مودی، بھارت اور جنوبی ایشیا کی سیاست


نریندر مودی اور آر ایس ایس کا باہمی گٹھ جوڑ بھارت سمیت مقبوضہ کشمیر اور بالخصوص جنوبی ایشیا کے سیاسی استحکام میں ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ کیونکہ مودی کی ہندتوا کی حمایت میں جاری انتہا پسند پالیسی اور مسلم دشمنی یا دیگر اقلیتوں کے بارے میں بھی اختیار کی گئی پالیسیوں نے ان کا جمہوری مقدمہ کم زور کیا ہے۔ بھارت میں موجود مسلمان اور دیگر اقلیتیں خود کو بہت غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ مودی حکومت بشمول آر ایس ایس کا باہمی گٹھ جوڑ مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔ مودی حکومت کی مسلم دشمنی کی ایک سوچ یا فکر کو اس تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ کرونا کے پیدا ہونے یا پھیلاو کی وجہ بھی مسلمان ہی کو سمجھتے ہیں۔ یعنی کرونا کی سیاست میں بھی مودی حکومت مذہبی کارڈ کھیل کر بے وجہ کی اشتعال انگیزی کو فروغ دینے کا سبب بن رہی ہے۔

بھارت میں جہاں جہاں مودی اور آر ایس ایس کا باہمی گٹھ جوڑ مضبوط ہے، وہاں ہمیں مسلم دشمنی کے عملی مظاہرے دیکھنے کو آ رہے ہیں۔ وہاں چن چن کر مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ بھارت کے مجموعی میڈیا کا جائزہ لیں تو آپ کو مجموعی طور پر لگے گا کہ بھارت کے ٹی وی کا مجموعی کردار مسلم اور پاکستان دشمنی سے جڑا نظر آتا ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر ایسے ویڈیوز دیکھنے میں آتی ہیں، جن میں مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنا، ان پر تشدد ہو رہا ہے۔ بد قسمتی سے یہ سب کچھ ریاستی اداروں کے سامنے ہو رہا ہے۔ بی جے پی کی پوری کوشش ہے کہ وہ بھارت کو ایک سیکولر اسٹیٹ کے مقابلے میں خالصتا تھیو کریٹک اسٹیٹ کے طور پر پیش کریں اور اس سوچ، اس فکر میں ان کے اپنے ریاستی و حکومتی ادارے بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔

عمومی طور پر کسی بھی سماج میں رہنے والے لوگوں کو انصاف کی ضرورت پڑتی ہے، تو ان کا بنیادی اعتماد ہی اپنے ریاستی اداروں پر ہوتا ہے اور ان کو یقین ہوتا ہے کہ انہیں عدالتوں میں تقسیم، تفریق یا کسی تعصب کا سامنا نہیں کرنے پڑے گا۔ لیکن مودی حکومت کے ظلم و استحصال کا شکار ہونے والے بیش تر افراد کا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف ان کو مودی حکومت کی جانب سے مظالم کا سامنا ہے تو دوسری طرف ریاستی ادارے بھی ان کی حمایت کرنے کی بجائے مودی حکومت کی پشت پناہی میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کی حکومت بڑی تیزی سے بھارت کی داخلی سیاست میں نئے تضادات، ٹکراو اور انتشار کی سیاست کو جنم دینے کا سبب بن رہی ہے۔ بھارت میں مقیم مسلمان اور دیگر مذاہب کے پیروکار جہاں عتاب کا شکار ہیں، وہیں مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کی بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، کرفیو اور اب لداخ کے معاملے میں بھارت چین تنازع ظاہر کرتا ہے کہ پورے خطہ کی سیاست کو مشکل میں ڈالا جا رہا ہے۔

بنیادی طور پر بھارت پاکستان کی ترقی کے سب راستے کم زور کرنے کے کھیل کا حصہ ہے۔ جب بھی پاکستان کے داخلی اور خارجی محاذ پر کچھ نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں، تو بھارت اس کے خلاف میدان میں آ جاتا ہے۔ اس کی پشت پناہی امریکا اور اسرائیل کرتے ہیں۔ بھارت، امریکا اور اسرائیل کا بڑا مسئلہ سی پیک ہے اور خود نریندر مودی اسے قبول نہ کرنے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ایک طرف پاکستان کے ساتھ بھارت کی سخت کشیدگی، مقبوضہ کشمیر میں روا رکھی جانے والی بربریت اب گلگت بلتستان کے محاذ پر نیا کھیل ہے، تا کہ سی پیک کو کم زور کیا جا سکے۔ یہی وجہ بنی کے چین کو لداخ پر قبضہ کرنے کی کارروائی کی ہے۔

چین نے بنیادی طور پر امریکا، بھارت اور اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ وہ پاکستان کے دفاع پر کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں اور نا ہی کسی ایسے اقدام کی حمایت کی جائے گی، جس کا مقصد سی پیک کے منصوبے کو نقصان پہنچانا ہے۔ چین کے لداخ پر قبضے کے بعد بھارت کی جانب سے گلگت بلتستان پر حملہ کا جو خطرہ پیدا ہوا تھا، اس کے امکانات بھی اب بہت حد تک محدود ہوئے ہیں۔

دراصل جب پانچ اگست 2019 کو بھارت نے اپنے آئین میں تبدیلیاں کرتے ہوئے جموں و کشمیر اور لداخ پر اپنے قبضے کو مضبوط بنانے کے لیے ایک بڑا جارحانہ اقدام کیا۔ چین نے اپنے ردعمل میں بھارت کے اس اقدام کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں اپنا موقف دیا کہ چین لداخ کے معاملے میں ایسا نہیں ہونے دے گا، جو بھارت کرنا چاہتا ہے۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات اور مسئلہ کشمیر اپنی بڑی فوجی قوت کے جارحانہ اقدامات سے اپنے حق میں حل کر سکتا ہے، یعنی اس کے نزدیک مسئلہ کا حل عملاً طاقت پر مبنی سوچ اور پالیسی سے جڑا ہے۔

یعنی وہ پرامن اور سیاسی انداز میں بات چیت کے لیے کسی سے بھی تیار نہیں۔ پاکستان کے حوالے سے بھی دیکھیں تو گزشتہ چند برسوں میں ہم نے جتنے بھی آگے بڑھنے کے لیے سازگار تعلقات کی بحالی میں کوششیں کی، بھارت نے اس پر کوئی مثبت جواب نہ دیا۔ بلکہ پاکستان کی مٖذاکرات کی خواہش اور ان کے اقدمات کو یہ سمجھا گیا کہ پاکستان دنیا میں پھنسا ہوا ہے اس لیے مذاکر ات اس کی مجبوری ہیں اور مذاکرات کو بنیاد بنا کر اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے۔

حالانکہ پچھلے چند برسوں میں مودی حکومت کی جارحانہ، انتہا پسندی، مسلم و پاکستان دشمنی کی پالیسی سمیت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال نے عملی طور پر بھارت کو سیاسی، سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر سیاسی تنہائی دی ہے۔ عالمی اداروں کی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے پیش نظر انسانی حقوق سے جڑی رپورٹس ہوں یا اقلیتوں کی بھارت میں موجودہ صورتحال یا شہریت بل کی صورت میں پیدا ہونے والے داخلی بحران کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ بھارت پر عالمی دباو بھی بڑھ رہا ہے۔ یہ خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ بھارت کی موجودہ فوجی قیادت اور اجیت دوول کے درمیان اختلافات خاصے بڑھ گئے ہیں۔ بھارت کی فوجی قیادت میں یہ رائے بڑھ رہی ہے کہ اجیت دوول کی غلط پالیسیوں کے باعث بھارت بند گلی میں داخل ہوگیا ہے اور مودی پالیسی نے ہمیں سیاسی و سفارتی طور پر تنہا کر دیا ہے۔

نریندر مودی کی داخلی پالیسیوں نے بھی اسے اپنے ہی داخلی محاذ پر بھی خاصے مسائل کا سامنا ہے۔ مودی کی کوشش یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف ان موجود فکر کو میڈیا کی مدد سے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر انتہا پسند پالیسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھے۔ مودی کو لگتا ہے کہ اس کی کامیابی کی بڑی وجہ سخت گیر پالیسی ہی ہو سکتی ہے۔ بھارت کا مجموعی میڈیا کو دیکھیں تو اس میں ایک خاص فکر کے ساتھ پاکستان اور مسلم دشمنی کا ایجنڈا ڈال کر کوشش کی جارہی ہے کہ اپنے داخلی مسائل کی ناکامی میں ہم خود ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا جائے کہ وہ ہماری داخلی صورتحال کو بگاڑنا چاہتی ہے۔ دراصل پاکستان اور چین نے اپنے اپنے معاشی، سیاسی، دفاعی تعلقات میں اضافہ کیا ہے جس سے یقینی طور پر نئی دہلی میں دباؤ پڑا ہے۔

پاکستان کو اس وقت سفارتی محاذ پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر عالمی برادری میں ہمیں سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھارتی طرز عمل، تضادات اور بالخصوص بھارت کی داخلی سیاست میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا جن کا براہ راست تعلق پاکستان یا خطہ کی سیاست سے جڑا ہوا ہے کو نمایاں کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ باور کروانا ہو گا کہ ہم جنگ یا تعلقات کے بگاڑ کی بجائے امن پسندی اور دو طرف بات چیت کے حامی ہیں اور ہر فورم پر مکالمہ چاہتے ہیں۔ اس سوچ کو بھی اجاگر کرنا ہوگا کہ بھارت مذاکر ات کے تناظر میں خود بڑی رکاوٹ ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر بھی ہمیں سیاسی موقف کو لے کر ہی چلنا ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلہ پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔

اس وقت اچھا موقع یہ ہے کہ بھارت کیونکہ عالمی اور داخلی بحران میں ہے۔ ایسے میں ہماری حکمت عملی یہ ہی ہونی چاہیے کہ ہم بھارت پر اس دباو کو بڑھائیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس خطہ کی سیاست میں جہاں جہاں کشیدگی بڑھ رہی ہے اس کی وجہ بھارت ہی ہے۔ پاکستان بھارت تعلقات ہوں یا چین بھارت تعلقات یا اب ہم بھارت نیپال تعلقات کو دیکھیں تو لگتا ہے یہی ہے کہ بحران کی بنیاد بھارت ہی ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو بھارت کو سیاسی طور پر سیاسی تنہائی کی جانب دکھیل رہا ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم نے اپنے سفارتی یا ڈپلومیسی کارڈ اچھے کھیلے تو تو ہم بھارت کو بڑے دباو میں لاسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments