دودھ پر پلے بیٹے اور پانی کو ترستی مائیں


دودھاں نال پُت پال کے، پچھوں پانی نوں ترسدیاں مانواں۔ گاڑی میں ماں کی یاد میں کیول گریوال کے گائے ہوئے یہ بول سن کر بے اختیار اپنی والدہ یاد آ گئیں اور آنکھیں بے اختیار چھلک پڑھیں۔ ہم دونوں میاں بیوی بہت برس بعد پچھلی عید پر اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے اپنے گاؤں جا رہے تھے۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد سوچا کچھ رشتہ داروں کو ملتے ہیں۔ ایک رشتے کی خالہ کے گھر گئے۔ سہ پہر کا وقت تھا وہ صحن میں ایک چارپائی پر اکیلی لیٹی ہوئی تھیں۔ ہمیں دیکھا تو فوراً اٹھ کھڑی ہوئیں۔ گلے لگا کر پیار کیا، ہمیں اتنی مدت بعد دیکھ کربہت خوش ہوئیں۔ جب انھوں نے مجھے گلے لگایا تو میں نے محسوس کیا ان کو بخار ہے۔ میں نے پوچھا خالہ جان، آپ کو توبخار ہے۔ چلیں ہمارے ساتھ آپ کو شہر لے چلتے ہیں، ڈاکٹر کو چیک کروا کر داپس چھوڑ جائیں گے۔ انہوں نے کہا : بیٹا : بس معمولی سی حرارت ہے ٹھیک ہو جائے گی۔ ان کو اس طرح گھر میں اکیلے دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ ان کے ماشاء اللہ تین بیٹے ہیں۔ دو بیٹے بال بچوں کے ساتھ امریکہ میں سیٹل ہیں اور تیسرا شہر میں رہتا ہے۔ لیکن اس کی بیوی ان کو اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں اس لئے وہ اکیلی گاؤں میں رہ رہی ہیں۔ ہمارے ارد گرد اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ والدین چھ سات بچوں کو غربت۔ تنگدستی اورمشکل حالات میں پال پوس کر جوان کرتے ہیں۔ بچے بڑے ہو کر اپنے بہتر مستقبل کے لئے شہروں یا پھر بیرون ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ اپنا کیرئیر بنانے اور اپنے بچوں کا مستقبل بنانے میں وہ ان لوگوں کو بھول جاتے ہیں جنھوں نے ان کو اس قابل بنایا۔

میں جس علاقے میں میں رہتا ہوں، یہاں سے 1950 ء سے لے کر 1970ء تک ہزاروں نوجوان رزق کی تلاش میں انگلینڈ سدھارے۔ وہاں سیٹل ہونے کے بعد میں انہوں نے اپنے بیوی اور بچوں کو بھی وہاں بلا لیا۔ ویزہ کی مشکلات کی وجہ سے وہ اپنے ماں باپ کو اپنے ساتھ نہیں لے جا سکے۔ پندرہ بیس سال پہلے تک ذرائع آمدورفت بہت محدود تھے۔ صرف خط کے ذریعے سے ہی خیریت کا پتہ چلتا تھا۔ ان کئی برسوں میں ہمارے سامنے سینکڑوں مائیں اور باپ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے ملنے کو ترستے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

ماں باپ بڑھاپے میں پاکستان میں بنائے ہوئے بچوں کے بڑے بڑے محل نما گھر سنبھالتے رہے اور بچے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وہاں پاؤنڈ، ڈالر کماتے رہے۔ جب والدین کو بچوں کی ضرورت تھی اس وقت بچوں کی کوئی مجبوری انھیں نہیں آنے دیتی تھی۔ اس وقت بچے برطانیہ سے ان کوبہت سارے پاؤنڈ منی آرڈر بھیج کر خوش ہوتے رہے کہ ہم ان کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہمارے گاؤں کی ایک خاتون کے بیٹے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ برطانیہ میں مقیم تھے۔

خاتون ہمارے پڑوس میں اکیلی رہتی تھیں۔ جب بھی کسی بیٹے کا منی آرڈر آتا، وہ رقم وصول کر کے کسی کپڑے میں باندھ کر اسے کپڑوں والی پیٹی میں ڈال دیتیں۔ بیٹے ان کی بیماری کا سن کر آئے لیکن ان کی موت کے بعد ہی پاکستان پہنچ سکے۔ بچوں کی غیر موجودگی میں رشتہ داروں نے ہی ان کو دفنایا۔ بچوں نے ان کی موت کے بعد جب گھر کی تلاشی لی تو دیکھا، کپڑوں والی پیٹی میں والدہ نے پندرہ بیس سالوں کے د وران ان کے ارسال کردہ پیسے سنبھال کر مختلف جگہوں رکھے ہوئے تھے۔

1975 کے بعد جب بیرون ملک بچوں کی شادیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو پھر ایک دوڑ لگ گئی۔ سب والدین کی ایک ہی کوشش تھی، ان کے بیٹے اور بیٹی کی شادی باہر ہو جائے۔ ان شادیوں میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شادی شدہ ہو کر بیرون ملک چلے گئے اور والدین یہاں تنہا رہ گئے۔ اب میرے سمیت ایسے درجنوں والدین میرے شہر میں بستے ہیں جن کے بچوں کی شادیاں انگلینڈ۔ امریکہ اور یورپ میں ہوئیں۔ بچے وہاں سیٹل ہو گئے اور والدین یہاں تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بچے بھی مجبور ہیں نہ وہ یہاں رہ نہیں سکتے اور نہ ہی امیگریشن کے سخت قوانین کی وجہ سے وہ اپنے والدین کو وہاں بلا سکتے ہیں۔

1990 کے بعد پنجاب سے ہزاروں نوجوان اپنا مستقبل بہتر بنانے کے لئے مختلف ذرائع سے یورپ اور امریکہ گئے۔ ان میں سے سینکڑوں جوان غیر قانونی جاتے ہوئے ان تاریک راہوں میں مارے گئے۔ ہزاروں وہاں پہنچنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ جو وہاں سیٹل ہونے میں کامیاب ہوئے وہ اپنے بیوں بچوں کو بھی ساتھ لے گئے۔ یوں ان میں سے بہت سوں کے والدین پاکستان میں تنہا رہ گئے۔ سماجی رویوں اور یہاں کے رسم و رواج کی پابندیوں کی وجہ سے وہ والدین اپنی بیٹیوں کے پاس بھی نہیں رہتے اور نہ ہی بیٹیاں ان کے پاس زیادہ دیر رہ سکتی ہیں۔ والد اسی میں خوش ہیں کہ ان کے بچے باہر کے ملک میں بہت خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن جب شام ہوتی ہے تو اس وقت تنہائی میں بیٹھی ہوئی ماں کے دل پر کیا گزرتی ہے اس کو ایک ماں ہی بہترسمجھ سکتی ہے۔

ہمارے دیہاتوں سے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان نوکریوں کے لئے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ معدود مالی وسائل اور ناکافی سہولتوں کی وجہ سے وہ اپنے والدین کو شہر اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ اکثرپسند کی شادیوں اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے لئے بہویں اپنے ساس سسر کو ساتھ نہیں رکھتیں۔ والدین گاؤں یا شہر میں اکیلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تین یا چار بھائی ہونے کی صورت میں ہر ایک بہو چاہتی ہے کہ والدین کو دوسرے بیٹے اپنے پاس رکھیں۔

اس صورت حال میں بچارے والدین رل جاتے ہیں۔ ہر چھ ماہ یا سال بعد ان کا ٹھکانا بدلتا رہتا ہے۔ اس صورت حال پر مجھے لاہور میں رہنے والے رشتہ کے ایک چچا کی یاد آ گئی۔ وہ چاربیٹوں کے باپ تھے۔ بڑی محنت سے انہوں نے اپنا بہت بڑا کاروبار سیٹ کیا تھا۔ بڑے بیٹے کی شادی کی۔ اس کو پہلے علیحدہ کاروبار کرایا جب وہ اچھی طرح سیٹ ہو گیا تو ایک گھر بنا کر دیا اوراسے علیحدہ کر دیا۔ اسی طرح دوسرے دونوں بیٹیوں کو علیحدہ علیحدہ کاروبار اچھی طرح سیٹ کر کے دیا۔

ان کی شادیاں کیں اور اچھی جگہوں پر گھر بنا کر دیے۔ چھوٹے بیٹے کو اپنے ساتھ کاروبار میں شریک کر کے اپنے ساتھ رکھا۔ بڑے تینوں بیٹے اپنے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ رہنے لگے تھے۔ اسی دوران ان کی جیون ساتھی کا انتقال ہو گیا۔ بڑے بیٹے آ ئے چند دن رہ کر اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد ایک دن سب سے چھوٹی بہو نے کہا کہ بڑی بہویں عیش کر رہی ہیں اور بڈھے کو ہمارے پاس رکھ چھوڑا ہے۔ ان کا بھی حق بنتا ہے وہ اپنے والد کی خدمت کریں۔

حاجی صاحب نے کہیں یہ سن لیا۔ انہوں نے بڑے بیٹے سے اس کے پاس رہنے کی فرمائش کردی۔ بڑا بیٹا حاجی صاحب کو اپنے گھر لے گیا۔ دو ماہ بعدہی اس کی بچے اور بیوی حاجی صاحب سے تنگ آگئے اس کے بعد انہوں نے ایک سال تینوں بڑے بیٹوں کے پاس وقفے وقفے سے گزارہ۔ سب ہی دو دو تین ماہ کے بعد جب ان سے تنگ آگئے تو وہ پھر اپنے گھر لوٹ آئے۔ گھر واپس آ کر انہوں نے چھوٹے بیٹے کو بھی علیحدہ کاروبار کرایا اور نیا گھر لے کر اسے بھی علیحدہ کیا اور ستر سال کی عمر میں دوسری شادی کر لی۔

وہ اس بات پر سخت رنجیدہ تھے کہ انہوں نے بچوں کے لئے اتنا کچھ کیا اور یہ سب مجھے ایک سال اپنے ساتھ نہیں رکھ سکے۔ اس طرح کی اور سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جہاں والدین نے اپنے بچوں کو پال پوس کر پڑھا لکھا کر اچھی زندگی گزارنے کے لائق بنایا، وہ بیوی بچوں کو لے کر الگ ہو گئے اور بوجوہ والدین کو ساتھ نہیں رکھ سکے۔ اب والدین ان بچوں کی خوشی کی خاطر تنہا زندگی گزار رہے ہیں۔ والد تو پھر باہرجا کر کچھ وقت گزار لیتے ہیں۔ لیکن مائیں جنھوں نے پتہ نہیں کن کن مشکلات سے بچوں کو پالا ہوتا ہے وہ ان کے بغیرکیسے گزارہ کرتی ہوں گی یہ سوچ کرہی دل خون کے آنسو روتا ہے۔

یورپ اور انگلینڈ میں تو اولڈ پیپل ہوم بنے ہوئے ہیں جہاں بچے اپنے بوڑھے والدین کو چھوڑ آتے ہیں۔ کبھی مہینوں بعد چکر لگا کران کی خیریت کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ ان اولڈ ہومز میں رہتے ہوئے یہ بوڑھے والدین بچوں کی طرف سے بھیجے ہوئے ایک خط یا کارڈز پا کر بھی خوش ہو جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کا بچپن سے لے کر ان کے بڑھاپے تک ان کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کو اور آگے سے ان کی اولادوں کے لئے اپنا پیٹ کاٹ کر جوڑتے ہیں تا کہ بچے اچھی زندگی بسر کر سکیں۔ اس لئے بچوں کا بھی فرص بنتا ہے کہ وہ بڑھاپے میں اپنے والدین کی خدمت کریں۔

اسلام میں والدین کے حقوق کاخیال رکھنے کے لئے سختی سے ہدایت کی گئی ہے۔ صیح مسلم میں ابو ہریرہ سے ایک حدیث روایت ہے، کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی : لوگوں میں سے حسن معاشرت (خدمت اور حسن سلوک ) کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ نے فرمایا : تمہاری ماں۔ اس نے کہا : پھر کون؟ فرمایا : پھر تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا : اس کے بعد کون؟ فرمایا : پھر تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا : پھر کون؟ فرمایا : پھر تمہارا والد۔

صیح مسلم کی ایک اور حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی : میں ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے اس کا اجرطلب کرتا ہوں، آپ نے فرمایا : کیا تمہارے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟ اس نے کہا : جی ہاں، بلکہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ نے فرمایا : تم اللہ سے اجر کے طالب ہو؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا : اپنے والدین کے پاس جاؤ اور اچھے برتاؤ سے ان کے ساتھ رہو۔ خوش قسمت ہے وہ اولاد جن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہیں اور وہ ان کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ والدین کی دعائیں عمر بھر بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments