آصف فرخی اپنا گلوب اپنے ساتھ لے گیا ہے


میں موت پر نہیں لکھ سکتا۔ کم از کم آصف کی موت پر نہیں۔ کیا موت نے اب ہماری عمر کے لوگوں کا دروازہ دیکھ لیا۔ ہٹا کٹا صحت مند۔ پیشے سے ڈاکٹر۔ مگر باہر اور اندر تک ادب کا سمندر۔ ایک بڑے باپ کا بیٹا۔ باپ نے بھی زندگی ادب میں بسر کی۔ بیٹے نے روایت کو نا صرف آگے بڑھایا بلکہ ایک ایسا نام ثابت ہوا کہ جس کے وجود میں اردو مہکتی تھی۔ جو اردو کو ساری دنیا میں پھیلانا چاہتا تھا۔ جو اردو سے وابستہ چھوٹی چھوٹی خبروں پر خوش ہو جایا کرتا تھا۔

میں نے اسے فہمیدہ ریاض پر آنسو بہاتے دیکھا۔ انتظار حسین پر۔ عبد اللہ حسین پر۔ اس کی گرفت میڈیا پر تھی۔ سارک فیسٹیول کا حصہ تھا۔ بین الاقوامی سطح پر بڑے سیمیناروں کا ہیرو تھا، کیوں کہ وہ اردو کے معاملے میں، اس دور میں سب سے زیادہ اپ ڈیٹ تھا۔ بکر اور نابل انعامات پر اس کی نظر رہتی تھی، اور وہ بچوں کی طرح خوش ہو جاتا تھا، جب فاروقی یا انتظار حسین کا نام آتا تھا۔ وہ آج کی تاریخ میں ایک ادارہ تھا۔ وہ اردو کے معیار کا رکھوالا تھا۔

میں رک رک کر چل رہا ہوں، یا چلتے چلتے ہانپ رہا ہوں۔ یا وقت رک گیا ہے؟ یا لمحہ فریز ہو گیا ہے۔ اس کی موت سے ایک منٹ قبل، جب اس کی سانسیں زندہ تھیں۔ اور میں ٹائم مشین کو ذرا پیچھے لے آیا، جب وہ ہم سب کے لئے ویڈیو پروگرام بنا رہا تھا۔ اور ہم عاشق اردو اس کے ہر پروگرام پر فریفتہ تھے۔ ابھی دو دن پہلے کی بات۔ اس نے ایک خاتون کے ساتھ ایک تصویر شیر کی۔ ہم میں اس کی شخصیت اکیلی تھی کہ اردو کا ہم نوا ہو کر بھی اس کے شناسا دیگر زبان کے لوگ تھے۔ فرنچ، جرمن، کینیڈین۔ وہ ان کے درمیاں خوش رہتا تھا۔

ٹائم مشین کو ذرا پیچھے لے جاتا ہوں۔ محبوب الرحمن فاروقی آج کل کے مدیر تھے۔ 1988ء کا زمانہ۔ فون آیا، ذوقی آ جاو۔ آصف آئے ہوئے ہیں۔ آصف کا مطلب ادب کی خوشبو۔ پہلی ملاقات میں وہ شرمیلے نظر آئے۔ فکشن اور موجودہ ادب پر خوب باتیں ہوئیں۔ آصف بولتے رہے۔ فکشن کو وقت کے ساتھ بدلنا ہے۔ پاکستان میں بھی بہت حد تک تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ پھر ہم دو تین بار انڈیا انٹرنیشنل میں ملے۔ یادیں محفوظ ہیں۔ آصف نے “دنیا زاد’ کا اجرا کیا تو ہم آصف کے مرید ہو گئے۔

“شہر زاد” کے نام سے پبلیکیشن ہاوس قائم کیا تو معیاری، غیر معمولی کتابوں کی اشاعت کو یقینی بنا دیا۔ وہ چلتا پھرتا ادارہ تھا۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں، اردو کا سب سے نوجوان چہرہ۔ اس کی باتیں مستند مانی جاتی تھیں۔ اس نے ترجموں کی ضرورت کو سمجھا۔ ابھی دو دن پہلے عمران عاکف میرے پاس آئے تو میں نے آصف کا ایک ترجمہ پڑھنے کے لئے دیا اور کہا، سیکھو، ترجمہ کیسے کیا جاتا ہے۔ آصف، ہماری مسلسل گفتگو کا حصہ، میں بھیانک خواب سے گزر رہا ہوں، آصف ہماری دنیا سے کیسے جا سکتا ہے۔

سوغات میں برسوں پہلے اس کی کہانی ممبئی پڑھی۔ فکشن کے لئے ایک دیوانگی نظر آئی وہ بت شکن تھا، کہانی کے اصول پیمانے کی نفی کرتا تھا۔ وہ اپنا راستہ ایجاد کرتا تھا۔ اسے مارخیز، پاموک، میلان کنڈیرا، بورخیس، ایرانی، ترکی ادیب، نجیب محفوظ پسند تھے۔ مگر وہ کہانیاں لکھتے ہوئے اپنی ڈگر کا مسافر تھا، وہ کسی کی پیروی نہیں کرتا تھا۔ اس کے خیالوں میں ہمیشہ فکشن کا عالمی معیار ہوتا تھا اور اسی لئے دنیا زاد کے کسی بھی شمارے کے ساتھ اس نے کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔

وہ کورونا کے دنوں میں گیا۔ اس نے لاک ڈاون کے دنوں میں الوداع کہا۔ وہ ڈاکٹر تھا۔ البرٹ کامو کا کردار ڈاکٹر ریو۔ جو اس وقت رو رہا تھا، جب مہلک وبا سے انسانوں کی ہلاکت سامنے آ رہی تھی۔ یقینی طور پر خوشیاں تقسیم کرنے والا آصف خوف زدہ ہو گا کہ الہی، ہم مستقبل کے کیسے ڈارک روم یا بلیک ہول میں اتار دیے گئے ہیں۔ خدا، یہاں بہت گھٹن ہے۔ اور وہ نا ختم ہونے والے اندھیرے میں سما گیا، اپنی بیش قیمت کتابوں کا ذخیرہ چھوڑ کر۔

میں رک رک کر چل رہا ہوں، یا چلتے چلتے ہانپ رہا ہوں۔ یا لمحہ فریز ہو گیا ہے۔ یا وقت رک گیا ہے۔ میں دونوں ہتھیلیوں کے ناخنوں کو رگڑتا ہوں تو ایک بجلی لپکتی ہے۔ میں ہوش میں ہوں۔ سانسیں زندہ ہیں۔ مگر آہ۔ کوئی چلا گیا ہے۔ واپس نہیں آئے گا۔ کل تک اس کی آنکھیں سب کچھ دیکھ رہی تھیں، اب وہ گیلی مٹی کا حصہ ہے۔ ہم سب کچھ کیسے دیکھ لیتے ہیں؟ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟

وہ اس گلوب کو اپنے ساتھ لے گیا ہے، جہاں وہ اپنے مکالموں کے ویڈیو بناتا تھا۔ اور اس کے پروگرام گلوبل دنیا کو حیران کر دیتے تھے۔ ہم انتظار کریں گے۔ عدم آباد کی خاموش وادیوں میں بھی وہ فرشتوں سے اردو کی کتابیں مانگے گا۔ ہم اس کے پروگرام کا انتظار کریں گے۔ وہ اتنا کچھ اثاثہ چھوڑ گیا ہے کہ ہم اسے مرنے نہیں دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments