میں خود بہت بڑا وائرس ہوں


پہلے ہم نے کہا کہ یہ وبا صرف چین تک محدود ہے، پھر فرمایا کہ یہ حرام جانوروں کے کھانے سے ہوتی ہے، پھر دل کو تسلی دی کہ اس سے بوڑھے اور بیمار ہی زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بیماری یورپ پہنچی تو ہم نے طعنے دیے کہ بڑے ترقی یافتہ بنتے تھے اب بولو کیسی رہی! اس کے بعد امریکہ کی باری آئی تو ہم نے پینترا بدلا کہ یہ ہم جنس پرستی کی سزا ہے۔ جب وبا ہمارے ملک میں پہنچی تو پہلا مریض دیکھنے کے لیے لوگ اسپتال کے باہر اکٹھے ہو گئے، جب پچاس مریض ہو گئے تو کہا کہ ہماری قوت مدافعت بہت بہتر ہے، ہزار مریض ہوئے تو ہم نے اذانیں دینی شروع کر دیں، دس ہزار ہوئے تو ہم نے جڑی بوٹیوں سے علاج کا ڈھنڈورا پیٹا۔

پھر کسی نے کہا کہ یہ وائرس تو دراصل امریکہ اور یورپ کی شیطانی ہے، کوئی بل گیٹس کے لتے لینے لگا تو کسی نے فائیو جی کے کھمبوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ پھر ہم نے کہا کہ یہ خدا کا عذاب ہے، کوئی بولا کہ یہ سب ڈرامہ بازی اور میڈیا کی سنسنی خیزی ہے، کچھ خرد مندوں نے یہ لطیف نکتہ بھی سمجھایا کہ ملیریا سے ہر سال اس سے زیادہ بندے مرتے ہیں کوئی نہیں پوچھتا سو گھبرانے کی ضرورت نہیں، ساتھ ہی یہ غلغلہ بھی اٹھا کہ وائرس گرمیوں میں ختم ہو جائے گا۔ ایک موقع پر ہمارے بابے میدان میں آئے اور تتو تھمبو کرتے ہوئے پیشن گوئیاں کیں کہ پندرہ سے بیس دن میں یہ وائرس ختم ہو جائے گا، کسی فلسفی نے اس میں انسانیت کی بھلائی تلاش کی اور کسی نے سائنس کا تمسخر اڑایا۔

حقیقت بڑی تلخ ہے اور وہ یہ ہے کہ تادم تحریر ملک میں کرونا وائرس کے پچھتر ہزار مریض ہو چکے ہیں اور پندرہ سو سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ مغربی ممالک کو دیے جانے والے طعنے اب کم ہو گئے ہیں اور ایسی ویڈیوز بھی سامنے نہیں آ رہیں جن میں بندے یورپ کی گلیوں میں اذانیں دیتے پھر رہے ہوں۔ حرام جانوروں کو بھی معافی مل گئی ہے اور ہم جنس پرستوں کو بھی فی الحال ہم نے در گزر کر دیا ہے۔ روحانی بابے چپ سادھ کر بیٹھ گئے ہیں اور ان کے پیروکار سوچ رہے ہیں کہ اب کون سی کوڑی لائیں جن سے ا ن ’اہل نظر‘ بابوں کا دفاع کیا جا سکے۔

سازشی تھیوریاں بھی آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں، فائیو جی کے کھمبوں کو اب کوئی آگ نہیں لگا رہا۔ گرمی اپنے جوبن پر ہے، سورج سوا نیزے پر ہے اور وائرس ہے کہ پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ سائنس کا مذاق اڑانے والے اب سرگوشیوں میں پوچھتے پھرتے ہیں کہ بھائی وہ ویکسین کا کیا بنا۔ بیماریوں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والے، جنہیں اپنی امیونٹی پر بہت ناز تھا، اب دبک کر بیٹھ گئے ہیں۔ لہسن اور ادرک گھوٹ کے کھانے والے بھی بد مزا ہو رہے ہیں اور قہوے پینے والے بھی تشکیک کا شکار ہیں۔ جو مرد مجہول اس وبا کو میڈیا کی ’ہائپ‘ قرار دیتے تھے انہیں چپ سی لگ گئی ہے کیونکہ ان کا کوئی نہ کوئی جاننا والا، عزیز، دوست یا رشتہ دار اس بیماری سے نبرد آزما ہے۔

ملیریا اور دیگر بیماریوں کی زیادہ شرح اموات والی دلیل دینے والے بھی اب منہ چھپاتے پھر رہے ہیں کیونکہ گزشتہ پانچ ماہ میں کووڈ 19 کے مریض اور اموات اب دیگر ہم پلہ بیماریوں سے زیادہ ہو چکی ہیں۔ ووہان سے پھیلنے والا وائرس امریکہ، یورپ سے ہوتا ہوا اب ہمارے گھروں تک آ پہنچا ہے۔ ”میں خود بہت بڑا وائرس ہوں“ جیسی شوخیاں اب ماند پڑ رہی ہیں!

اپنی قوم کے ان رویوں پر مجھے اب حیرت نہیں ہوتی۔ یہ رویے اگر پچاس ساٹھ برسوں میں نہیں بدلے تو اب یکایک کیسے بدل جائیں گے! سو، قوم کو فی الحال کرونا وائرس کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں اور ذرا تاریخ کا پہیہ گھما کر دیکھتے ہیں کہ اس سوچ سے ہمیں کیا نقصان پہنچا۔ 1954 میں ہم نے ملک کو ون یونٹ بنا دیا۔ پنجاب کی سوچ یہ تھی کہ یہ درست اقدام ہے، شاید ہی اس زمانے میں کوئی آواز ہو جو اس اقدام کی مخالفت میں پنجاب سے اٹھی ہو، ون یونٹ بعد میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنا۔

سن 70 ء میں آ جائیے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ہم نے شروع کیا، نام رکھا ’آپریشن سرچ لائٹ‘ ۔ جیمز بانڈ کی فلمیں ان دنوں عروج پر تھیں، یہ نام لگتا ہے ایسی ہی کسی فلم سے متاثر ہو کر رکھا گیا تھا۔ اس آپریشن کی حمایت، ماسوائے چند سر پھروں کے، قریب قریب پورے مغربی پاکستان نے کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک ٹوٹ گیا، اس کے رد عمل میں ہم نے شراب کی دکانوں کو آگ لگا دی، گویا سارا قصور کثرت شراب نوشی کا تھا۔ دس سال آگے چلتے ہیں۔

اب کی بار ہم نے جیمز بانڈ کے لباس سے جان چھڑائی اور فرغل پہن کر افغان جنگ میں کود گئے۔ پورے ملک نے اس کی حمایت کی، عقل و خرد کی بات کرنے والے چند دانشور اور سیاست دان اس وقت بھی تھے جنہوں نے کہا کہ یہ جنگ ہماری نسلیں برباد کر دے گی مگر ان طوطیوں کی آواز کسی نے نہیں سنی۔ گج وج کے ہم نے امریکہ کے شانہ بشانہ جنگ لڑی اور اس بات پر فخر کیا کہ ایک سپر پاور کو ہم نے ’بیوقوف‘ بنایا اور دوسری سپر پاور کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔

ان دنوں پورے ملک میں سیمینار ہوتے تھے جن میں افغان جہاد کے حق میں تقاریر ہوتی تھیں، اخباروں کے صفحے کالے کیے جاتے تھے، لوگوں کو جہاد کے لیے ابھارا جاتا تھا، افغانستان کے بارے میں منصوبے بنائے جاتے تھے کہ کیسے وہاں ہماری مرضی کی حکومت آئے گی، اس کے بعد ہم کاشغر تک جائیں گے، پھر وہاں سے سمندر میں تیرتے ہوئے یورپ کے ساحلوں پر جا نکلیں گے اور ریت پر سن باتھ لیتی ہوئی گوریوں کو حیران کر دیں گے۔ یہ سب کچھ اسی ملک میں ہوا، ڈنکے کی چوٹ پر اس بیانیے کی نہ صرف حمایت کی جاتی تھی بلکہ مخالفت کرنے والوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

مزید آگے چلتے ہیں۔ اب ہمارے کمانڈو کا دور مستطاب آ گیا، آپ بھی چونکہ بے عدیل تھے سو اس وقت آپ کی مخالفت کرنے والے ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ کمانڈو صاحب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ یوں لڑی جیسے امریکہ کوئی دودھ پیتا بچہ ہو، ہم نے دوبارہ یہ فرض کر لیا کہ ہم امریکہ کو الو بنا لیں گے۔ امریکہ نے تو خیر کیا الو بننا تھا اس احمقانہ پالیسی سے طالبان بھی راضی نہ ہوئے۔ ایسی دہشت گردی پھر ہم نے دیکھی کہ الامان الحفیظ۔ شاید ہی ملک کا کوئی کونا بچا ہو جہاں سے ہم نے لاشے نہ اٹھائے ہوں۔ ان دنوں بھی وہی ہوا جو پہلے ہوتا آیا تھا۔ اس دہشت گردی کے بیانیے کے حامی مختلف حیلوں بہانوں سے طالبان کی حمایت کرتے اور ان کے حق میں تاویلیں ڈھونڈتے، انہیں اپنا بھائی کہتے جبکہ اس بیانیے کی مخالفت کرنے والوں کو لبرل، سیکولر کہہ کر لتاڑا جاتا۔ تاہم وقت نے ثابت کر دیا کہ کون تاریخ کی درست سمت میں کھڑا تھا اور کون غلط۔

آج پنجاب کا کوئی دانشور ون یونٹ کی حمایت نہیں کرتا، آج آپریشن سرچ لائٹ کی شان میں قصیدے لکھنے والے بھی نہیں ملتے، آج افغان جہاد کے ثمرات گنوانے والے بھی نظر نہیں آتے اور آج طالبان کے بیانیے کے حمایتی بھی اپنی خفت مٹاتے پھرتے ہیں۔ مگر ان تمام ٹھوس حقیقتوں کے باوجود ہماری سوچ کی کجی وہیں کی وہیں ہے۔ کیونکہ وائرس ہماری سوچ میں ہے۔ اگر ہماری سوچ درست ہوتی تو ہماری تاریخ بھی درست ہوتی اور اس کا فہم بھی۔ پہلے ہم کسی حقیقت کا انکار کرتے ہیں، پھر اس میں سازش تلاش کرتے ہیں، اس کے بعد خواہ مخواہ ہر بات میں کوئی عظیم اخلاقی فلسفہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ کرونا جیسی مہلک بیماری ہی کیوں نہ ہو۔ اس رویے کے نتائج پہلے بھی بھگتے تھے، اس وبا میں پھر بھگتیں گے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments