ایک نئے فطری معاہدے کی ضرورت


مشکل وقت ہے، گزر جائے گا۔ لیکن اب کے یہ مشکل وقت، کرے کے کسی ایک حصے میں، یا کسی ایک قطعۂ ار اضی کے لئے نہیں آیا۔ کرۂ ارض پر موجود خشکی کے سبھی علاقوں کے لئے آیا ہے۔ دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی۔ اور یہ وہ کلیشے ہے کہ جو مبنی بر حقیقت ہونے کے باعث، کثرت استعمال کے با وجود، گھسنے والا نہیں بلکہ اس کلیشے کے اور اس کے حقیقی ثابت ہو جانے کی وجہ سے، وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ، نت نئے معانی اور مسائل پیدا ہوں گے، جو کسی ایک خطے یا علاقے سے مخصوص نہیں ہوں گے، بلکہ اپنے سود و زیاں کی گہرائی و گیرائی میں عالمی ہوں گے۔ ۔ ۔ اور ہو رہے ہیں۔

ماضی بتاتا ہے، مشکل وقت آتے رہے ہیں۔ کبھی وباؤں تو کبھی جنگوں کی کی صورت۔ کبھی فطرت و انسانیت کے بیچ ٹکراؤ کے موجب، تو کبھی انسان کی انسان سے نسلی، مذہبی، یا علاقائی برتری کے خمار کے باعث۔ وبائیں آئیں، جنگیں ہوئیں، لیکن انسان پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہوا۔ گھاؤ بھرے۔ زخم سلے۔ لیکن انسان اور انسان کے بیچ کے معاملات میں اتنا تغیر، اتنا تبدل پہلے کبھی نہیں آیا۔ اب کی بار تو پوری دنیا میں کارو بار زندگی معطل ہو چکا۔

زمین سے چھ فٹ نیچے جانے کے خوف سے انسان، انسان سے چھ فٹ دور جا پڑا۔ دشمن تو دشمن، اپنوں سے ملتے ہوئے بھی خوف آنے لگا۔ محبت میں اختلاط کے معنی، اور اظہار کے طریقے بدل گئے۔ خوشیوں اور غموں کو منانے کے اطوار پر نظر ثانی ہونے لگی۔ ترجیحات کا از سر نو تعین ہونے لگا۔ معاشرت میں معیشت کا نمبر پہلے نمبر پر نہیں رہا۔

دکانیں بند ہوئیں۔ بازار بند ہوئے۔ کاروبار بند ہوئے۔ فیکٹریاں بند ہوئیں۔ روزگار بند ہوئے۔ بڑے بڑے فرعونوں کے ماتھوں پر پسینے آئے۔ بڑے سے بڑے شقی القلب کی آنکھیں نم ہوئیں۔ مذاہب کی من چاہی تشریحات، خود غرضانہ فتوے، اور خدا کا براہ راست ایجنٹ ہونے کے متکبرانہ عاجزی کے دعوے، سب ملیا میٹ ہوئے۔ سب بدل گیا۔

لیکن پھر بھی، مشکل وقت ہے، گزر جائے گا۔ لیکن اب کے یہ مشکل وقت، کرے کے کسی ایک حصے میں یا کسی ایک قطعۂ ار اضی کے لئے نہیں آیا۔ کرۂ ارض پر موجود خشکی کے سبھی علاقوں کے لئے آیا ہے۔ کہ گزشتہ چند صدیوں کے حصار میں رہتے اور بستے انسان نے ایجادات کے جس سلسلے کو ایڑھ لگائی تھی، اس نے اپنے دائرے میں پوری دنیا کو لے لیا ہے۔ دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ ایجادات کا مقصد انسان کے لئے، انسانیت کے لئے آسانی پیدا کرنا تھا۔ اور آبادی میں اضافے کے باعث ایجاد انسان کی ضرورت بھی تھی۔ لیکن کرۂ ارض پر موجود سبھی مخلوقات کے ساتھ ایک افہام و تفہیم کے معاہدے کی ضرورت اور اہمیت کو انسان نے نظر انداز کر دیا۔ افہام و تفہیم کا وہ معاہدہ کہ جو فطری تھا، اس معاہدے کو فراموش کر دیا گیا۔

ہم سبھوں نے فطرت کو ہلکا لے لیا۔ زمین کی قدرتی تقسیم پر اپنی مرضی تھوپنا چاہی۔ جنگل کاٹ کر فیکٹریاں اگا دیں۔ زمین کا ہرا ختم کرکے اس پر خاکی اور کالے رنگ کا پینٹ کر دیا۔ افراط کی تفریط کردی، اور تفریط کی کثرت۔ جنگلی حیات کی پریوسی کو تار تار کر دیا۔ حکم الٰہی کو مسجد، مندر، کلیسا اور گردوارے تک محدود کر دیا۔ ظلم اور زیادتی کے خلاف زبانیں گنگ ہو گئیں۔ نا جائز لاک ڈاؤنوں کو مصلحتوں کا اجازت نامہ دے دیا۔

انصاف کی ناک میں نکیل ڈال اسے اپنی مرضی کی سمت دوڑا دیا۔ مطلب فطرت سے پنگا لے لیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ فطرت سے جب بھی پنگا لیا جائگا تو وہ وہاں سے وار کرے گی جہاں کا گمان بھی نہ ہوگا۔ فطرت، سر کے بالوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ کر رکھ دے گی۔ ناک میں انگلیاں گھسیڑ کر ٹانگوں کے بیچ تک چیر کے رکھ دے گی۔ پیلی نسل سے لے کر خاکی، نیم خاکی، کالی، اور گوری نسلوں تک۔ ۔ ۔ سب کو خاک چاٹنے پر مجبور کردے گی۔ جاہ و جلال کی بڑی بڑی آہنی دیواروں اور کروفر کے چوبی دروازوں کے پیچھے چھپے ہوؤں کو کان سے پکڑ کر ناک سے لکیریں کھچوا دے گی۔

مشکل وقت ہے، گزر تو جائے گا کہ وقت کی سرشت میں گزرنا ہی لکھا ہے۔ لیکن اب کے یہ وقت گزرا تو انسانوں اور انسانوں کے بیچ اور انسانوں اور فطرت کے بیچ نئے معاہدے لکھے جائیں گے۔ لکھنے پڑیں گے۔ فطرت نے ہمیں جھٹکا دیا اور ہم سہم گئے۔ اور ہمارے اس سہماؤ میں فطرت نے اپنے اس ادھڑے پن کو سینا شروع کر دیا ہے جس کہ وجہ ہم تھے۔ فطرت کی فطرت ماں جیسی ہے۔ ۔ ۔ پھر سے مہربان ہو جائے گی۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں، فطرت نے ہمارے لگائے گھاؤ بھرنے شروع کردئے ہیں؟

اب آسمان کی طرف دیکھیں۔ آسمان کا نیلا، نکھر گیا ہے۔ تارے دکھنے لگے ہیں۔ چڑیاں چہچہانے لگی ہیں۔ زمینی کرے کے گرد حفاظتی بند میں ہماری حرکتوں سے پڑے شگاف بھرنے لگے ہیں۔ گلگت بلتستان کے کہساروں سے اترتا پانی شفاف ہو گیا ہے۔

فطرت کی فطرت ماں کے جیسی ہے۔ مہربان ہے۔ بس اسے چڑائئے مت۔ اس سے پنگا مت لیں۔ اس نے جس کے نام جو لگایا ہے اسے اسی کے پاس رہنے دیں۔ فطری تقسیم کے خلاف جارحیت نہ کریں۔ فطرت سے پیار کریں۔ یہ بھی آپ سے پیار کرے گی۔

پوری دنیا میں کاروبار زندگی معطل ہو چکنے کے بعد ایک بار پھر کھلنے کو ہے۔ لیکن مشکل وقت ٹلا نہیں ہے۔ فطرت زندگی بچانے کا، زندگی کرنے کا نیا قرینہ ہمیں سکھا چکی۔ اور اگر یہ نیا قرینہ نہ سیکھا اور قرین قیاس کہ جسے ماضی کی حمایت حاصل ہے یہی ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ اور انسان کے خسارے میں ہونے کی وجوہات فقظ دو ہیں۔ اولاً، انسان ماضی کے مزار پر مجاور بن کر تو بیٹھ سکتا ہے لیکن ماضی سے سبق نہیں سیکھتا۔ دوسرے، انسان، میانہ رو نہیں ہے۔

مشکل وقت ہے گزر جائے گا۔ لیکن اگر مشکل وقت سے سبق نہ سیکھا تو اب کے مشکل وقت کہیں نہیں جانے کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments