میں ادب کیوں پڑھتا ہوں؟


ادب نے سونپی ہمیں سرمہ سائی حیرت
زبان بستہ و چشم کشادہ رکھتے ہیں
(غالب)

’میں مختلف طریقے سے ظاہر ہونے والی آواز ہوں۔ میں اس لا محدود کی آواز ہوں، جس کے بے شمار پہلو ہیں اور یہ پہلو مختلف نوعیت کے ہیں۔ میں اس کبھی نہ ختم ہونے والی مسرت کی آواز ہوں، جو تمام چیزوں میں جاری و ساری ہے۔ مسرت میرے تخلیق کا بنیادی نقطہ ہے اور میری زندگی کا مقصد بھی

(رابندر ناتھ ٹیگور)

بچپن میں جب ریڈیو پہ پرانی فلموں کے سنگیت سنا کرتے تھے۔ شارٹ ویو ریڈیو کان سے لگائے پرانے زمانے کے مدھر گیت سننے کی عادت بن گئی تھی۔ چچا جان پرانے گیتوں پر کافی دسترس رکھتے تھے، وہ گیتوں میں اتنے ماہر تھے کہ گلوکار، موسیقار، فلم کا نام اور فلم کے ادکار کا نام بھی بتا دیتے تھے کیا خوبصورت آوازیں تھیں، محمد رفیح، میکش، کشور کمار، طلعت عزیز، مہدی حسن، نور جہاں، لتا منگشکر، اشا بھوسلے، جگجیت سنگھ، چترا سنگھ، مہندرا کپور، اقبال بانو، اور عابدہ پروین کو بچپن میں ہی سن لیا تھا، ریڈیو پہ آخری گیت ہمیشہ رفیح صاحب کا یا کشور کمار کا ہوا کرتا تھا۔ یہ ادب سے پہلا ناتا تھا

ادب سے شناسائی تب ہوئی جب میں انتظار حسین کے کالم پڑھتا تھا، ان دنوں ان کے کالم روز نامہ ”ایکسپرس“ میں ”بندگی نامہ“ کے نام سے شائع ہوتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں میٹرک کا طالب علم تھا۔ مجھے اس وقت نہیں معلوم تھا کہ نثر کیا ہو تی ہے؟ شاعری کیا ہوتی ہے؟ اور نہ ہی ادب کی، ا، د، ب سے وقف تھا۔ ان تمام چیزوں کا ادراک انتظار حسین صاحب کے کالموں سے ہوا۔ وہ کالم تھوڑی تھے ایسا لگتا تھا کہ ہماری دادی اماں ہمیں ماضی اور حال کے قصے سنا رہیں ہیں، مجھے اخبار پڑھنے کا بھی صحیح ادراک نہیں تھا، یہ راہنمائی ہمارے چچا جان نے بتائی۔

اخبار پڑھنے کا طریقہ بھی بتایا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ اخبار میں سب سے اہم چیز کالم ہوتے ہیں۔ انتظار حسین صاحب کے بعد مسعود اشعر، پروفیسر اسرار بخاری، عطا الحق قاسمی، ظفر اقبال، وسعت اللہ، اور یاسر پیر زادہ۔ یہ وہ حضرات ہیں جو ادب پر زیادہ لکھتے ہیں، اس کے بعد مشفق خواجہ اور ابن انشا کے کالموں سے مستفید ہوا۔ یہ وہ کالم نگار ہیں جو ان حضرات سے پہلے کالم نگاری کر چکے ہیں۔ میں نے ان کے کالم کتابی صورت میں پڑھے۔ ان کالم نگاروں کی نسبت سے مجھ ادب سے شناسائی ہوئی۔ ان کالموں میں شاعری، افسانوں، ناولوں، ڈراموں، آپ بیتیوں اور کرداروں پہ فنی و فکری تجزیے اور تجربے ملے۔ پھر اس کے بعد افسانے، ناول، شاعری اور آپ بیتیوں کو پڑھا۔

ادب سے دوسرا رشتہ کالموں ہی کی بدولت ہوا

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

یقننآ یہ بہت کٹھن سوال ہے کہ ادب کیوں پڑھا جاتا ہے یا میں ادب کیوں پڑھتا ہوں

میں جو ادب کے بارے میں تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھتا ہوں بتانے کی جسارت کرتا ہوں۔ میں نے ادب کو ذہنی تشفی کے لیے کبھی نہیں پڑھا نہ ہی تنقید کی میزان پہ پرکھا ہے، میں ادب کو آپ بیتی کی طرح پڑھتا ہوں، میں ادب میں اپنی کہانی ڈھونڈتا ہوں، افسانوں، ناولوں میں اپنا کردار تلاش کرتا ہوں بعض دفعہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کرداروں میں میری زندگی جھلکتی نظر آتی ہے۔ میں جب ادب پڑھتا ہوں تو اپنا وجود اس میں شامل کر لیتا ہوں، اور یہ سچ ہے ادب کو صرف اپنے وجود سے ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

مثلآ منٹو کی چھ مشہور کہانیاں ( بیگو، موسم کی شرارت، لال ٹین، ایک خط، مصری کی ڈلی، چغد) جو بٹوت یا بٹوٹ کے مقام پر ایک کشمیری چرواہی لڑکی سے عشق ہو جا تا ہے جس میں اپنے ناپختہ عشق کی داستاں بیان کی ہے۔ ان کہانیوں میں ایسا لگتا ہے کہ اس ناکام عشق میں، میں بھی شامل تھا۔ سیتا ہرن کے مرکزی کردار ”سیتا“ سے مجھے بہت ہمدردی رہی شروع میں سیتا پچیدہ لگی لیکن اخر میں جب وہ تنہا رہنے لگی دل میں خواہش پھو ٹی کہ کاش میں سیتا کا سہارا بنتا، اسی طرح راجہ گدھ کے مرکزی کردار (سیمی شاہ) سے محبت ہو گئی میں بعض دفعہ سمجھ بیٹھا کہ میں افتاب ہوں، منٹو کے وہ افسانے جن میں وہ سراپا احتجاج کرتے نظر اتے ہیں ان افسانوں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ میں بھی منٹو کے ساتھ احتجاج کر رہا ہوں۔

اداس نسلیں کا نعیم کس طرح ہمارے وجود میں منتقل ہوتا ہے۔ انتظار حسین کا آخری آدمی پڑھ کر ایسے لگتا ہے کہ آخری ادمی کا کردار میں نباہ رہا ہو یا اس کے ساتھ شریک ہوں، زرد کتا کو لے لیجیے ایسا لگتا ہے نفس امارہ میں، میں بھی شریک ہو گیا ہو، میں ادب کو اپنے اوپر لاگو کرتا ہوں، مجھ ادب اپنی طرف کھینچتا ہے، اور ادب ایسی خوبصورت تحریر جو ہمیں متاثر کرے، جو ہمارے دل کو چھو لے اس کو ہم ادب کہتے ہیں ادب ہمارے جذبات احساسات اور تجربے کی عکاسی کرتا ہے ادب ہمارے احساس جمال کی تشفی و تشریح کرتا ہے ہے۔ ادب سے جو لوگ تعلق رکھتے ہیں یا ادب کو پسند کرتے ہیں ان کو اپنے مزاج کا پھول مل جاتا ہے۔ ادب ہمیں سیرت و بصیرت عطا کرتا ہے میں ادب کو اس لیے پڑھتا ہوں کہ یہ ہمیں کھرے کھوٹے کی تمیز سکھتا ہے، سچ اور جھوٹ کی نشاندہی کرتا ہے، ماضی سے جوڑتا ہے، حال میں رہنے کا درس دیتا ہے اور مستقبل کی نوید سناتا ہے۔

محمد رضا، ایم فل پنجاب یونیورسٹی
Latest posts by محمد رضا، ایم فل پنجاب یونیورسٹی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments