امریکہ: اپنا مکا اپنے ہی منہ پر پڑ گیا


ہالی ووڈ کی فلمز کا اپنا ہی ایک مزاج ہے کہانی سے جدید گرافکس تک ہر شعبے میں مہارت کا وہ معیار ہے کہ جھوٹ بھی سچ لگتا ہے۔ ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھ دیکھ کر یہ یقین تو پختہ ہو گیا کہ خلائی مخلوق کے یہاں اگر کوئی نقشہ ہے تو اس پر امریکہ کے علاوہ اور کوئی ملک نہیں ہے لہذا وہ جس بھی صورت میں جس بھی دور میں زمین پر اتری تھیں، ہیں یا اتریں گی وہ سر زمین امریکہ ہی ہو گی حتی کہ فراعین کے اہراموں میں چھپی داستانیں اور تمام حنوط شدہ لاشیں اٹھتے ساتھ ہی جو کچھ بھی بولتی ہیں اس کو امریکیوں کے علاوہ کوئی ”ڈی کوڈ“ نہیں کر سکتا ہے۔

مطلب امریکہ، فلموں کے ذریعے دنیا کے سامنے ایک بھرم بنایا گیا کہ امریکہ دنیا کی اعلی و ارفع قوم ہے۔ سائنس، تحقیق اور علم کی معراج پر ہے ناقابل تسخیر ہے اور اس کے سامنے کوئی مشکل مشکل نہیں۔ یہ خیال امریکی عوام کے ذہنوں میں نسل در نسل ایسا پختہ ہو گیا کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں، بات ایسے کرتے ہیں جیسے وہ ہی تو تمام دنیا کو کھلا رہے چلا رہے ہیں، حالانکہ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک خود امریکہ ہے، قانون کے درس دینے والا، دوسروں کو اخلاقیات اور انسانی حقوق سکھانے والا امریکہ خود اندر سے کس قدر کھوکھلا اور اس کا نظام کس قدر انحطاط کا شکار ہے اس کا اندازہ حالیہ عرصے میں پہلے تو طبی صورت حال اور اب قانون نافذ کرنے کے انداز دیکھ کر ہو ہی رہا ہے۔

امریکی صدر کی طاقت اور جرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ادھر ملک میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شدت آئی اور مظاہرین کا رخ وائٹ ہاؤس کی طرف ہوا ادھر امریکہ کا صدر زیر زمین بنکر میں چھپ گیا۔ وہ صدر جو ہر دوسرے دن دوسرے ممالک کو للکارتا تھا، اپنی قوم کو وائرس کے بارے میں بچگانہ مشورے اس اعتماد سے اور اس قدر اچانک دیتا تھا کہ پس منظر میں کھڑے لوگوں کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ جاتے تھے مگر ”میں سب جانتا ہوں اور سب سے زیادہ جانتا ہوں“ کے زعم میں مبتلا اس شخص کو کچھ بھی سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے کیونکہ یہ شخص خود پرستی کی انتہا پر پہنچنے والوں کی بھی انتہا پر ہے۔

امریکی تاریخ میں بہت سے صدور کے فیصلے متنازعہ رہے، ان کے فیصلوں کا خمیازہ ناصرف امریکی عوام بلکہ دنیا بھر کو بھگتنا پڑا، ماضی قریب میں بش جونیئر جس نے ”خطرناک مہلک ایٹمی ہتھیار“ عظیم، معصوم اور امن پسند امریکہ سمیت ساری دنیا کے لیے تباہ کن ہیں اور عراق کا عیار، شاطر اور ظالم حکمران تو بس امریکی عوام کو مارنے کے لیے بٹن پر انگلی رکھے بیٹھا ہے ”کا ڈرامہ رچا کر ، نائن الیون کو بہانہ بناتے ہوئے جس طرح عراق کی تباہی کا آغاز کیا، نہتے معصوم لوگوں کو دہشت گرد کہہ کہہ کر موت کے گھاٹ اتار دیا، گھروں کو دہشت گردوں کے اڈے کہہ کہہ کر بموں سے اڑا دیا وہ تاریخ بھول نہیں سکتی اور اس سب تباہی کے بعد بش جونیئر مسکین سی شکل بنا کر میڈیا پر آتا ہے اور کہتا ہے کہ“ ہمارے خفیہ اداروں کی معلومات غلط تھیں، عراق کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے ”واہ! ارے واہ! کیا کہنے آپ کے امن پسند جنگی جنون کے۔

اپنے فیصلوں کے ذریعے، مخالفت کے باوجود، عالمی اداروں کی تنبیہ کے باوجود انسانوں کے لیے ایسی تباہی لانے والا امریکہ جب کورونا وائرس کے حوالے سے ”پکے ثبوت ہیں“ کا ایک نیا شوشہ چھوڑتا ہے اور ووہان کی لیب میں اس وائرس کو بنانے یا اس کے اخراج کے قصے سنا کر دنیا کو گمراہ کرتا ہے مگر ثبوت کوئی نہیں دیتا تو عراق کے بارے میں ان کے پکے ثبوتوں کا ڈرامہ ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر ”کوئی پکا ثبوت“ اس کے تھیلے میں تھا یہ اور بات کہ تھیلے میں سے کوئی بلی باہر نہیں نکل سکی کیونکہ نہ تھیلا تھا نہ ہی بلی تھی۔

الٹا ان کے اپنے سائنسدانوں، طبی ماہرین اور ذرائع ابلاغ نے ثبوت دیے کہ یہ وائرس تو دسمبر سے ہی امریکہ میں تھا۔ ایسے بے سروپا الزامات لگانے والا دروغ گو ملک جب چین کو کہتا ہے کہ چونکہ وائرس کا آغاز تمہارے ملک سے ہوا اس لیے نا صرف یہ کہ اس کے ذمہ دار تم ہو بلکہ اب جو معاشی نقصان ہے اس کا ہرجانہ بھی تم دو تو اس سے کوئی یہ سوال پوچھے کہ عراق کے معصوم بچوں کے قتل کا ہرجانہ تم نے دے دیا کیا؟ اس کی معیشت کو جس طرح تباہ کیا اس کا ازالہ کر دیا کیا؟

اسرائیل کو تمام مخالفت کے باوجود گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کروا کے لاکھوں فلسطینیوں کو انسانیت سوز سلوک کا نشانہ بنانے کی راہ ہموار کرنے والو، ان کو ہرجانہ کب دو گے؟ ویت نام میں نسلوں کو تباہی میں دھکیلنے کے فیصلے کرنے والو ان کے لیے کتنے فنڈز قائم کیے ہیں؟ یہ فیصلے انسانوں کے تھے جن پر بے شرموں کی طرح منہ پھیر کر تم بیٹھے ہو جب کہ ایک وبا جو کہ قدرتی آفت ہے اس کے لیے تم ہرجانوں کا دعوی کرتے ہو؟

اور یہ تو محض دو تین مثالیں ہیں تاریخ تو بھری پڑی ہے امریکہ اور اس کہ شہ پر ہرجانے کا دعوی کرنے والوں کے کارناموں سے، اپنی مرضی سے نہتے لوگوں پر ایٹم بم گرانے والی قوم کئی سال بعد مرنے والوں کے نام ایک فنڈ کا آغاز کر کے سمجھتی ہے انسانیت کے خلاف اس کے جرم کا ازالہ ہو گیا؟ جنگ عظیم میں بھٹیوں میں زندہ انسانوں کو پھینکنے اور جنگی جرائم کی انتہا کر دینے والا جرمنی اٹھ کر چین کو کہتا ہے ہرجانہ دو؟ کیا وہ اپنے فیصلوں کے ہرجانے ادا کر چکا؟

اور تو اور، کشمیر، گجرات، ایودھیا، گولڈن ٹمپل، دلی میں قتل عام کرنے والا بھارت بھی پھدک پھدک کر امریکہ کے کندھوں پر چڑھتا ہے اور چین کو کہتا ہے ہرجانہ دو ظلم ہو گیا ہے انسانوں کے ساتھ۔ یاد کیجیے ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے ٹرمپ بھارت کے دورے پر تھا سٹیڈیم میں مودی اس کے سامنے بچھ بچھ جا رہا تھا اور ٹرمپ لہک لہک کر اس کی تعریفیں کر رہا تھا اور اسی وقت دلی میں مسلمان کٹ رہے تھے، جل رہے تھے، مر رہے تھے نہ ایک نے کہا کہ یہ میرے ملک میں کیا ہو رہا ہے اسے روکو نہ دوسرے نے کہا کہ تمہارے ملک میں انسانیت کے خلاف جرم ہو رہا ہے اسے روکو۔

ارے واہ صاحب ”شرم تم کو مگر نہیں آتی“ ۔ خیر ان دونوں عالمی نوٹنکی بازوں کو شرم چھو کر گزری ہوتی تو اس وقت لداخ پر بھارت یوں ذلیل ہو کر ٹڈی دل اور کبوتروں میں پاکستان کی سازشوں کو نہ ڈھونڈ رہا ہوتا۔ اور دوسرا جس کو دوسرے کا بال بھی نظر آ جاتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا، اپنے ملک میں لگی آگ نہیں دیکھتا، مظاہروں کی آواز جو امریکہ کی تمام ریاستوں تمام شہروں سے ہوتی ہوئی واشنگٹن میں بھی گونج رہی تھی وہ اس کو نہیں سن سکتا تھا، مگر ہاں تقریر کرتے ہوئے اسے ہانگ کانگ نظر آ رہا تھا اور وہ اس کی حیثیت تبدیل کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور پھر جب اپنے لوگ اس کے سامنے آکر کھڑے ہوتے ہیں تو وہ ڈر کر بنکر میں چھپ جاتا ہے، ارے واہ صاحب، ایک اور واہ واہ،

کچھ عرصہ پہلے جو ہانگ کانگ کے مظاہرین کو جمہوریت پسند ان کے مطالبات کو انصاف پسندی ان کے جلاؤ گھیراؤ کو آزادی اظہار کہہ رہا تھا آج وہی اپنے ملک میں قانون کے نام پر امریکی شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اور انصاف اور مساوات کے حصول کی خاطر ہونے والے مظاہروں کو فسادات اور مظاہرین کو فسادی کہہ رہا ہے۔ وہ جو تقریر میں انہیں کہتا ہے میں تمہیں انصاف دلاؤں گا وہ چار جملوں بعد اسی عوام کے کے خلاف فوج تعینات کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔

وہ جس کے نزدیک وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھا اور وہ اپنی عوام کے ساتھ ایسا نہیں کرے گا، اس کے ایسے گو مگو فیصلے کا نتیجہ ایک لاکھ سے زائد اموات اور ساڑھے اٹھارہ لاکھ سے زیادہ متاثرہ افراد کی صورت میں سامنے آیا۔ مگر ڈٹ کر غریب عوام کی فکر کرتے امریکی صدر کے ”عزم“ میں تب بھی کوئی کمی نہیں آئی ہاں لیکن جونہی مظاہروں میں عوام حکومت کے خلاف احتجاج کرتی، انصاف مانگتے ہوئی باہر نکلی اپنی حکومت اور اپنی جان بچانے کے لیے ”غریب عوام کے ہمدرد“ ڈونلڈ ٹرمپ بنکر میں جا چھپے اور فوج کو بلوا کر کرفیو کا نفاذ کر دیا، ارے واہ بھئی واہ، یہ تو ایک اور واہ واہ ہو گئی ہے۔

اب اور کیا واہ واہ کریں بس یوں سمجھیں وہ مکے، جو لہرا لہرا کر امریکہ دوسروں کو دھمکیاں دیتا تھا، دوسروں کے ملک میں علیحدگی کے نام پر ہونے والے ہنگاموں اور فسادات کو انصاف اور حق کے حصول کا قانونی حق کہتا تھا آج اس کا وہ مکا اس کے ہی منہ پر پڑ گیا ہے۔ وہ جو کہتا تھا لاک ڈاؤن، کرفیو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، چین نے اپنی عوام کے حقوق سلب کیے ہیں ظلم کیا، جس نے عوام کو ڈیٹول کے ٹیکے لگانے کے احمقانہ مشورے دیے لوگوں کو مرنے دیا مگر ان کی جانیں بچانے کے لیے لاک ڈاؤن نہیں کیا آج اپنی جان بچانے کے لیے اسی عوام کا نام لے کر فوج کے ذریعے تشدد بھی کر رہا ہے اور کرفیو بھی لگا رہا ہے

مختصر یہ کہ
آج امریکہ اپنا ہی تھو کا چاٹ رہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments