ٹڈی دل کا ایک چھوٹا حملہ: نوبل انعام یافتہ ادیبہ کا افسانہ


دونوں آدمیوں نے اپنے اوپر سے کیڑوں کو جھاڑا اور اندر داخل ہو گئے۔

رچرڈ نے اس کی پیشانی پہ بوسہ دیتے ہوئے کہا۔ ’شکر ہے، اصل جھنڈ نکل گیا۔ ۔ ۔‘ ’خدا کے لئے۔‘ مارگریٹ نے غصے سے تقریباً روتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ’یہ جو ہوا ہے۔ ۔ ۔ کیا یہ تباہی نہیں۔ ۔ ۔‘

اب فضا پہلے جیسی گھٹن زدہ اور سیاہ نہ تھی بلکہ آسمان کا نیلا رنگ اب دکھائی دے رہا تھا۔ گو کہ کیڑے اب بھی یہاں سے وہاں سنسناتے اڑ رہے تھے۔ ۔ ۔ باقی سب جو کچھ تھا۔ ۔ ۔ درخت، جھاڑیاں، زمین۔ ۔ ۔ سب اس حرکت کرتے بھورے ریلے کے نیچے چھپ گیا تھا۔

’اب اگر رات کو بارش نہیں ہوتی اور انھیں یہیں روک نہیں لیتی تو۔ ۔ ۔‘ سٹیفن نے کہنا شروع کیا۔ ۔ ۔ ’اگر بارش انھیں یہاں روک نہیں لیتی تو یہ سب صبح سورج نکلتے ہی یہاں سے چلے جائیں گے۔‘

’ پھر بھی کچھ نوزائیدہ ٹڈیاں تو رہ جائیں گی۔‘ رچرڈ نے کہا۔ ’پر اصل جھنڈ سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ ۔ ۔ بس یہی ایک اچھی بات ہے‘

مارگریٹ اٹھی، اپنے آنسو پونچھے اور یوں دکھنے کی کوشش کرنے لگی گویا وہ روئی ہی نہ تھی۔ ۔ ۔ اس نے شام کے کھانے کا انتظام کیا۔ ۔ ۔ ملازم بھی تھکن سے چور، ہلنے جلنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ کھانے کے بعد اس نے انھیں ان کے کمروں میں آرام کے لئے جانے کو کہا۔ ۔ ۔

کھانے کے بعد وہ ان کی باتیں سنتی رہی۔ ۔ ۔ ایک بھی مکئی کا پودا نہ بچا تھا۔ ۔ ۔ ایک بھی نہیں۔ وہ سنتی رہی۔ ۔ ۔ اب جوں ہی ٹڈیوں کا یہ ریلا جائے گا، وہ کھیتوں میں مشینوں کے ذریعے نئی بوائی کریں گے۔ ۔ ۔ سب نئے سرے سے شروع کرنا ہو گا۔ ۔ ۔

مارگریٹ سوچتی رہی کہ اس سب کا فائدہ کیا اگر کھیت میں نوزائیدہ ٹڈیاں ہر طرف رینگتی رہیں؟ مگر وہ حکومت کے جاری کردہ کتابچوں کی بات کر رہے تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ ان نوزائیدہ ٹڈیوں سے کیسے جان چھڑانی ہے۔ ۔ ۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ آدمی ہر وقت کھیتوں میں گشت پہ رہیں۔ اور گھاس میں کسی بھی قسم کی حرکت کا جائزہ لیتے رہیں۔ ۔ ۔ اگر کہیں سیاہ رنگ کی، حرکت کرتی جھینگر نما کوئی شے دکھے، تو زمین کے ایسے ٹکڑے کے گرد خندق کھود لیں یا پھر حکومت کا مہیا کردہ زہر مار سپرے چھڑک دیں۔ ۔ ۔ حکومت کو اس عالمی وبا سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا پانے کے لئے ہر کسان کی مدد درکار ہے۔ ۔ ۔ مختصراً یہ کہ آپ کو جہاں بھی یہ ملیں۔ یعنی نو زائیدہ ٹڈیاں، بس ان کو وہیں ختم کر دیں۔ ۔ ۔ وہ ایسے بات کر رہے تھے جیسے کسی جنگ کی تیاری کر رہے ہوں۔ ۔ مارگریٹ حیرانی سے سب سنتی رہی۔

رات ہوئی تو خاموشی چھا گئی۔ باہر جو فوج زمین پہ اتر چکی تھی اب اس کی کوئی آواز نہ تھی۔ بس کبھی کبھی کسی درخت کی کوئی شاخ چٹختی تو اس کا تڑاخ سنائی دیتا۔

مارگریٹ رات بھر بے چین رہی۔ ۔ ۔ رچرڈ اس کے پاس بستر میں بے سدھ سوتا رہا۔ ۔ ۔ صبح بستر پہ پھیلی سورج کی سنہری روشنی سے اس کی آنکھ کھلی۔ ۔ ۔ صاف شفاف روشنی۔ ۔ بس کبھی کبھی ایک سائے کا بادل سا لہراتا ہوا گزر جاتا۔ ۔ ۔ وہ کھڑکی کے پاس گئی۔ بوڑھا سٹیفن پہلے سے جاگ چکا تھا۔ ۔ ۔ وہ باہر کھڑا جھاڑیوں کو بغور دیکھ رہا تھا۔ ۔ ۔ وہ بھی حیرت اور تذبذب سے نہ چاہتے ہوئے بھی وہیں کھڑی ہو کر دیکھنے لگی۔ ۔ ۔ یوں لگ رہا تھا کہ ہر درخت، ہر جھاڑی، ساری زمین، پیلی روشنی میں نہا گئی ہو۔ ۔ ۔ زمین پہ پڑی ٹڈیاں رات کی شبنم اپنے پروں سے جھاڑ رہی تھیں۔ ہر طرف سرخی مائل سنہری روشنی پھیل چکی تھی۔

وہ باہر بوڑھے سٹیفن کے پاس جانے لگی۔ ۔ ۔ اس نے کیڑوں کے درمیان احتیاط سے پاؤں رکھے۔ ۔ ۔ وہ دونوں کھڑے دیکھتے رہے۔ اوپر آسمان نیلا تھا۔ ۔ ۔ نیلا اور شفاف
’ سب ٹھیک ہو گیا۔‘ بوڑھے سٹیفن نے اطمینان سے کہا۔

مارگریٹ کو خیال آیا کہ بے شک ہم تباہ ہو گئے، دیوالیہ ہو گئے مگر صبح سویرے اس طرح ٹڈیوں کی فوج کا پر جھاڑنے کا منظر کتنوں نے دیکھا ہوگا۔ ۔ ۔

دور چوٹی کی طرف، آسمان میں ایک ہلکا سا سرخ دھبہ نمودار ہوا۔ ۔ ۔ وہ گہرا ہوتا گیا اور پھیلتا گیا۔ ۔ ۔ ’وہ دیکھو۔ وہ جا رہی ہیں۔‘ بوڑھا سٹیفن چلایا۔ ’یہ ہے اصل جھنڈ جو اب جنوب کی طرف نکل گیا۔‘

اور پھر درختوں سے، ان کے گرد زمین پہ ہر طرف سے، ٹڈیوں کو پر لگنے لگے۔ وہ چھوٹے چھوٹے جہازوں کی طرح پرواز کی تیاری کرنے لگیں۔ وہ پرواز کے لئے اپنے پروں کے خشک ہونے کی منتظر تھیں۔ اور پھر وہ اڑ گئیں۔ ۔ ۔ ایک سرخی مائل غبار جھاڑیوں سے، کھیتوں میں ہر طرف سے، زمین سے اٹھا۔ ایک بار پھر سورج تاریک ہو گیا۔ ۔ ۔ درختوں کی لدی ہوئی شاخوں سے جب یہ ٹڈیاں اڑیں تو پیچھے کچھ نہ بچا تھا۔ ۔ ۔ محض شاخوں کی سیاہ ڈنڈیاں اور درختوں کے تنے۔ سبز کچھ نہ بچا تھا۔ ۔ ۔ کچھ بھی نہیں۔ رچرڈ بھی جاگ چکا تھا۔ ۔ ۔ وہ تینوں کھڑے تمام صبح یہ منظر دیکھتے رہے۔ ۔ ۔ حتیٰ کہ یہ بھورا خول ہلکا ہوتے ہوتے تحلیل ہو گیا۔ ۔ ۔ ٹڈیوں کے اصل غول سے جا ملا اور اب یہ سرخی مائل بھورا بادل جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ۔ ۔

وہ زمین جہاں نئی فصل سے پہلے سبزے کی ایک تہہ لگنا شروع ہو گئی تھی، جہاں ننھے ننھے پودے نکل آئے تھے۔ اب وہ زمین سیاہ اور بنجر دکھائی دیتی تھی۔ ایک اجڑی ہوئی زمین جہاں کوئی سبزہ نہ تھا۔ ۔ ۔ دور دور تک کہیں نہیں۔

دوپہر تک وہ سرخ بادل غائب ہو گیا۔ ۔ ۔ کبھی کبھی کوئی ٹڈی کہیں سے آ گرتی۔ فرش پہ لاشوں اور زخمیوں کے ڈھیر تھے۔ ۔ ۔ افریقی مزدور درخت کی شاخوں کی مدد سے انھیں اکٹھا کرنے میں لگ گئے اور اپنے کنستروں میں بھرنے گے۔ ۔ ۔

’ سوکھے ٹڈے کبھی کھائے ہیں، مارگریٹ؟‘ بوڑھے سٹیفن نے اس سے پوچھا۔ ۔ ۔ ’بیس سال پہلے جب ایسی ہی تباہ کاری ہوئی تھی تو میں نے تین مہینے بچی کھچی مکئی اور انھیں خشک ٹڈوں پہ گزارا کیا تھا۔ ۔ ۔ ان کا ذائقہ برا نہیں ہوتا۔ اگر بیان کیا جائے تو۔ ۔ ۔ دھنکی ہوئی مچھلی جیسا ہوتا ہے‘

مگر مارگریٹ تو اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔

دوپہر کا کھانا کھا کر مرد پھر زمینوں کی طرف روانہ ہوئے۔ زمین کی نئے سرے سے بوائی ہو گی۔ ۔ ۔ خوش نصیبی ہو گی اگر کوئی اور ٹڈی دل اس طرف نہ نکل آیا۔ ۔ ۔ انھیں امید تھی کہ جلد ہی بارش برسے گی تو نئی گھاس نکال آئے گی ورنہ تو مویشیوں کے مرنے کا بھی خوف تھا۔ ۔ ۔ کھیتوں میں تو ایک پتا تک نہ بچا تھا۔ ۔ ۔

مارگریٹ کے ذہن میں ابھی تک ٹڈی دل کے تین چار سال پے در پے حملے والی بات اٹکی تھی۔ ۔ ۔ انھیں ٹڈی دل کو بھی ایک موسم کی طرح ہی لینا تھا جو کبھی بھی آ سکتا تھا۔ ۔ ۔ وہ خود کو جنگ میں بچ جانے والا سپاہی محسوس کر رہی تھی۔ ۔ ۔ اگر کھیتوں کی اس تباہ کاری کو بربادی نہیں کہتے، تو پھر کسے کہتے ہیں؟

مگر آج مردوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔ ۔ ۔ ’اس سے برا بھی ہو سکتا تھا۔ ۔ ۔‘ وہ باتیں کر رہے تھے۔ ۔ ۔ ’اس سے کہیں زیادہ تباہی ہو سکتی تھی۔‘

( ڈورس مے لیسنگ بیسویں صدی کی برطانوی مصنفہ اور ناول نگار ہیں جن کی پیدائش 1919 میں ایران میں ہوئی۔ ۔ ۔ انھوں نے یہ افسانہ 1955 میں تحریر کیا۔ اپنی زندگی کے ابتدائی برس افریقی ممالک میں گزارنے کی وجہ سے اس افسانے کی زمین بھی زمبابوے کا ایک خطہ روڈیشیا کا زرخیز علاقہ ہے جہاں ان کے والد کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ دیگر کئی ادبی ایوارڈ حاصل کرنے کے علاوہ ڈورس لیسنگ کو 2007 میں ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے کا اعزاز بھی ملا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments