کیا تنہائی باعث اذیت ہے؟


تنہائی ایک نعمت بن جاتی ہے جب یہ ہمیں وہ انداز نظر عطا کرتی ہے، جس سے ہمیں دنیا اور اس میں موجود انسانوں کی حرکات ”بازیچۂ اطفال“ دکھائی دیتی ہیں۔ تنہائی اس وقت بھی رحمت بن جاتی ہے جب ہم دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کے طلبگار نہیں رہتے ہیں۔ ماہر نفسیات کارل ژونگ فرماتے ہیں کہ ”تنہائی میرے لیے مسیحائی کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ مجھے جینے کے قابل بناتی ہے۔ اکثر و بیشتر میرے لیے گفتگو سوہان روح ثابت ہوتی ہے اور میں ایک لمبے عرصے تک خاموش رہتا ہوں تاکہ الفاظ کی ادائیگی سے جو بے ثمری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اسے مندمل کر سکوں۔“

انسان اس صورت میں تنہا ہو جاتا ہے جب وہ کچھ ایسا جان اور دیکھ لیتا ہے جو دوسروں کے دائرۂ علم سے باہر ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اسے جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ تنہائی اس صورت میں باعث اذیت ہوتی ہے جب ہم اپنے دل کی بات زبان پر نہ لا سکیں باوجودیکہ ہم چاروں اطراف سے لوگوں کے نرغے میں ہوں۔ تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہے جب ہماری زبان کسی بھی سبب سے ہمارے دل کی رفیق نہ بن سکے۔

ڈاکٹر ووک مرتھی امریکہ کے انیسویں سرجن جنرل ہیں۔ انہوں نے تنہائی کے مہلک اثرات پر ایک کتاب تحریر کی ہے۔ ان کے مطابق تنہائی ذہنی بیماریوں کی ماں ہے۔ لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جونہی یہ احساس ان کے دل میں جاگزیں ہوتا ہے کہ اگر وہ آج مر گئے تو آنے والے کل میں لوگ ان کے نہ ہونے کو نوٹس بھی نہیں کریں گے۔ مجید امجد نے بھی اپنے درج ذیل شعر میں اسی کیفیت کی ترجمانی کی ہے۔

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

اخوت کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب نے غربت کی کیا خوب تعریف کی ہے کہ ”غربت وسائل کی کمی کا نام نہیں ہے، غربت بھرے پرے معاشرے میں تنہا رہ جانے کا نام ہے۔“ عربی زبان کی رو سے یتیم کے بنیادی معانی ہیں، ایسا شخص جو معاشرے میں تنہا رہ جائے، جس کا کوئی ساتھی نہ ہو، جو کسی پارٹی سے وابستہ نہ ہو اور جس کی کوئی سفارش کرنے والا نہ ہو، خواہ وہ کتنی ہی عمر کا کیوں نہ ہو۔ قرآن حکیم کی سورۃ الماعون میں ارشاد خداوندی ہے کہ جو یتیم کو دھتکارتا ہے وہ درحقیقت دین کی تکذیب کرتا ہے۔

سورۃ الفجر میں رب العزت نے فرمایا کے جس معاشرے میں یتیموں کی عزت نہیں ہوتی، وہ رسوا ہو جاتا ہے۔ من حیث القوم ہماری رسوائی کے چرچے اقوام عالم اور آسمانوں پر ہیں کیونکہ ہم تنہا رہ جانے والوں کا سہارا نہیں بنتے ہیں اور وہ شخص جو ہزاروں انسانوں کے قریب ہونے کے باوجود اپنے آپ کو تنہا پاتا ہے، ہم اس کی تنہائی کا مداوا کرنے کے لیے ٹس سے مس نہیں ہوتے ہیں۔ ہم اپنے آپ میں گم ہیں کیونکہ ہماری ساری لہریں اپنی ہیں اور سارے روگ بھی خود کے پالے ہوئے ہیں۔ ہم دریا ہیں لیکن پھر بھی پیاسے ہیں کیونکہ حرص نے ہمیں نہ ختم ہونے والی پیاس سے آشنا کر دیا ہے۔ مجید امجد نے پھر ہمارے گونگے جذبات کو اظہار کی دولت عطا کی اور کیا خوب اکلاپے کو بیان کیا ہے۔

کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا

ڈاکٹر ووک مرتھی کہتے ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد جانتے تھے کہ اکٹھے رہنے میں تحفظ ہے اور رشتے ناتے ہمارے استحکام کا باعث بنتے ہیں لیکن پھر یوں ہوا کہ سوشل میڈیا سے دیوانہ وار لگاؤ نے ہمیں رنگدار چق (سکرین) سے چپکا دیا اور ہم نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دل کی باتیں کرنا چھوڑ دیں۔ اب ہم یہ تو جانتے ہیں کہ امریکہ کی گلیوں میں کیا ہو رہا ہے لیکن ہمیں یہ قطعاً معلوم نہیں ہے کے کے بازو والی گلی میں جو گھر ہے اس کے مکین کس حال میں ہیں۔

انسانی سماج میں تنہائی بڑھنے کا ایک قوی سبب یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں تو نقاب اوڑھ لیتے ہیں۔ اپنی گفتگو کو متعدد چھلنیوں س سے گزارتے ہیں اور پھر لب گویا دراز کرتے ہیں۔ ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے دل کی بات کر دی تو ہمارا مخاطب بے آرام ہو جائے گا اور رشتے کے کچے دھاگے ٹوٹ جائیں گے۔ تاہم ماہرین نفسیات متفق ہیں کہ سچے اور پائیدار انسانی رشتے اسی صورت قائم ہو سکتے ہیں جب بولنا بغیر کسی جھجک اور خوف کے ممکن ہو اور سننے کا بلا تعصب امکان پایا جاتا ہو۔

بول اے سکوت دل کہ در بے نشاں کھلے
مجھ پر کبھی تو عقدۂ ہفت آسماں کھلے
سہمی کھڑی ہیں خوف تلاطم سے کشتیاں
موج ہوا کو ضد کہ کوئی بادباں کھلے
(محسن نقوی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments