تم ہر سال چلی تو جاتی ہواور اب تو ہماری شادی کو بھی تین سال ہوگئے، ایک پیاری سی گڑیا بھی ہے ہمارے پاس۔ اتنے عرصہ میں تو دل لگ جاتا ہے۔ سب ہی لڑکیاں سسرال میں آکے خود کو ان کے طور طریقوں میں ڈھال لیتی ہیں اور نئی زندگی کو خوشی سے قبول کرتی ہیں لیکن تم پتا نہیں کیوں خوش نہیں رہتیں؟ کیوں ہمیں قبول نہیں کر پائیں؟ کیا میں اچھا شوہر ثابت نہیں ہوا؟ میں اپنی سی پوری کوشش کرتا ہوں تمہیں خوش رکھنے کی مگر پھر بھی لگتا ہے ناکام ہوں“ ۔ یاسر نے آرام سے اریبہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

”یہ آپ سے اماں نے کہا ہوگا کہ میں خوش نہیں ہوں، ہے ناں؟“ اریبہ نے شکوہ کناں نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

”چلو آؤ اٹھو باہر چلیں۔ تم فریش ہو جاؤ گی“ ۔ یاسر نے بات کو ختم کرنے کی غرض سے اریبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا

لیکن اریبہ برہم ہو کر اٹھ کر بیٹھی اور اس کی طرف دیکھ کر تیز لہجے میں بولی ”میرا ایسا کوئی موڈ نہیں ہے اور ایک تو جب کوئی ایسی بات ہو اماں آپ سے کہہ دیتیں ہیں۔ میں نے کسی سے کوئی شکایت نہیں کی تھی، نہ ہی میں اداس رہتی ہوں، بس سب مجھ سے اتنی دور رہتے ہیں اس ہی لیے بہت شدت سے یاد آتے ہیں۔ اور اماں نے خود ہی مجھ سے پوچھا تھا میں تو کوئی اداسی کا اشتہار بنی نہیں گھوم رہی تھی۔ اور کب آپ نے میرے رویے میں محسوس کیا کے میں آپ لوگوں کو قبول نہیں کر پائی؟ کب آپ نے دیکھ لیا کے اس گھر کو اپنا گھر نہیں سمجھا لیکن اگر دوسرے مکینوں کے دلوں میں گنجائش نہیں ہے میرے لیے تو میں کیا کروں؟“

”آرام سے آرام سے بیگم، تم تو ایک دم ہی غصے میں آ گئیں“ یاسر نے اریبہ کو غصے میں دیکھ کر اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ فطرتاً وہ صلح جو قسم کا انسان تھا۔ اس لیے فوراً ہی بات کو ختم کرنے کی کوشش کرتا۔

” یار اماں دل کی بری نہیں ہیں تمہیں پتہ ہے نا۔ اور شاید ہر عورت ساس بننے کے بعد تھوڑی سی خود غرض ہو جاتی ہے۔ پہلے وہ بھی ایسی نہیں تھیں اور تمہیں بھی یاد ہوگا کہ شادی سے پہلے وہ تمہاری بھی کتنی تعریفیں کرتی تھیں اور اب بھی خیال کرتی ہیں تمہارا۔ خود بھی ان سب تجربات سے گزر چکی ہیں لیکن اب ساس بن گئیں ہیں تو جیسے پھر وقت اپنے آپ کو دہرا رہا ہے۔ یہ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔ عورت جب خود با اختیار ہوتی ہے تو پھر اپنا وقت بھول جاتی ہے۔ بس یہی بات ہے ورنہ وہ بہت اچھی ہیں“ ۔ یاسر نے اماں کی طرف سے اس کا دل صاف کرتے ہوئے کہا اور ہلکے سے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔

”اچھا ٹھیک ہے میں نے آپ سے پہلے بھی کوئی شکایت نہیں کی تھی اور نہ اب کی ہے، آپ بھی سوجائیے۔ گڑیا بھی سو گئی آج جلدی اور مجھے بھی نیند آ رہی ہے“ اریبہ نے بات کو سمیٹتے ہوئے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔

”اؤ کے شب بخیر“ یاسر نے اریبہ کی پیشانی پر اپنے لب رکھے اور کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔ اریبہ نے نم آنکھوں سے اس کی پیٹھ کو دیکھا۔ تھوڑی ہی دیر میں یاسر کی ہلکے ہلکے خراٹے کمرے میں گونج رہے تھے اور اریبہ کا تکیہ آنسؤں میں بھیگ رہا تھا۔ پھر وہ خاموشی میں چلتی ہوئی کھڑکی میں جا کر کھڑی ہوگئی اور چاند کو تکتے ہوئے اس کی آنکھیں مینہ برسارہی تھیں اور اس کی منتشر سوچیں اس کی سماعتوں میں گونجنے لگیں۔

” یہ محبتیں بہت عجیب ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ یاسر میں آپ کو کیسے سمجھاؤں، محبت کی کوئی بھی شکل ہو کسی سے بھی ہو، یہ قرب مانگتی ہے۔ میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں اور آپ کے گھر والے بھی مجھے بہت عزیز ہیں۔ مگر میں کیا کروں میرے والدین کی محبت کا، میرے بہن بھائیوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ والدین اگر دل پر پتھر رکھ کر اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہیں تو بیٹیاں بھی دل میں تڑپ اور کسک لیے ہی رخصت ہوتی ہیں۔ اور اگر بیٹی میری طرح پردیسی ہو جائے تو یہ کسک تا حیات اس کے ساتھ رہتی ہے“ ۔

” امی میں آپ کو کیسے بتاؤں آپ کی وجود کی خوشبو اپنے گرد نا پا کر میں کتنی سسکتی ہوں۔ آپ کے قرب کا لمس محسوس کرنے کے لیے تڑپتی ہوں۔ مگر یہ انتظار میرے نصیب میں چند دنوں کا نہیں، چند مہینوں کا نہیں بلکہ سالوں کا ہے۔ ابو آپ کی پیار بھری ڈانٹ کا، آپ کے شفیق ہاتھوں کی ٹھنڈی چھاؤں جب سر پر آکر ٹھہرتی تھی، اس پل کا کتنی شدت سے میں انتظار کرتی ہوں۔ فون پر بات کر لینے یا فون پر ایک دوسرے کو دیکھ لینے سے وہ تشنگی نہیں مٹتی جو ہر دن کے اختتام پر جسم و جاں میں بڑھتی جاتی ہے۔

کبھی کبھی یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے ابھی دروازہ بجے گا اور آپا، بھائی، عائشہ اور معاذ ہنستے ہوئے آئیں گے اور سرپرائز کہہ کر میرے گلے لگ جائیں گے۔ ہم خوب باتیں کریں گے خوب تنگ کریں گے ایک دوسرے کو۔ لیکن یہ باتیں شاید فلموں میں یا کہانیوں میں ہوتی ہیں، حقیقت میں بس وہی خاموشی اور سناٹے ہوتے ہیں جو مقدر میں لکھ دیے جاتے ہیں“ ۔

”بیٹی کا پرایا ہونا مقدر ہوتا ہے، اس کا بچھڑنا نصیب ہوتا ہے۔ مگر یہ کسی کو کیسے بتاؤں پھول جب شاخ سے جدا ہوجاتا ہے تو پھر دوبارہ نہیں کھلتا۔ وہ کسی اور کے آنگن کو اپنی خوشبو سے مہکا تو دیتا ہے لیکن خود پھر نمو نہیں پاتا۔ شوہر کی محبت اور سسرال والوں کی محبت بیٹی کو خوش و خرم رکھتی ہے۔ اس پھول کو تروتازہ رکھتی ہے۔ مگر بیٹیوں کے دل کے نہاں خانوں میں کہیں اداسی ڈیرا ڈال کے رکھتی ہے۔ ماں باپ تو اپنی اولاد کو خوش دیکھ کر اپنا سارا دکھ اور اداسی بھول جاتے ہیں۔ اولاد کے طمانیت بھر ے چہرے ان کے انتظار کی ساری تھکن زائل کر دیتے ہیں“ ۔

”میں شاید لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی کہ ایک کسک تاحیات دل میں رہتی ہے اور رہے گی۔ شاید یہ کسک مٹ جائے اگر یہ فاصلے نہ ہوں۔ یہ اداسی اپنا رنگ پھیکا کر دے اگر جو یہ سرحدیں نہ ہوں۔ لیکن یہ ممکن نہیں۔ ۔ ۔ اب کبھی ممکن نہیں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments