ثقافتی تخصیص اور پاکستان کے زمینی حقائق


یہ لان والے بھی نا، کبھی کوئی موسم نہیں گزرتا جب چھری تلے نہ آئیں۔ شروع شروع میں تو لوگوں کو ان کے کپڑوں کے نقش و نگار ناگوار گزرے کہ ایسے دیدہ زیب کپڑے بہو بیٹیاں پہنیں گی تو بے پردگی ہوگی۔ پھر یہ معاملہ ٹھنڈا پڑا تو لان والوں کی تشہیر کے انداز کو تنقید کے نشتروں نے چھلنی کرنا شروع کیا۔ شاہراہوں، چوکوں کے آسماں کو چھوتے دیو ہیکل بل بورڈز پر چسپاں ماڈل بہن بیٹیوں کی تصاویر موضوع بحث بنی، ناز و اندام دکھلاتی ماڈلز کی تصاویر سے سینوں پر سانپ رینگنے لگے۔ یہ رسوائی وقت کی بدلتی رتوں کی گرد میں دبنے لگی تو لان کی سستے داموں فروخت کی ویڈیوز زیر بحث آ گئیں۔ طنز و مزاح سے لے کر بدتمیزی تک کا سفر خوش اسلوبی سے طے ہوا۔ کچھ عرصے سے تو ہماری سماعتوں سے قصے ہی عجب ٹکرا رہے ہیں۔ آخر یہ لان والوں کو ہو کیا گیا ہے؟

اب کی بار لشکر کشی بنیاد پرست نہیں روشن خیال لوگ کر رہے ہیں۔ پہلے ذرا ہم روشن خیال نظریہ پر روشنی ڈال لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں بدلتی دنیا کے رواج اور تصرفات متعارف ہوتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ تھمنا بھی نہیں چاہیے۔ دنیا بھی قدیم دنیا تو رہی نہیں، قدامت پرستی کی دیوار سے کان لگا کر کب تک ساکت رہنے کے اصولوں کی چہ مگوئیاں سنی جا سکتی ہیں۔ کچھ ہم دنیا کو سکھائیں، کچھ دنیا ہمیں۔ بین الاقوامیت اور مخلوطیت کے تقاضوں کے ساتھ چل کر ہی ترقی کے عروج پر کمند ڈالی جا سکتی ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، تہذیبی و تمدنی جدت نے سب کو چند لمحوں کی دوری کے قریب کر دیا ہے۔ دنیا میں قومی، مذہبی، جغرافیائی منافرت بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے دور میں دوسری تحریکوں کے زیر اثر آنا کوئی انوکھی بات نہیں جس میں قباحت بھی کوئی نہیں مگر منطق بھی سامنے رکھی جانی چاہیے۔

اب آتے ہیں لان والوں پر، اس بار لوگ ان سے نالاں ہیں جس کی وجہ ایسے فوٹو شوٹ ہیں جن میں قیمتی اور زرق برق لباس زیب تن کیے ماڈلز ان انسانوں کے وسط کھڑی نظر آتی ہیں جن کے پاس پہننے کو تو درکنار اکثر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔ کبھی اسکول کی غریب بچیاں تو کبھی پسے ہوئے طبقے کی محنت مزدوری کرنے والی خواتین جو خواب میں بھی ایسے قیمتی جوڑے نہیں دیکھتی۔ صرف یہی نہیں، ضرورت سے زیادہ جدید اور انوکھے مواد کی تخلیق کی غرض براعظم افریقہ لے گئی جہاں مقامی قبائل کے باسیوں کی بھی بالکل ویسے ہی منظر کشی کی گئی جیسے یہاں کی بچیوں یا کم کمانے والوں کی گئی۔ افریقہ بے حد دل نشیں لوگوں اور ثقافت کا خطہ ہے جس کی ثقافت کسی طور پر ہم سے کم نہیں۔

چاہے افریقی قبائلی ہوں یا عام سیاہ فام شہری، اسلام آباد کے ترقی پذیر گاؤں کی بچیاں ہوں یا شوہر کے ہاتھوں مار کھانے والی لڑکی، ایسے نازک اور سنگین معاملات کو فن کی تصویر میں پیش کرنا واقع ہی معیوب بات ہے۔ نہ تو گھریلو تشدد کے خلاف مہم کو زرق برق انداز میں دکھایا جانا چاہیے نہ ہی معاشی طور پر مفلس طبقے کے لوگوں میں بیٹھ کر دس دس ہزار کے جوڑے کی نمائش جائز ہے۔ ایسے ہی کسی انسان خاص طور پر کسی خطے کے باسیوں کو گملے یا پھول کے طور پر فوٹو شوٹ میں نمائشی جزو بنا کر سجایا جانا باعث ستائش نہیں ہے جبکہ ان انسانوں کے خلاف ظلم اور جبر کی مثال نہ ملتی ہو۔

حال ہی میں ایک مشہور لان نے کچھ ایسا ہی طوق اپنے گلے میں سجایا ہے جس کو نام نسلی رواداری کا دیا گیا ہے۔ بے شک ان کی نیت میں کھوٹ نہ ہوگا مگر تخلیق کاروں کے دماغ میں خیالات مناسب نہیں ہیں۔ پہلا سوال ہی ثقافتی تخصیص کا اٹھتا ہے۔ کسی بھی قوم یا نسل کی ثقافت کو اپنا بنا کر پیش کرنا یا اس قوم کے باشندوں کو اپنے فن پاروں کی مانند استعمال کرنا مناسب عمل نہیں تصور ہوتا۔ کلچرل ایپروپری ایشن یا ثقافتی تخصیص صرف عمرانیات کا ایجاد کردہ مفہوم نہیں ہے۔

افریقہ میں گورے کی سامراجیت کی بد ترین مثال کا نام ہے۔ سیاہ فام افریقیوں کو غلام بنا کر یورپ اور امریکہ میں انسانی تجارت کی گئی۔ صرف یہی نہیں، ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کی تمثیل نہیں باندھی جا سکتی جو بڑے پیمانے پر نسل کشی پر محیط ہے۔ حالات کی ستم ظریفی کے باوجود سیاہ فام افراد نے اپنی سیاسی جدوجہد اور قانونی حیثیت کو منوا کر دم لیا جو دہائیوں پر محیط ہے۔ انہوں نے نا صرف غلامی کی زنجیریں توڑی بلکہ اپنے تشخص کو نئی شکل دی، ایک شناخت سے دوسری شناخت بنانے کا سفر انہی کوششوں اور لاکھوں جانوں کے ضیاع کے بعد ممکن ہوا۔

اگر کوئی دوسری قوم یا نسل یہ پہچان دوبارہ سے چھیننے یا اپنانے کی حماقت کرتی ہے تو اس کو ثقافتی تخصیص کا نام دیا جاتا ہے۔ جو سیاہ فام افراد کے لئے ناقابل قبول ہے۔ جس قوم نے غاصبین کے قبضے سے اپنی شناخت تخلیق کی ہو، جن کی سیاسی و قانونی بود و باش حالات کے تقاضوں کے تحت لاکھوں جانوں کے عوض عمل میں آئی ہو، نہ ایسی قوم کے افراد کو نمائش کے طور سجایا جانا انسانی فعل ہے جو کسی بھی صورت قابل قبول ہو سکتا ہے نہ ہی اس عظیم جدوجہد کا ہماری سیاسی اور تاریخی اکائیوں میں کوئی لین دین ثابت ہوتا ہے۔

پاکستان میں سیاہ فام اور سفید فام نسلوں کی بحث موجود ہے نہ ہی تاریخ۔ دنیا میں یہ بحث یورپی اور امریکی سامراجی کے بعد شروع ہوئی جب افریقہ سے آبائی باشندوں کو غلام بنا کر ان ملکوں میں درآمد کیا جاتا یا افریقہ میں سامراجیت کے بیج بوئے گئے، ان کو رنگ اور نسل کی بنیاد پر ہزیمت کا سامنا رہا۔ سیاہ فام عوام پر گوروں کے ظلم اور بربریت کی پوری تاریخ اور ان کے حقوق کے حصول کی مکمل جدوجہد ہے۔ پاکستان کا اس تاریخ اور سیاسی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہمارے رنگ اور نسل کے امتیاز کی الگ اور طویل داستان اپنی جگہ موجود ہے جو سیاسی نہیں ہے۔ اس لئے ایسے تخلیقی منصوبے جن میں بین النسل تعلقات اور میل جول کسی معاشرتی تفرقہ کے بنا دکھائے جائیں یورپی اور امریکی ممالک میں بے حد مثبت پہلو کے حامل ہو سکتے ہیں مگر پاکستان میں ان کے ہونے نا ہونے سے فرق نہیں پڑتا نہ ہی عوام ایسے تلخ تاریخی حقائق سے مکمل اگاہ ہے۔ اس کی خالص وجہ یہاں پر بین النسل ہم آہنگی اور رواداری کی بحث اور تاریخ مختلف ہونا ہے۔ پاکستان میں گورے اور کالے کی نہ سیاسی دلیل پیدا کی جا سکتی ہے نہ اس کا سماجی اکائیوں سے رشتہ جوڑا جاسکتا ہے جس کی بنیاد افریقی غلاموں کی تجارت اور نسل کشی پر ہی محیط ہے۔

حال ہی میں طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہونے والی معروف ماڈل زارا عابد کو اسی دلیل کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ زارا نے سانولی رنگت کی ترویج اور اس حوالے سے اجتماعی آگاہی کے لئے ایک شوٹ کیا تھا، زارا بذات خود فخر سے کہتی تھیں کہ وہ سانولی ہیں اور اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ ان پر ثقافتی تخصیص کے نام پر تنقید کرنا زمینی حقائق کے خلاف تھا جبکہ زارا کی دلیل پاکستان کے سماجی ڈھانچے کے تناظر میں بالکل درست تھی۔ پاکستان میں ایسی مہمات کے ذریعے ہی آگاہی دینے کا فائدہ ہو سکتا ہے، جن میں ہماری تاریخ کے آئینے میں حال کی عکاسی کی گئی ہو نہ کہ دوسری اقوام کی جن کی سیاسی تحریک کا ہماری تاریخ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں جڑتا۔ اسی بنیاد پر ایسے مواد کے بنائے جانے کا مقصد مفقود ہو کر رہ ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments